Episode 20 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 20 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

بخاری صاحب کا چوکیدار اللہ بخش فجر نماز پڑھنے کیلئے مسجد جا رہا تھا جب سامنے گراؤنڈ میں ٹھنڈی گھاس پر پڑے وجود پر اس کی نظر پڑی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باڑھ پھلانگ کر اندر چلا آیا۔ اللہ بخش حیران تھا کہ اتنی صبح ٹھنڈی گھاس پر کون لیٹا ہوا ہے۔ قریب آیا تو آنکھیں حیرت سے اُبل پڑیں۔ وہ کوئی عورت تھی جس کے منہ سے سفید جھاگ نکل کر گردن اور بالوں سے چپک گیا تھا۔
اللہ بخش نے جھک کر اس کا بازو پکڑا۔ اس کا اندازہ درست نکلا تھا۔ وہ عورت مر چکی تھی اور اسے مرے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ کیونکہ اس کا وجود ٹھنڈ سے اکڑ گیا تھا۔
اللہ بخش نے اس کی کلائیوں میں پڑی سونے کی چوڑیوں اور بالیوں کو دیکھ کر عورت کی مالی حیثیت کا تعین کیا۔ پھر تھکے تھکے قدموں سے اعلان کروانے کیلئے چل دیا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

وہ پارک سے باہر نکلا تو ایک گھبرائی گھبرائی سی بوڑھی عورت کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
اللہ بخش نے اسے آواز دی۔ وہ راحت تھی جو کہ ساحرہ کو اس کے کمرے میں نہ پاکر گھبراتے ہوئے باہر نکل آئی تھیں اور جب گیٹ کھلا دیکھا تو ان کا کلیجہ حلق میں آ گیا۔
اللہ بخش نے انہیں پارک میں پڑی اس مردہ عورت کے متعلق بتایا۔ راحت کی آنکھیں ابل پڑیں۔
وہ گم صم سی اس کے ساتھ چل رہی تھیں۔
###
آج وہ پورے آٹھ برس بعد اس سرزمین پر قدم رکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اذکی تھی جو کہ چار سالہ دیا پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ دیا اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت سموئے اردگرد کے مناظر کو انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جبکہ زید قدرے بیزار سا تھا۔ کیونکہ اس کی نیند ادھوری رہ گئی تھی۔ ٹیکسی کے ذریعے وہ گھر پہنچے تھے۔
اپنے آنے کی اطلاع اس نے بہنوں کو نہیں دی تھی اسی لئے راحت ولا میں سناٹوں نے استقبال کیا۔ اس نے پھاٹک کھولا اور اندر چلا آیا۔ دھول مٹی اور جگہ جگہ گند بکھرا ہوا تھا۔ دیا نے لان میں موجود جھولے کو دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔ زید اور دیا دونوں بھاگتے ہوئے جھولے تک گئے اور پھر دونوں میں زور دار قسم کی جھڑپ ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی اذکی نے دونوں کی صلاح کروائی۔
”بیٹا! آپ بعد میں لے لینا۔ پہلے چھوٹی بہنا کو جھولا لینے دو۔“ وہ منہ بناتا ہوا دیا کو جھولے پر بٹھانے لگا۔ دیا خوب چہک رہی تھی‘ اس کی معصوم چہکار نے برسوں کی چھائی خاموشی کو توڑ ڈالا۔ سکوت ٹوٹ چکا تھا۔ سناٹا دم دبا کر بھاگ نکلا۔
اس کے جانے کے چھ ماہ بعد امی نے ساحرہ کی خودکشی کی اطلاع دی تھی۔ اس نے بے دلی سے سن کر فون رکھ دیا۔
وہ سب کچھ بھلا سکتا تھا مگر اپنی بیٹی کی قاتلہ کو معاف نہیں کر سکتا تھا۔ اسے یہی بہتر لگا تھا کہ وہ منظر سے ہٹ جائے۔ اسی لئے وہ اذکی کو لئے جدہ چلا گیا۔ دو سال پہلے راحت بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ ساحرہ کے مرنے کے بعد ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا تھا۔ سارا سارا دن بولائی بولائی حیدر کو پکارتی رہتیں۔ بیٹیاں روزانہ تو نہیں ہفتہ بعد آ جاتی تھیں۔
پاگل ماں کی خیریت دریافت کرنے۔
”حیدر۔“ اذکی نے اسے پکارا تھا۔ خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ تیزی سے اذکی کی طرف بڑھا تھا جو کہ بیگ پکڑے دروازہ کھلنے کی منتظر کھڑی تھی۔
اذکی نے اندر آکر کھڑکیاں دروازے کھولے۔ تازہ ہوا کمروں میں داخل ہوئی تو حبس کچھ کم ہوا۔ اب وہ ڈوپتا اتارے پائپ پکڑے صحن اور برآمدہ دھو رہی تھی۔ دونوں بچے پانی کو دیکھ کر اچھلنے کودنے لگے۔
”اذکی! میں کھانا لے کر آتا ہوں۔ اتنے میں تم یہ کھٹ راگ ختم کرو۔“ وہ پانی کی بوتل پکڑے اس کے قریب چلا آیا۔ اذکی نے حیدر کے مرجھائے وجود کو بغور دیکھا۔ وہ پہلے سے کس قدر بدل چکا تھا نہ مزاج میں تندی رہی تھی نہ ہی بے حسی اور لاپروائی۔ وہ بے حد ذمہ دار اور سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”کپڑے تو بدل لیں۔“ اذکی اس کے پر شکن لباس کو دیکھ کر بولی۔
”ٹھیک ہی ہیں۔ میں کون سا ولیمہ اٹینڈ کرنے جا رہا ہوں۔“ وہ بے نیازی سے کہتا ہوا دیا کو آواز دینے لگا۔ وہ بھی باپ کو باہر کی طرف جاتا دیکھ کر لپکتی ہوئی آ گئی تھی۔ حیدر نے جھک کر اسے اٹھایا اور پورچ کی طرف آ گیا۔
”بابا آپ کی گاڑی تیسری نسل کے بھی کام آئے گی یقینا…‘ وہ گاڑی کا آئل پانی چیک کرکے آہستگی سے بڑبڑایا۔
اپنی گلیاں‘ پرانے راستے سب اجنبی اجنبی سے لگ رہے تھے۔
کھانا پیک کروا کے اس نے دیا کو آئسکریم کھلائی۔ سپر مارکیٹ سے جیلی‘ کینڈیز اور چاکلیٹ کی شاپنگ کرکے وہ بڑی مسرور نظر آ رہی تھی۔
واپسی پر اپنے علاقے کے قبرستان پر نظر پڑی تو گاڑی کو روڈ پر کھڑا کرکے نیچے اتر آیا تھا۔
”بابا کدھر جا رہے ہیں۔“دیا اس کی انگلی پکڑے حیرانگی سے بولی۔
”دادو سے ملنے۔“ وہ ہولے سے بڑبڑایا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi