Episode 18 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 18 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”تم کب آئے۔“ وہ گڑبڑا گئی تھی۔ حیدر لب بھینچے دو قدم آگے بڑھا اور ساحرہ نے اس کی آنکھوں میں پھیلی سرخی اور چہرے کے تناؤ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہا تھا۔ اسے اسی پل حیدر سے خوف محسوس ہو رہا تھا شدید خوف۔
”بہت بڑی ایکٹر ہو تم اور میں۔“ دھیمے لہجے میں بھوکے شیر کی سی غراہٹ تھی۔ ساحرہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی۔
”میں اس دنیا کا احمق ترین آدمی ہوں۔
“ اس نے استہزائیہ ہنس کر ساحرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر تھپڑ دے مارا۔ ساحرہ کے لبوں سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے حیدر کے تنے تنے نقوش کو دیکھا۔ حیدر نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ وہ گال پر ہاتھ رکھے بے یقین سی کھڑی تھی۔ وہ اذکی نہیں ساحرہ تھی۔ اذکی کو مارنا معمولی واقعہ تھا لیکن ساحرہ کو مارنا معمولی بات نہیں تھی۔

(جاری ہے)

”تم نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔“ وہ غرائی۔ حیدر نے لگاتار دو اور تھپڑ اس کے منہ پر مارے۔ بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اس نے اُسے زور دار جھٹکا دیا تھا وہ دیوار سے جا ٹکرائی۔
”میرا دل چاہ رہا ہے کہ تمہیں شوٹ کر دوں ڈرامے باز عورت۔“وہ دھاڑا۔ پھر اسے بازو سے پکڑتے ہوئے دوبارہ اپنے مقابل کھڑا کرتے ہوئے بولا۔
”بہت شاطر دماغ ہے تمہارا۔
میں کوئی چال سمجھ ہی نہیں سکا۔ ہوں نا بے وقوف۔“ وہ اذیت سے کہتے ہوئے ایک پل کو روکا۔
”بہت ذہین ہو تم۔ میں متاثر تھا تمہارے اس شیطانی دماغ سے۔ اس حسن سے‘تعلیم سے خاندان سے۔“ اس نے آنکھوں میں امڈنے والی نمی کو صاف کرتے ہوئے لب کچلے۔
”تم سے بہتر تو وہ جاہل عورت ہے جس نے اپنے دل کے ٹکڑے کو تمہاری گود میں ڈالا۔ بقول میری ماں کے وہ نیچ عورت‘ بہت بلند ہے۔
جو میرے دیئے ہر دکھ ہر درد کو ان دو دنوں میں بھول چکی ہے کیونکہ حیدر نے اس سے پہلی مرتبہ محبت سے بات کی ہے۔ اس نے ان دو دنوں کے صدقے ہمیشہ کیلئے اپنی بچی کو تمہیں دے دیا۔ رات کو اس نے مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا میں تمہیں یہ خوشخبری رات ہی کو سنا دینا چاہتا تھا۔ اذکی نے بخوشی رضا مندی ظاہر کی تھی۔ میرے ضمیر پر پڑا بوجھ ہلکا ہو گیا۔
لیکن رات کے پچھلے پہر میں نے اسے روتے دیکھا بے تحاشا روتے ہوئے۔ اس نے میری محبت پر ممتا کو قربان کر دیا تھا مگر اپنا دل۔“
حیدر کی آواز رندھ گئی۔
”انسان کس مقام پر بے بس ہوتا ہے؟ اور کس مقام پر رسوا ہوتا ہے؟“
میں بے بس اس وقت ہوا تھا جب بابا کے چہرے پر آزردگی پھیلی دیکھی تھی۔ ان کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن تھے میں انکار کرتا تو وہ دیے بجھ جاتے۔
میں نے خود کو بے بس پایا۔ پہلی مرتبہ بابا کی محبت میں خود کو مجبور پایا تھا میں نے اور دوسری مرتبہ تمہاری محبت میں۔ جب بیمار باپ کے سامنے تم سے شادی کا اعلان کیا تھا۔ میں اس وقت بھی لاچار تھا۔ کیونکہ تمہاری چاہت نے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں پاؤں میں۔ اور آج اسی محبت نے مجھے اس مقام پر لاکر رسوا کر دیا ہے۔ تم نے کیسی محبت کی مجھ سے کہ ہر مقام پر مجھے گناہ گار کرتی رہیں‘ اللہ کا مجرم بناتی رہیں۔
وہ رو رہا تھا۔ ساحرہ نے بے یقینی سے اس کے چہرے پر پھیلتے آنسوؤں کو دیکھا۔ حیدر نے دھند کے پار بیڈ پر کمبل میں سوئی اپنی بیٹی پر نگاہ ڈالی۔ وہ ساحرہ کے چلانے اور حیدر کے دھاڑنے پر بھی نہیں اٹھی تھی۔ حالانکہ اس کی نیند بے حد ہلکی تھی۔ ذرا سا کھٹکا ہوتا اور وہ اٹھ جاتی۔
”ساحرہ! میں نے سوچا تھا کہ تمہاری دوسری شرط مان لوں۔
میں اذکی کو چھوڑنے والا تھا ہمیشہ کیلئے۔ تمام کاغذات تیار ہیں۔ میں تمہیں اور امی کو انگلینڈ لے جانا چاہتا تھا اس لئے کہ مجرم ہمیشہ منہ چھپاتا ہے۔ لیکن اب۔“ وہ رُکا تو ساحرہ کی سانسیں بھی تھم گئیں۔
”میں جا رہا ہوں ساحرہ! میرے جانے کے بعد ایک لمحے کیلئے ضرور سوچنا کہ تم نے واقعی مجھ سے محبت کی تھی یا محض میری ماں کی انا تھی یا پھر تمہاری ضد۔
حیدر پلٹ کر بیڈ کی طرف آیا۔ ساحرہ نے تیزی سے اس کے بازو کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔
”تم… مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہو حیدر‘ میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی۔“
وہ گڑگڑاتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ حیدر نے تنفر سے اس کے ہاتھوں کو جھٹکا۔
”تم اس سونے کے محل میں اکیلی رہنا۔ تنہائی تو ویسے بھی پسند ہے تمہیں۔“ وہ غرایا تھا۔
راحت بھی شور سن کر آ گئیں۔
”جو کیا تمہاری ماں نے کیا‘ میں تو محض مہرہ تھی۔“ راحت کو دیکھ کر وہ چیخی تھی۔ راحت نے بھی منٹوں میں صورت حال جان لی تھی۔ اس کی وحشت زدہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے لاپروائی سے بولیں۔
”میں نے کیا کیا ہے۔ تمہاری خاطر بہو اور پوتے پوتی کو گھر سے نکالا۔ ترستی رہتی ہوں ان کی صورت دیکھنے کیلئے… بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔
“ وہ اپنا واویلا کرنے لگیں۔ حیدر نے ماں کی طرف دیکھے بغیر دراز میں سے چند کاغذات نکالے۔
”خالہ حیدر کو روکیں یہ جا رہا ہے۔“ ساحرہ سارا غرور طنطنہ بھلائے التجا کر رہی تھی۔ حیدر نے لیدر کے بیگ میں ضروری سامان رکھا اور پھر کمبل ہٹا کر دیا کو اٹھانے لگا۔
”امی… دیکھیں دیا کو کیا ہوا ہے۔“ اس کی متوحش پھٹی پھٹی آواز نے راحت کو بے حد پریشان کر دیا۔
وہ لشتم پشتم بیڈ تک آئیں۔
”ارے یہ تو ٹھنڈی پڑی ہے۔“ راحت نے اس کے جسم کو چھوا۔ حیدر دیوانوں کی طرح اس کی نبض ور دل کی دھڑکن چیک کر رہا تھا۔ راحت نے نجمہ کو پکارا۔
”ڈاکٹر کو فون کرو۔“
”امی… دیا۔“ وہ کپکپاتی آواز میں بولا۔ دیا کا گلابی چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہو رہا تھا جب کہ ہونٹ نیلے ہو گئے تھے۔ راحت نے دل پر ہاتھ رکھا۔
”ہائے ماں صدقے کیا ہوا ہے میری بچی کو۔“ دیوار سے لگی ساحرہ نے راحت کی بلند آواز کو سنا۔ حیدر کی صدمے سے چور آواز نے اس کی رہی سہی ہمت بھی نچوڑ لی۔
”اماں… میری بیٹی مر گئی۔“ اس نے دیوار کا سہارا لیا۔
”دیا مر گئی۔“
وہ بڑبڑائی اور پھر سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے وہ گرتی چلی گئی تھی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi