”کس سے۔“ دیا کو شاید سمجھ نہیں آئی تھی۔ ہتھیلی کی پشت سے منہ صا ف کرکے وہ اشتیاق سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ وہ ماں کی قبر کے پاس آکر دو زانو بیٹھ گیا تھا۔ دیا نے بھی اس کی پیروی کی۔
نجانے کون کون سے منظر آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔ اس نے فاتحہ پڑھ کر چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ بہت سی نمی نے انگلیوں کی پوروں کو چھوا تھا۔ ساتھ بنی قدرے اونچی سی قبر کے سنگ مر مر کے کتبہ پر لکھا ساحرہ کا نام پڑھ کر اس کے دل خون کے آنسو رویا تھا۔
اس کا چہرہ ایک دفعہ پھر سے گیلا ہونے لگا۔ فاتحہ کیلئے ہاتھ اٹھائے تو وجود‘ کپکپانے لگا تھا۔ دیا نے بھی باپ کو دیکھ کر ننھے منے ہاتھ دعا کیلئے اٹھا دیئے۔
”میں تم سے نفرت کرنا چاہتا ہوں مگر…“ اس کی قبر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ آہستگی سے بولا تھا۔
(جاری ہے)
”مگر میں ایسا کر نہیں سکتا۔ جانتی ہو کیوں؟ اس لئے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں بہت زیادہ۔
“ شرٹ کی آستین سے چہرہ صاف کرکے وہ بڑبڑایا۔
”پپا! چلیں بھی۔“ دیا گھبرا گئی تھی۔
”چلتے ہیں بیٹا۔“ وہ اٹھ کر بابا کے قریب آ گیا اور پھر دیا کی تربت کو دیکھ کر وہ بے تحاشا رونے لگا تھا۔
”میری پیاری بیٹی۔“ اس نے تھوڑی سی پرنم مٹی کو اٹھا کر چوما۔
”یہ میرا خاندان ہے۔ انتہا پسند اور خود پرست‘ محبتوں میں بھی اور نفرتوں میں بھی۔
“ اس نے اذیت سے سوچا۔
”یااللہ میں بڑا بے انصاف رہا ہوں‘ مجھے معاف کر دینا۔“ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور پھر سہمی ہوئی بچی کو ساتھ لپٹا لیا۔ دیا رونے لگی تھی پھر منا سا ہاتھ اس کے چہرے پر رکھ کر دھیرے سے بولی۔
”گھر چلیں۔“
”ہاں چلو۔“ وہ اٹھا اور پھر تیز قدموں سے پھاٹک عبور کر گیا۔ گھر آنے تک اس نے خود کو نارمل کر لیا تھا۔
لیکن اذکی پہلی نظر میں ہی اسے دیکھ کر جان گئی تھی اور پھر دیا نے بھی تصدیق کر دی۔
”حیدر! کھانا کھا لیں۔“ اذکی نے پلیٹیں ٹیبل پر رکھتے ہوئے حیدر کو آواز دی۔ وہ بے دلی سے محض ان کا ساتھ دینے کیلئے چلا آیا تھا۔ پھر جلدی اس نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اذکی وجہ جانتی تھی اسی لئے خاموش رہی۔ گزرے برسوں میں وہ حیدر کے بے حد قریب آ گئی تھی۔
بن کہے ہی جاننے لگی تھی کہ حیدر کو کس چیز کی ضرورت ہے اور فی الحال وہ تنہائی اور خاموشی چاہتا تھا لہٰذا اذکی بچوں کے ساتھ مصروف رہی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ صرف لمحاتی کیفیت ہے کچھ دیر بعد جب وہ باہر آیا تو پہلے کی طرح فریش تھا۔ اس کا ارادہ بچوں کو گھمانے پھرانے کا تھا لہٰذا مری کا پروگرام بن گیا۔ بچوں نے سنا تو خوشی سے اچھلنے لگے۔ اذکی نے مختصر سی تیاری کی۔
حیدر جلدی کی گردان کئے جا رہا تھا۔ اس میں بہت سی تبدیلیاں آئی تھیں۔ بس یہ عادت شاید بہت پختہ ہو چکی تھی۔ اذکی ہمیشہ کی طرح بوکھلانے لگی۔ حیدر پہلے کی طرح آرڈر دینے کی بجائے اس کے ساتھ مل کر پیکنگ کروا رہا تھا۔ پھر اس نے گاڑی میں سامان رکھا۔ اذکی نے کمروں کو لاک کیا اور فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گیا۔ سفر کے دوران بچوں نے خوب اودھم مچائے رکھا۔
آسمان پر چھائے بادلوں کے ٹکڑوں کو دیکھ کر دیا بے خود ہونے لگی تھی۔
”بھائی بادل۔“ وہ خوشی سے چہکی اور پھر شفاف روڈ پر دوڑنے لگی تھی۔
”دیا گر جاؤ گی۔“ زید بھی اس کے پیچھے لپکا۔ حیدر نے بھی زید کی پیروی کی۔ اذکی سست رفتاری سے چلنے لگی تھی۔
جنون کسی بھی شکل میں ہو۔ اندھی کھائی کی طرف لے جاتا ہے۔ بہت سال پہلے اس نے سوچا تھا کہ زندگی میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں۔
آج وہ وثوق سے کہہ سکتی تھی کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔
راحت اور ساحرہ کی نفرت نے اسے یہی باور کروایا تھا کہ وہ کبھی کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتی۔ زمین اس کے قدموں کے نیچے کبھی نہیں آ سکتی۔
وہ دونوں عورتیں محبت میں بھی جنونی تھیں اور نفرت میں بھی۔ ان دونوں کی مشترکہ محبت بھی جنوں خیز تھی اور وہ محبت حیدر سے تھی۔ ایک بیوی کی حیثیت سے اسے چاہتی تھی اور دوسری ماں کی حیثیت سے۔
ان کی مشترکہ نفرت بھی اندھی تھی اور وہ تھی اذکی سے۔
ان دونوں عورتوں نے کبھی نہیں یہ سوچا تھا کہ یہ تیسری عورت بھی سینے میں ویسا ہی جذبہ رکھتی ہے۔ اس کی دھڑکن بھی اس شخص کو پکارتی ہے جس کی محبت میں وہ دونوں گرفتار ہیں۔
وہ دونوں باحیثیت اعلیٰ خاندانی عورتیں بے صبر اور جلد باز تھیں۔ سو اس کا نتیجہ پچھتاوے کی شکل میں ان کے سامنے آیا۔
جب کہ اس عورت نے ہمیشہ ہر حال میں صبر کیا اور اسے وہ سب بھی ملا جو اس نے کبھی چاہا تھا اور وہ بھی جس کی طلب اس نے کبھی نہیں کی تھی۔
”اور میرے صبر نے مجھے سب کچھ دے دیا۔“ اس نے طمانیت سے سوچا اور حیدر کے ہم قدم ہو گئی۔
”ماڈل 1960ء۔“ماڈل روڈ پر چلتے ہوئے تین منچلوں نے مبالغہ آمیزی کی حد کرتے ہوئے فقرہ کسا تھا۔ اذکی اور حیدر نے بے اختیار ان تینوں کی طرف دیکھا تھا۔ جو کہ گاڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے زیر لب مسکرا رہے تھے۔ اذکی اور حیدر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیئے۔
######