Episode 25 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 25 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”ہاں راحیل یار! دل لگنے کی بات بھی تم نے خوب کہی ہے۔ اپنا شہر تو اداسیوں کا شہر ہے۔ قسم سے جو شور اور ہلا گلا لاہور میں ہے‘ وہ اسلام آباد میں کہاں۔ اور دل لگتا نہیں لگایا جاتا ہے۔“
وہ ابھی ابھی ٹینس گراؤنڈ سے آیا تھا اور اب جوگرز سمیت صوفہ پر لیٹا اپنے عزیز ازجان دوست سے گفتگو میں مصروف تھا۔
”اوہ‘ نہیں یار! کہاں وہ اور کہاں زرش اور فریحہ بس یوں سمجھ لو وہ پہلی لڑکی ہے جو میرے دل کو بھائی ہے۔
باقی سب تو ٹائم پاس ہیں۔“ وہ بے حد مسرور تھا اور اردگرد سے بے نیاز بھی۔ اسی پل دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
شاہ میر نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ اندر آتی شخصیت کو دیکھ کر وہ ایک دم کھڑا ہو گیا تھا ساتھ ہی ریسیور بھی کریڈل پر ڈال دیا۔
”ہیلو ینگ مین! کیسے ہو‘ ابھی ابھی پتا چلا ہے ہمارے لاہور میں آپ کی آمد ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

سوچا کہ آپ نے تو آنا نہیں۔

ہم خود ہی مل آئیں۔“ وہ جسٹس (ر) شرجیل اعجاز تھے‘ اس کے پاپا کے بیسٹ فرینڈ۔ شاہ میر چاہتے ہوئے بھی خوش دلی کا مظاہرہ نہیں کر سکا تھا۔
”آپ کیسے ہیں انکل؟“ اس نے رسماً پوچھا۔
”ہم تو ٹھیک ٹھاک اور فٹ ہیں۔ تم اپنے باپ کی سناؤ‘ کس کس کی دم پر پاؤں رکھا ہوا ہے اس نے؟“ ان کا موڈ بہت اچھا تھا۔ صوفے پر بیٹھتے ہوئے وہ بے تکلفی سے بولے۔
شاہ میر بھی مسکرا دیا۔
”کہاں جی‘ پھندے تو آپ لوگوں کی گردنوں کے گرد کستے رہے ہیں اور الزام ہمارے سر۔“ جسٹس شرجیل نے اس کے جواب کو بے حد انجوائے کیا تھا۔ پھر اسے سراہتے ہوئے بولے۔
”تم اپنے باپ سے بھی زیادہ ذہین آفیسر ہو۔ جس عہدے پر پہنچنے کیلئے اس نے تیس سال ضائع کئے ہیں۔ تمہاری رفتار کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب تم اپنے باپ کی کرسی پر بیٹھے ہو گے اور…“
”وہ مجھے سلیوٹ کریں گے؟“ شرجیل نے کچھ حیران ہو کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا تھا اور پھر دونوں کا مشترکہ قہقہہ گونج اٹھا۔
”میں سوچ رہا تھا کہ میجر کے اسٹارز لگنے کے بعد تم کچھ سنجیدہ ہو جاؤں گے۔ مگر تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے خیالات بدلنے پڑے ہیں۔ تم بالکل ویسے ہی ہو۔ شوخ‘ شریر اور ہینڈ سم۔“ ان کے ہونٹوں پر بڑی پدرانہ قسم کی مسکراہٹ تھی۔
یہ مسکراہٹ صرف ان ہی لوگوں کیلئے تھی جو جسٹس شرجیل کو بہت محبوب تھے اور شاہ میران ہی چند لوگوں میں سے تھے۔
”انکل! آپ کیلئے چائے منگواؤں؟“ معاً اسے خیال آیا۔ شرجیل صاحب نے انکار کر دیا تھا۔ شاہ میر دل ہی دل میں خوش ہوا۔ اب وہ دعا کر رہا تھا کہ انکل کو کوئی ضروری کام یاد آ جائے۔ کیونکہ اس کی آدھی شام تو برباد ہو چکی تھی اب وہ رات انکل کی ہمراہی میں برباد کرنا نہیں چاہتا تھا۔
”کب آ رہے ہو ہماری طرف؟“ لبوں پر مچلتا سوال نوک زبان پر آ ہی گیا تھا۔
”چند دنوں تک آؤں گا۔“ اس نے فوراً ہامی بھر لی۔ گفتگو کی طوالت اسے جھنجلاہٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
”چند دنوں تک نہیں‘ تم کل آ رہے ہو۔“ جسٹس شرجیل نے محبت بھری دھونس جمائی۔
”اوکے… ٹھیک ہے۔“ اس نے بغیر سوچے سمجھے سر ہلا دیا۔
”تم جتنے شریر ہو‘ تمہارا‘ باپ اتنا ہی سنجیدہ تھا۔
تمہیں دیکھ کر مجھے اپنی جوانی یاد آ جاتی ہے میرے اور جہاں زیب کے مزاج میں بہت فرق تھا مگر ہماری دوستی پھر بھی مثالی دوستی کہلائی جاتی تھی۔ میں بے حد شرارتی تھا اور وہ بے حد سنجیدہ۔ ہر کام نہایت ہی سنجیدگی سے کرتا تھا حتیٰ کہ بے ایمانی بھی۔“
شرجیل انکل طویل… قہقہہ لگانے میں مصروف تھے۔ آدھا گھنٹہ مزید بیٹھنے کے بعد انہوں نے جانے کا قصد کیا تو شاہ میر نے بھی اطمینان بھرا سانس لیا۔
”اُف یہ ریٹائرڈ آفیسر تو پرانے قصے سنا سنا کر اپنے گھر والوں کی زندگیاں عذاب بنا دیتے ہوں گے۔ بڑی ہی باہمت خاتون ہیں آنٹی!“ وہ اپنی کنپٹیاں دباتے ہوئے زیر لب بڑبڑایا۔ شاور لینے کے بعد اس نے بال بنائے‘ پرفیوم اسپرے کیا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا۔
راستے میں سے ملیحہ کو لے کر جب وہ کلب پہنچا تو شہروز کو غصے سے مٹھیاں بھینچتے دیکھ کر فوراً بولا۔
”کچھ مت کہنا‘ ابھی دو گھنٹے ایک ریٹائرڈ بڈھے کی بکواس سن کر آ رہا ہوں۔ مزید کچھ کہا تو تمہارا سر پھاڑ دوں گا۔“
”ہیں کون بڈھا؟“ فراز بھی چونکا تھا۔
”تم کب سے ”بڈھوں“ کی کمپنی انجوائے کرنے لگے ہو۔“ شہروز نے پہلو بدل کر کہا۔
”کمپنی‘ میں تو ان کے قریب سے بھی نہ گزروں۔ خوامخواہ دماغ چاٹنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ تو شرجیل انکل تھے پاپا کے دوست۔
مجبوراً مجھے انہیں برداشت کرنا پڑا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
”ایک تو تمہارے پاپا کے دوست پورے ملک میں جراثیموں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی چلے جاؤ‘ کوئی نہ کوئی دوست اگ ہی آتا ہے۔“ ملیحہ نے بھی ناک چڑھائی۔
”دوست نہیں‘ جاسوس کہو جاسوس۔“ فراز دور کی کوڑی لایا تھا۔
”ہاں فراز کی بات میں وزن ہے۔ انکل نے تمہاری نگرانی کرنے کیلئے دوست پلس جاسوس چھوڑ رکھے ہیں“ شہروز نے بھی سر ہلایا۔
”چلو شکر ہے فراز کا وزن نہ سہی بات میں تو وزن ہے ہی۔“ شاہ میر نے شرارت سے اپنی سوکھے سڑے گہری سانولی رنگت والے دوست فراز کی طرف دیکھا۔ جو کہ ایک بیورو کریٹ کا بیٹا تھا۔
”ویسے جتنا پولیس والے کماتے ہیں اور جتنا کھاتے ہیں۔ فراز کی صحت پر تو کچھ اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا“ اشعر نے بھی آنکھیں گھمائیں۔
”فراز بے چارا تو اپنے پاپا کی ایک ٹانگ برابر بھی نہیں۔
ان کی تو ”توند“ ہی ماشاء اللہ سے“ شہروز کے مذاق نے فراز کو بھی بھڑکا دیا تھا۔ اس نے تمسخر سے ان تینوں کی طرف دیکھا۔
”پولیس والے تو پیدائشی بدنام ہیں آرمی والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک ”پہیے“ پر پورا ملک چلتا ہے اور دوسرا ”پہیہ“ آرمی چلاتی ہے بلکہ دوڑاتی ہے۔“ فراز کا لہجہ کیٹلا تھا اور زہریلا بھی۔ ان تینوں فوجیوں کے خون بھی گرم ہو اٹھے تھے۔
کیونکہ وہ بھی نسل در نسل فوج سے ہی منسلک تھے۔
”اچھا بکواس بند کرو اپنی‘ کوئی اور بات کرتے ہیں۔“ ملیحہ محفل کا رنگ بدلتے دیکھ کر تیزی سے بولی۔
”یہ بکواس نہیں حقیقت ہے۔ تم اس شہزادے شاہ میر کو ہی دیکھ لو۔ کیسے ٹھاٹ سے نوکری کر رہے ہیں۔ اپنے کیریئر کے ان پانچ چھ سالوں میں آج یہ میجر کے عہدے پر ہے اور ابھی تک اس نے سیاچن کے برف پوش پہاڑوں‘ گہری اندھی کھائیوں‘ ہڈیوں کو بھی ٹھڑا دینے والی ٹھنڈ محسوس نہیں کی‘ جس کی برف پر اگر پاؤں رکھیں تو لوہے کی طرح بے جان ہو جائیں اور اگر ہاتھ رکھیں تو سن ہو جائیں۔
یہ کس کس کی ”مہربانیوں“ کی وجہ سے پنڈی لاہور کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔
یہ سب بار میں بیٹھ کر مشروب پینے والے کیا جانیں کہ ٹھنڈ سے منجمد انگلیوں کو کٹوانے سے کیسا درد محسوس ہوتا ہے۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں…“
”جسٹ شٹ اپ فراز!“ شہروز اور اشعر چلا اٹھے تھے۔
”دفع ہو جاؤ تم یہاں سے‘ ایڈٹ۔“ ملیحہ نے تنفر سے سر جھٹکا۔
فراز کرسی گھسیٹ کر اٹھ گیا تھا پھر ان سب پر آخری طنزیہ نگاہ ڈالتا باہر نکلتا چلا گیا۔
”تمہیں کس نے مشورہ دیا تھا کہ اس عجوبے کو گروپ میں شامل کرنے کا۔“ شہروز‘ اشعر سے الجھ پڑا تھا جبکہ شاہ میر سرخ چہرہ اور انگارہ آنکھیں لئے ابھی تک اس دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے فراز گیا تھا۔
”پلیز میرو! موڈ ٹھیک کرو اپنا۔“ ملیحہ نے اپنا نازک ہاتھ اس کے بازو پر رکھ کر نزاکت سے کہا۔
”چلو اٹھو‘ کہیں اور چلتے ہیں۔“ شاہ میر ایک دم اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ان تینوں نے بھی اس کی پیروی کی تھی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi