Episode 46 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 46 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”ددا سے ہماری پہلی ملاقات گراؤنڈ میں ہوئی تھی۔ وہ ہمارے پاس آئے‘ انہوں نے ایک نئے رشتے سے ہمیں آشنا کروایا تھا اور ہم ساکت وصامت رہ گئے۔
بقول ددا کے وہ روزانہ ہمیں کرکٹ کھیلتے دیکھا کرتے تھے۔ ان کے تعارف نے ہمارے دلوں میں حشر برپا کر دیا تھا۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ گھر لے گئے پھر انہوں نے ہمیں ایک ایسی کہانی سنائی جسے ہم حرف بہ حرف سچ سمجھ بیٹھے۔
دادو اور دادا نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ پاپا سے پیار کرتی تھیں۔ مگر پاپا آپ سے محبت نہیں کرتے تھے۔ جب پاپا نے ماہا ممی سے شادی کی تو آپ کا توہین اور غم و غصے سے برا حال ہو گیا تھا۔
ہماری پیدائش کے بعد محض انتقاماً آپ ہمیں کڈنیپ کرکے دوسرے شہر لے گئی تھیں۔ ہم دونوں بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ یہ ساری تقریر سن کر ہمیں بہت دکھ ہوا تھا کہ آپ ہماری ماں نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے ددا کے کہنے پر آپ سے بدتمیزی کی تھی۔ دادا بہت خوش تھے پھر رات کو ہم اپنے پاپا سے ملے تھے اور مما‘ انہوں نے ہمیں اتنا پیار کیا اتنا پیار کیا کہ ہم دونوں مزید آپ سے متنفر ہو گئے۔
جب ماہا ممی ہم سے ملیں تو ان کا اندازہ بے حد عجیب تھا جیسے وہ ہماری آمد سے ناخوش ہوں۔ ہم دونوں ان کے رویوں سے ہرٹ ہوئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے ددا کی وجہ سے ہمیں پیار بھی کیا تھا۔
مما ہم لوگ اس گھر میں جاکر الجھ گئے تھے۔ وہ اتنا بڑا گھر‘ اتنے نوکر اور پھر بھی اتنی خاموشی۔ سب کے رویے بھی عجیب و غریب تھے۔
پپا صبح کے گئے رات کو گھر آئے تھے۔ ماما ممی بھی سارا سارا دن گھر سے باہر رہتیں۔ دادو کا بھی یہی معمول تھا۔ البتہ دوا ہمیں بہت وقت دیتے تھے ہم سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ ایک دن دادا اپنے کسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے جو کہ ہم نے اتفاقاً سن لی۔
”میرے تینوں بیٹوں کی چار چار بیٹیاں ہیں مگر بیٹا کوئی نہیں۔ صرف شاہ میر کے ہی تو بیٹے تھے۔ میں کیونکہ انہیں نہ چھینتا اس سے۔ ماہا نے تو مجھے بے حد مایوس کیا ہے اس معاملے میں‘ آخر نسل تو بیٹی اور پھر پوتے سے ہی چلتی ہے۔“
وہ سب بہت عجیب تھے۔ دادو ہم سے پیار بھی کرتی تھیں اور پھر ایک دم جھڑک بھی دیتیں۔ ماہا ممی خود میں ہی مگن رہتی تھیں۔
رہے پپا تو وہ بھی اپنی ذات میں گم تھے۔ ہم نے کبھی انہیں بولتے نہیں سنا۔ گھر آکر وہ اسٹڈی میں گھس جاتے تھے۔
ان کی کام والی بھی بہت عجیب تھی۔ اس کی آنکھیں بہت ڈراؤنی تھیں۔ پھر پتا ہے کیا ہوا مما!“
احد کی چہرے پر ایکدم ہی خوف کے سائے لہرائے تھے۔ شفق چاہ رہی تھی کہ وہ پرسکون ہو کر سو جائے۔ مگر اس کی آنکھوں میں نیند دور دور تک نہیں تھی۔
حدید بھی ساکت سا اس کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔
”رات کو وہ ہمیں دودھ دینے کیلئے آئی تھی۔ حدید ہوم ورک کر رہا تھا اور میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ وہ دودھ ٹیبل پر رکھ کر ہمارے پاس ہی بیٹھ گئی۔ پھر اس نے ایکدم ہی ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا۔ میں اور حدید چونک گئے تھے۔
”اے سنو! اس نے بڑی بڑی گول گول آنکھیں گھمائیں تو حدید خوف زدہ ہو گیا۔
مجھے بھی اس سے خوف محسوس ہوا تھا۔ عجیب وحشت بھری تھی اس کی آنکھوں میں۔
”یہ نہیں ہے تمہاری ماں۔ ماں تو وہ ہے جسے تم چھوڑ آئے ہو۔“ اس نے پھر دیدے گھمائے تھے۔
”ادھر کانٹوں پر چلنے کیلئے آ گئے ہو‘ یہاں سکھ نہیں ہے اور نہ ہی آ سکتا ہے‘ درد ہے بس۔ درد اور بے سکونی۔ ادھر نواب شاہ میں میری ماں نے ڈبل اسٹوری مکان بنایا ہے پورے گھر میں ماربل کی ٹائلیں لگوائی ہیں۔
مگر وہاں رہتا کوئی نہیں ہے۔ یہاں بھی کسی نے نہیں رہنا اور…“ اس نے بات ادھوری چھوڑ کر ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔
”اچھا اب تم جاؤ۔ ہم دودھ پی لیں گے۔“ حدید یقینا اس سے ڈر گیا تھا۔ وہ اسے بھیج دینا چاہتا تھا مگر میں نے اسے روک دیا۔
”تمہیں کیسے پتا ہے کہ جسے ہم چھوڑ کر آئے ہیں‘ وہ ہی ہماری ماں ہے۔“
”لو مجھے نہیں پتا ہوگا تو اور کسے پتا ہوگا۔
صاحب کی پہلی بیوی۔ تم دونوں کی ماں شفق ہے۔“ اس نے ہم دونوں کے سروں پر گویا دھماکا کیا تھا۔ میرا ایکدم سانس رک گیا۔
”گوگی! تو پھر بتاؤ کہ پپا نے ہماری مما کو کیوں چھوڑا تھا۔“ گوگی نے پھر قہقہہ لگایا اور بولی۔
”چھوڑا نہیں تھا چھڑوایا گیا تھا۔ ڈرامہ کیا تھا ہم سب نے مل کر‘ ایسا ڈرامہ جس کے بدلے میں ہمیں اتنے پیسے ملے تھے کہ ہماری آنکھوں کی بھوک مٹ گئی تھی اور پتا ہے۔
یہ بڈھا جو تم لوگوں کو ہر وقت چاٹتا رہتا ہے اونہہ!“ گوگی نے کارپٹ پر تھوک دیا تا۔
”بڑا کمینہ انسان ہے‘ اسی نے تو تمہاری ماں کو طلاق دلوائی تھی اور اس کا دوست نالی کا گندا کیڑا…“ گوگی نے پھر کارپٹ پر تھوکا۔ ”ایک اور بات بتاؤں یہ جو صاحب ہے نا شاہ میر‘ یہ اسٹڈی میں بیٹھ کر لکھتا پڑھتا نہیں ہے۔ روتا ہے روتا… تمہاری ماں کو یاد کرکے۔
بڑی محبت تھی اسے شفق سے۔“ اس نے آہستگی سے اپنی سر پر مکا مارا تھا اور مسکرائی۔
”رات کو اپنے باپ سے لڑائی ہوئی ہے اس کی۔ وہ تم دونوں کو شفق کے پاس بھجوانا چاہتا ہے مگر دیکھ لینا اس بڈھے نے تم دونوں کو اس گھر سے نکلنے نہیں دینا جو یہاں پھنس گیا بس پھنس گیا۔“ گوگی کی آنکھ سے اک قطرہ گرا تھا۔ ”لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گی‘ تم دیکھ لینا۔
“ اب کے اس نے قہقہہ نہیں لگایا پھر وہ کمرے سے نکل گئی۔
ان دنوں ہمیں اپنے سائے سے بھی خوف آتا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ بھاگ کر آپ کے پاس چلے آئیں۔ پھر پپا کا اتنا شدید ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ گوگی بتاتی ہے کہ پپا اور ماہا ممی کی لڑائی ہوئی تھی نجانے کس بات پر۔ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ پپا نے جان بوجھ کر گاڑی ٹرالر سے ٹکرائی تھی۔
مما! آپ کو پتا ہے کہ جب پپا ہمیں یہاں چھوڑنے کیلئے آئے تو انہوں نے کیا کہا تھا؟“ حدید دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ لے کر بولا تھا۔
”انہوں نے کہا تھا کہ اپنی ماں کو کبھی بھی تنہا مت ہونے دینا۔ اس نے بہت عرصہ تنہائی کا زہر پیا ہے اور ہو سکے تو اس سے کہنا کہ اس گنہگار کو معاف کر دے۔“ مما! میرے پیا بھی تو تنہا ہو گئے ہیں ناں؟ وہ آنکھیں رگڑتا معصومیت سے بولا تھا۔ شفق کے دل پر جیسے گھونسا پڑا۔
”یہ تنہائی اس نے خود اپنے لئے پسند کی ہے۔ یہ عذاب اس نے خود خریدے ہیں۔
“ شفق نے اذیت سے سوچا۔ ان دونوں کو سلانے کے بعد وہ آہستگی سے دروازہ بھیڑ کر باہر آ گئی تھی۔ اپنے کمرے میں آکر اس نے دراز کھولا۔ اس میں ایک خاکی لفافہ تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں میں اس لفافے کو لے کر کتنے ہی پل گم صم سی بیٹھی رہی۔ پھر لفافہ چاک کرکے اس نے ایک کاغذ نکالا تھا۔
”کیا کہوں کہ اس سفر نے جتنا تمہیں تھکایا ہے اتنا ہی مجھے بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں… بس اتنا کہوں گا کہ میرے بیٹوں کو جن رنگوں سے آشنائی تم نے کروائی ہے‘ وہ کتنے خوبصورت رنگ ہیں۔
معصومیت‘ سچائی اور پاکیزگی کے پیکر… اگر ذرہ برابر بھی میں اپنے بیٹوں کے قابل خود کو سمجھتا تو شاید ہمیشہ کیلئے تمہارے حوالے انہیں کرنے پر میرا دل رضا مند نہ ہوتا۔ مگر کیا ہے کہ میں خود کو ان معصوم فرشتوں کے قابل نہیں سمجھتا۔ میں ان کے قابل ہوں بھی نہیں۔ تم میرا سامنا کرنا نہیں چاہتی اور میں تم سے نظر ملا کر بات نہیں کر سکتا۔ اتنے فاصلے ہیں ہمارے درمیان کہ چاہ کر بھی قریب نہیں آ سکتے۔
کل راحیل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تم نے ایک ہیرے کو پتھر بنا دیا ہے۔ کیا بتاتا اسے کہ جنوں کی اس راہ نے میرے سارے راستے کھوٹے کر دیئے تھے۔ جب تک یہ تحریر تم تک پہنچے گی‘ میں تمہاری دنیا سے دور بہت دور ہوں گا۔ ہو سکے تو اپنے مجرم کو معاف کر دینا۔
اور ہاں ایک اور بات کہنا تھی۔ شاہ میر کا باپ برا ہو سکتا ہے اس کی ماں بری ہو سکتی ہے۔ شاہ میر خود برا ہو سکتا ہے مگر احد اور حدید کی ماں بری نہیں ہو سکتی۔
“ 
شفق کتنی ہی دیر اس تحریر پر نگاہیں جمائے بیٹھی رہی تھی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے سیلاب جاری ہو گیا تھا۔ چودہ برس سے چبھنے والا کانٹا اذیت دینے والا پھانس چپکے سے نکل گئی تھی۔ جلتے بلتے دل پر گویا پھوار سی پڑی تھی۔ وہ ساری رات جاگتی رہی تھی۔ اک پل کو بھی نہ سو سکی۔
موزن نے ”اللہ اکبر“ کی صدا بلند کی تو وہ کمبل ہٹا کر اٹھ بیٹھی۔
اب وہ وضو کر رہی تھی۔ پھر اس نے جائے نماز بچھائی اور رات کائنات کے سامنے سر جھکا دیا۔
جنوں کی اس راہ پر چلتے چلتے اس نے بہت کچھ کھویا تھا۔ مگر پھر بھی اپنے رب کی شکر گزار تھی کہ اس نے اسے خالی دامن نہیں رکھا بلکہ بہت سی خوشیوں سے اس کے دامن کو بھر دیا ہے۔ ان دو روشن ستاروں کے ہمراہ باقی کا سفر بہت خوشگوار گزرنا تھا۔ اسے بہت پہلے پڑھی جانے الی نظم یاد آ رہی تھی۔
گہری کھائیاں
کالی رات
جنوں کی راہ
گھپ اندھیرا
جگنو نہ سویرا
چندا نہ بادل
گھنکرو نہ پائل
دھوپ نہ روپ
کالی رات‘ گہرا سکوت
لمبا سفر
سایہ نہ شجر 
یہ کون سا نگر
یہ کون سا جہاں
یہ کیا امتحان؟
اے دل تو ہی بتا
یہ کیسا ہے سفر
اور یہ کون سی ہے راہ
یہ جنوں کی راہ
ہاں جنوں کی راہ
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi