Episode 35 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 35 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

یہ دن شفق کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ وہ کس قدر خوش اور مطمئن تھی۔ شاہ میر آفس کے بعد سارا وقت اسے ہی دیتا تھا۔ اس نے اپنی پہلے والی ساری سرگرمیاں ترک کر دی تھیں۔ اگر کبھی ملیحہ اور فروا میں سے کسی کا فون آتا تو وہ بغیر سنے ہی فون ڈسکنیکٹ کر دیتا تھا۔
وہ پہلے سے بہت حد تک بدل گیا تھا۔ اس کی شخصیت کی تبدیلی نے اس کے دوستوں کو بھی چونکا دیا تھا۔
شاہ میر فون پر گفتگو میں مصروف تھا۔ دوسری طرف شاہ میر کی ممی تھیں جو کہ شفق سے بات کرنا چاہ رہی تھیں۔ شاہ میر نے اشارے سے اسے قریب بلایا اور پھر ریسیور اسے تھما دیا۔
وہ کچھ حیران سی ان سے بات کرنے لگی تھی۔ فون بند کرکے وہ شاہ میر کے قریب قالین پر بیٹھ گئی۔
”ممی تمہیں اپنے پاس بلا رہی ہیں۔“ شاہ میر نے ٹی وی آف کرکے اس کی طرف رخ کیا۔

(جاری ہے)

”ہاں… مگر…“ وہ کچھ کہتے کہتے ہچکچا کر خاموش ہو گئی۔ شاہ میر نے اس کی الجھن محسوس کر لی۔
”کیا مسئلہ ہے‘ تم جانا نہیں چاہتی؟“ شاہ میر نے تنک کر پوچھا۔
”نہیں‘ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ آپ بتائیں‘ رہ لیں گے میرے بغیر۔“ وہ شاہ میر کو ناراض نہیں کر سکتی تھی‘ اس لئے قدرے بشاشت سے بولی۔
”ہاں‘ مشکل تو ہے‘ پر کیا کریں‘ مجبوری ہے۔
ممی خفا ہوں گی۔“ شاہ میر مسکرا دیا تھا‘ اسی وقت گوگی چلی آئی۔
”چھوٹے صاحب! دودھ لاؤں؟“ وہ سر جھکائے پوچھ رہی تھی۔
”میں دے دوں گی انہیں دودھ‘ تم جاؤ۔“ شفق نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھ کر غصے سے کہا تھا۔
ممی نے ان کے لاہور آنے کے تیسرے دن ہی گوگی کو بھیج دیا تھا۔ اگرچہ گوگی کے آنے سے شفق کو بہت آسانی ہو گئی تھی مگر اس کی وقت بے وقت دخل اندازی اسے سخت ناپسند تھی۔
گوگی کو بھیج کر وہ کچن میں چلی آئی تھی۔
اگلی صبح وہ ڈرائیور کے ہمراہ پنڈی چلی گئی تھی۔ وہ صرف ایک دو دن کیلئے آئی تھی مگر اسے پورا ہفتہ رہنا پڑا تھا۔ پہلے ممی کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی تھی اور پھر اسے بخار نے گھیر لیا۔ رات کو شاہ میر کا فون آیا تو وہ رو پڑی تھی۔
”میرا یہاں دل نہیں لگ رہا‘ آپ کب آئیں گے شاہ میر؟“ اس نے ویک اینڈ پر آنے کیلئے کہا تھا مگر وہ آ نہیں سکا تھا‘ اسی لئے شفق جھنجلا رہی تھی۔
”گھومو‘ پھرو انجوائے کرو۔ دل تو لگ ہی جائے گا اور تم نے کون سا ساری زندگی وہاں رہنا ہے‘ جب ممی کہیں گی آ جانا۔“ وہ لاپروائی سے کہہ رہا تھا۔
”میرے بغیر آپ بہت خوش لگ رہے ہیں۔“ شفق نے خفگی سے کہا تھا۔ شاہ میر نے قہقہہ لگایا۔
”نہیں‘ تمہاری جدائی میں دن رات آہیں بھرتا ہوں۔“
”جھوٹ بولتے ہیں آپ‘ میں نہیں مانتی۔
شفق کو قطعاً یقین نہیں آیا تھا۔
”گوگی سے پوچھ لینا۔“
”کیا…؟“ شفق حیران ہوئی۔
”میں تمہیں یاد کرتا ہوں کہ نہیں۔“ وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔ شفق نے چڑ کر فون رکھ دیا۔ بیل ایک دفعہ پھر بجنے لگی تھی۔ شفق کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ بہت دیر تک شاہ میر سے باتیں کرنے کے بعد وہ کچھ ہلکی پھلکی ہو گئی تھی۔
رات کو اسے بڑی گہری نیند آئی تھی‘ اسی لئے آنکھ بھی دیر سے ہی کھلی۔
وہ شاور لے کر نیچے آئی تو ممی کہیں جانے کیلئے تیار بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اسے بھی اپنے ساتھ چلنے کیلئے کہا۔ وہ ایپل جوس پی کر ممی کے ہمراہ ان کی کسی عزیزہ سے ملنے کیلئے چلی گئی تھی۔
چائے پینے کے بعد اس نے ممی سے اٹھنے کیلئے کہا مگر ان کی سہیلی نے کوئی قصہ چھیڑ دیا پھر آنٹی نائلہ نے انہیں کھانے کیلئے روک لیا تھا۔ شفق کی طبیعت کچھ خراب ہو رہی تھی۔
جی بہت متلا رہا تھا‘ وہ اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔
ممی اس کی زرد رنگت دیکھ کر فکر مند ہو گئی تھیں۔ وہ انہیں تسلی دے کر ان کے قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گئی پھر جب کھانا کھا کر وہ دونوں وہاں سے رخصت ہوئیں تو انہوں نے نہایت پیار سے شفق سے پوچھا۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگی رہی۔ چلو میں تمہیں ڈاکٹر کو دکھاتی ہوں۔ پہلے بھی اتنے دن تمہیں بخار رہا ہے۔
“ ان کی جہاندیدہ نگاہیں اسے کھوج رہی تھیں۔
ان کی نظروں نے اسے بھی بے چین سا کر دیا تھا۔ وہ اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے نارمل لہجے میں بولی۔
”میں ٹھیک ہوں‘ بس ذرا سر چکرا گیا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ شیما ہنکارا سا بھر کر خاموش ہو گئی تھیں۔ جب ایک پرائیویٹ کلینک کے سامنے گاڑی رکی تو شفق کا مارے کوفت و جھنجلاہٹ کے براحال ہو گیا تھا۔
مختلف ٹیسٹ اور چیک اپ کے بعد ممی نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ خود وہ کسی جاننے والی خاتون سے گفتگو میں مصروف ہو گئی تھیں۔ شفق کے جانے کے بعد وہ ایک دفعہ پھر ڈاکٹر ماریہ کے روم میں گھس گئیں۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد ان کی واپسی ہوئی تھی۔ ان کے چہرے پر ایسا تاثر ضرور تھا جس نے شفق کو ٹھٹکا دیا تھا۔ تاہم وہ کچھ بولی نہیں تھی۔
گھر آکر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ شیما نے اپنے بیڈ روم کی طرف رخ کیا۔
جب تک جہاں زیب گھر نہیں آ گئے تھے‘ وہ زخمی ناگن کی طرح کمرے کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک چکراتی رہیں۔ جہاں زیب کے آنے ساتھ ہی گویا وہ پھٹ پڑی۔
”ہمارے بدترین خدشات کی تصدیق ہو گئی ہے۔ گوگی (ملازمہ) نے ٹھیک رپورٹ دی تھی۔“ شیما کا تنفس بے حد تیز چل رہا تھا۔ جہاں زیب کے ماتھے پر بھی سلوٹیں نمودار ہو گئیں۔
”ایسا نہیں ہونا چاہئے‘ ہرگز نہیں۔
“ وہ مٹھیاں بھینچتے ہوئے تنفر سے بولے۔
”اس خبیث کو غلطیاں کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔“ ان کی آنکھوں سے شعلے لپکنے لگے تھے۔ بریف کیس پٹخ کر انہوں نے بیگم سے کہا۔
”تم ”اسے“ واپس بھجواؤ‘ کل صبح ہی میں شرجیل کو فون کرتا ہوں۔“ جہاں زیب کچھ سوچتے ہوئے ٹیلی فون اسٹینڈ کی طرف بڑھ گئے جبکہ شیما کمرے سے باہر نکل گئی تھیں۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi