Episode 2 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 2 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

نہیں آساں یہ سفر

”مجھے اس عورت سے نفرت ہے اور اس کے بچوں سے شدید ترین نفرت… اور اب مجھے اپنے آپ سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔“ اس نے سنگی بینچ پر بیٹھتے ہوئے کرب سے سوچا۔
”جب آدمی انسانیت کے مقام سے گرتا ہے تو کیا محسوس کرتا ہے؟ اور جب کسی کی نظر سے گرتا ہے تو کیا بیتی ہے اس پر؟“ کچھ گرم قطرے اس کے گالوں پر پھسلتے ہوئے گردن پر لڑھک آئے تھے۔
اس نے تھک کر بینچ کی پشتہ سے ٹیک لگا لی۔
”وہ خود کو اندھی کھائی میں گرتا محسوس کرتا ہے یا پھر ضمیر کی عدالت میں صفائیاں پیش کی جاتی ہیں۔“
”ضمیر کی عدالت۔“ وہ بڑابڑئی تھی۔
”بڑی سخت عدالت ہوتی ہے جس میں مجرم اپنے لئے خود سزا تجویز کرتا ہے۔ کیا کوئی خود اپنے ہاتھوں گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال سکتا ہے۔

(جاری ہے)

“ اس نے ہتھیلیوں کی پشت سے آنسوؤں کو صاف کیا۔

دھند کی وجہ سے کوئی منظر صاف نہیں تھا۔ ہر چیز کہر میں لپٹی اُداس تھی بالکل اس کی طرح۔ کچھ ہمت کرکے اس نے اُٹھنا چاہا تھا مگر کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ سردی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس ”بار“ کی وجہ سے جو اُٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ اس نے اپنی دھونکنی کی مانند چلتی ہوئی سانسوں کو ہم وار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
اس نے بغیر دیکھے دائیں ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے منرل واٹر کی بوتل کو اٹھایا اور منہ سے لگا لیا۔ پھر بائیں ہاتھ کی مٹھی کھولی اور تین چار گولیاں نکال کر نگل لیں۔
”میں نے ساری زندگی کیا کیا۔“ اک فلم تھی جو ذہن کی اسکرین پر چلنے لگی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے سر جھٹکنا شروع کر دیا۔ وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی مگر…
”میں نے صرف اور صرف نفرت کی…“ اس نے سوچا اور پھر اسے یاد آ گیا تھا کہ اس نے کسی سے محبت کی تھی۔
آنکھوں سے ایک بار پھر پانی روانی سے بہنے لگا تھا۔ وہ آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے ہنسنے لگی اور پھر ہنستے ہنستے ایک دم چپ ہو گئی۔
”ہاں میں نے حیدر سے محبت کی ہے۔“ وہ ہذیانی انداز میں چیخی اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ پارک اس وقت سنسان تھا بھلا رات کے دو بجے کسے ضرورت تھی پارک میں آنے کی۔ اس نے دور دور تک سناٹوں کو محسوس کرکے ایک دفعہ پھر اٹھنا چاہا۔
اس بار وہ کامیاب ہو گئی تھی مگر دوسرے ہی پل لڑھکتی ہوئی سرد گھاس پر گر گئی۔ اس کے منہ سے سفید جھاگ نکل رہا تھا جب کہ ٹانگیں بے جان ہو گئی تھیں اور شاید جسم بھی۔
###


نئی صبح نیا ہنگامہ لے آئی تھی اگرچہ اذکی صبح خیز تھی لیکن نہ جانے کیوں آج آنکھ دیر سے کھلی۔ جب وہ اٹھی تو سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ وہ اسپرنگ کی طرح اچھل کر واش روم کی طرف بھاگی۔
منہ پر دو تین پانی کے چھپا کے مار کر تولیہ سے چہرہ تھپتھپایا۔ دیا اور زید ابھی تک سو رہے تھے۔ اذکی کو کچھ اطمینان ہوا۔ حیدر کا کندھا ہلا کر اسے جگانے اور باتھ روم کی طرف دھکیلنے میں کم از کم سات منٹ لگے تھے۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے کچن کی طرف آ گئی۔ چائے کا پانی چولہے پر رکھا اور فریج کھول کر آٹا نکالنا چاہا تو خالی برتن منہ چڑانے لگا۔ شدید کوفت کے عالم میں اس نے بریڈ کے پیکٹ کو نکال کر ٹوسٹر آن کیا۔
اسی پل حیدر کی حسب معمول آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔
”اذکی! میرا ٹاول کدھر ہے؟“ وہ باتھ روم میں کھڑا گرج رہا تھا۔ اذکی نے دہل کر دونوں بچوں کی طرف دیکھا۔ پھر تلملاتے ہوئے تولیہ اسٹینڈ پر پھینک کر دیا کو تھپکنے لگی۔ حیدر بالوں کو تولیہ سے رگڑتے ہوئے ”جلدی جلدی“ کی گردان کئے جا رہا تھا اس کی یہی جلد بازیاں اذکی کو بوکھلا دیتی تھیں۔
ہر کام جو ڈیڑھ منٹ میں ہونا ہوتا تھا اُلٹ پلٹ ہو کر دس منٹ لے لیتا۔ پھر حیدر کی خفگی عروج پر پہنچ جاتی پارہ چڑھ جاتا اور سارا نزلہ تھر تھر کانپتی اذکی پر گرتا۔ اپنی غلطی کو اس نے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔
حیدر بلیو شرٹ کو اُلٹ پلٹ کرکے دیکھ رہا تھا۔ اذکی کا سانس حلق میں اٹک گیا۔ اس نے کن انکھیوں سے حیدر کے تاثرات نوٹ کئے۔
”حیدر! ٹائم کم ہے  لیٹ ہو جائیں گے آپ۔ جلدی سے چینج کرکے ناشتہ کر لیں۔“ اذکی نے اس کا دھیان شرٹ سے ہٹانا چاہا تھا۔ وقت کا احساس دلاتے ہوئے اسے اچانک چولہے پر رکھی چائے کا خیال آیا۔ وہ کچن کی طرف جانے لگی تھی جب حیدر نے جھنجلاتے ہوئے شرٹ صوفہ پر اچھال دی۔
”کہاں جا رہی ہو  وہ وائٹ لائننگ والی شرٹ پریس کر دو۔ ”تم جانتی تو ہو کہ مجھے یہ کلر سخت ناپسند ہے۔
”آج یہی پہن لیں۔ رات کو میں نے آدھی بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ آپ کے کپڑے استری کئے تھے اور ابھی تو میں نے ناشتہ بھی بنانا ہے۔“ اذکی نے کچھ ڈرتے ہوئے کہا تھا جواباً حیدر نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے گھورا۔ ٹیبل کو ٹھوکر ماری  شرٹ کو اُٹھایا اور استری اسٹینڈ کی طرف بڑھ گیا۔
”انتہائی ضدی شخص ہے۔“ وہ منہ ہی منہ میں بدبدائی اور پھر ناشتہ میز پر لگانے لگی۔ پندرہ منٹ بعد فل تیاریوں کے ساتھ خوشبوئیں بکھیرتا وہ کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔ اذکی پر نظر پڑی تو ایک اور خطرناک قسم کی گھوری پھینکی۔
”ناشتہ تو کر لیں۔“

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi