”عباس! ہم پڑھے لکھے باشعور ہیں۔ پرانے وقت گزر گئے ہیں جب بچوں کے ساتھ زور زبردستی کر لی جاتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔ بچے خود اپنے بارے میں فیصلے کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ خود ہی سوچئے آپ کا حیدر ماشاء اللہ پڑھا لکھا ہے۔ اس کا اکیڈمک ریکارڈ نظر انداز کئے جانے والا نہیں۔ حال ہی میں اس نے تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھا ہے۔ کیا یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں کہ ایک انڈر میٹرک لڑکی کو اس کے ساتھ نتھی کر دیا جائے اور وہ ساری زندگی ایک گنوار جاہل کے ساتھ ناخوشگوار زندگی گزارے۔
“ راحت نے بہت سوچ بچار کے ساتھ ساحرہ کا بتایا ہوا پہلا پتا پھینکا تھا۔
”مگر حیدر نے مکمل رضا مندی کے ساتھ نکاح کیا تھا۔“ عباس نے اضطراری کیفیت میں کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
(جاری ہے)
ان کے چہرے پر پریشانی کے سائے پھیل چکے تھے۔
”حیدر نے آپ کی خواہش کا احترام کیا تھا اس وقت۔ آپ اس کی چاہت کا خیال رکھیں۔ یاد رہے کہ حیدر ساحرہ سے محبت کرتا ہے اور میں اپنے اکلوتے بیٹے کو آپ کے فضول فیصلے کی بھینٹ نہیں چڑھاؤں گی۔
“ راحت نے گفتگو کو سمیٹنا چاہا۔ وہ اپنے فیصلے سے عباس کو آگاہ کر چکی تھیں۔ ان کا مقصد بس یہی تھا۔
”تم کیا چاہتی ہو؟“ وہ آزروگی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ راحت نے ان کے چہرے پر پھیلی رنجیدگی کو بغور پڑھا۔
”میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ انہوں نے پہلو بچایا۔
”اصل مسئلہ تو حیدر کا ہے اس نے رات کو مجھ سے بات کی ہے کہ وہ ساحرہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
“
راحت نے اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا کیا۔ اب وہ مطمئن ہو چکی تھیں۔
”اذکی کا کیا ہوگا اور یہ اس کے زیادتی نہیں اور پھر میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ میں اپنی بھتیجی کے ساتھ یہ ظلم کروں۔ راحت تم حیدر کو سمجھاؤ۔“ وہ بھرائی آواز میں گویا ہوئے۔ راحت نے خشمگیں نظروں سے ان کی عرق آلود پیشانی کو دیکھا۔ وہ آہستہ آہستہ سینہ مسل رہے تھے۔
”حیدر کہہ رہا تھا کہ بابا نہ مانیں کروں گا تو میں اپنی مرضی ہی۔“ انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
”جانتے تو ہیں آپ کہ کس قدر ضدی طبیعت کا مالک ہے۔ مزاج کے خلاف کچھ برداشت نہیں کر سکتا وہ۔“ عباس نے بے یقینی سے راحت کی آنکھوں میں دیکھا۔ انہوں نے سرعت سے نظریں چرائی تھیں۔
”حیدر نے کہا ہے۔“ وہ آہستگی سے بڑبڑائے۔
”میں خود بات کروں گا اس سے۔
“ عباس نے گویا ایک فیصلہ کیا اور پھر اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھے۔ دراز سے شیشی نکال کر چند ٹیبلٹس زبان کے نیچے رکھیں راحت کندھے اچکا کر اٹھ گئی تھیں۔ ان کا ذہن تیزی سے منصوبہ بنا رہا تھا اور ساحرہ بھی اس میں شریک تھی۔ وہ ہر قدم اس کے مشورے سے اٹھاتی تھیں۔ اب بھی انہوں نے ساحرہ کو مکمل رپورٹ دی ساحرہ نے انہیں اطمینان دلا دیا تھا کہ وہ خود ہی حیدر سے نبٹ لے گی۔
راحت کی بہن فاخرہ اگرچہ راضی نہیں تھیں مگر ساحرہ کی ضد کی وجہ سے مجبور ہو گئی تھیں۔ انہیں اذکی سے دلی ہمدردی محسوس ہوتی تھی۔ یہ کم گو سی لڑکی انہیں بے حد پسند تھی۔ اب بھی بیٹی کا معاملہ نہ ہوتا تو وہ ہرگز بھی راحت کی بات نہ مانتیں۔ مگر اس وقت وہ بھی بے بس تھیں کیونکہ ساحرہ نے انہیں اچھا خاصا دھمکا دیا تھا۔ وہ حیدر کو بچپن سے چاہتی تھی اور اس کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی اس کیلئے محال تھا۔
عباس کی طبیعت کچھ بہتر نہیں تھی لہٰذا وہ جلدی ہی سو گئے۔ صبح معمول کے مطابق اٹھے تھے کہ حیدر چلا آیا۔ انہوں نے بھی سوچ لیا تھا کہ حیدر سے ابھی بات کر لی جائے لیکن ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ سر جھکائے اپنی پسند بتا کر باہر نکل گیا تھا۔ وہ گم صم سے وہیں کھڑے رہ گئے۔ حیدر کے اس طرح رنگ بدلنے نے ان کو بے حد شاک پہنچایا تھا۔ ان کا تنفس تیز تیز چلنے لگا تھا اور بائیں جانب شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
وہ نڈھال سے کارپٹ پر گر گئے۔
راحت فتح مندی سے سرشار بیڈ روم میں آئیں تو عباس کو کارپٹ پر اوندھے منہ پڑے دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ فوراً فون کرکے حیدر کو بلایا۔ بھاگم بھاگ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ ان کی صحت یابی کیلئے دعائیں مانگتی وہ مسلسل رو رہی تھیں۔ بائیس گھنٹوں کے صبر آزما انتظار کے بعد عباس نے آنکھیں کھولیں تو راحت کا نڈھال سا چہرہ نظر آیا۔
عباس نے کرب سے آنکھیں دوبارہ موندیں۔
ساری زندگی انہوں نے راحت کے کسی فیصلے کے سامنے سر نہیں اٹھایا تھا ہمیشہ وہی کیا جو وہ چاہتی تھیں ان کی ہر جائز ناجائز خواہش کا احترام کیا۔ اذیت سے سوچتے ہوئے انہیں اذکی کا خیال آیا۔ اس کا اداس ویران چہرہ سوال کرتی نگاہیں۔ انہوں نے بمشکل آنکھیں کھولیں تو درد کی تیز لہر سی اٹھی تھی۔
”میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکا بیٹی۔
مجھے معاف کر دینا۔“ دو آنسو لڑھکتے ہوئے چپکے سے بالوں میں جذب ہو گئے تھے۔
”میرے جیسے کمزور مرد بھلا کر بھی کیا کر سکتے ہیں۔“ بہت پہلے کے چند ایک منظر یاد آئے تھے انہیں۔ ماں کی التجائیں بھائی کا رونا بلکنا اور راحت کی کشش۔ انہوں نے بوسیدہ زندگی کے اس باب کو بند کر دیا تھا ہمیشہ کیلئے۔
”میں نے کیا کھویا کیا پایا۔“ ان کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔
ڈاکٹرز کے پورے عملے نے انہیں ایک دفعہ پھر گھیر لیا۔ مگر اکھڑی سانسیں ہموار نہیں ہو سکی تھیں۔ چند لمحوں بعد مشینیں بے جان ہو گئیں۔ ڈاکٹرز مایوس باہر نکلنے لگے۔ راحت کی دعائیں ادھوری رہ گئیں وہ فرش پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ حیدر نے آنسو صاف کرتے ہوئے بہنوں کو اطلاع دی روتے بلکتے وہ بابا کے بے جان وجود کو گھر لے آئے تھے۔ راحت غش کھا کر گر پڑیں۔
جب انہیں ہوش آیا تو عباس کو ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا گیا تھا۔ مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا۔ صدمے سے نڈھال اذکی بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو رہی تھی۔ اس کا تو سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ روتے بلکتے وہ مختلف کام انجام دے رہی تھی۔
آہستہ آہستہ مہمان جانے لگے۔ راحت نے بھی زندگی کے معاملات میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ گھر کی فضا بے حد سوگوار تھی انہی دنوں سدرہ کے سسرال والوں نے شادی کی تاریخ طے کر دی۔
راحت نے سادگی کے ساتھ شادی کے انتظامات کروائے۔ چالیسویں کے بعد ہی سادگی سے نکاح ہوا اور اس سے اگلے روز وہ شوہر کے پاس لندن چلی گئی۔
ساحرہ نے مستقل ادھر ہی ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ ہر وقت راحت کے ساتھ چپکی رہتی۔ اذکی اپنے دھیان میں معمول کے کام نبٹا کر کمرے میں گھس جاتی تھی۔ وہ جان گئی تھی کہ اس چھت تلے اگر رہنا ہے تو لبوں کو سینا اور خواہشوں کا گلا گھوٹنا ہوگا۔
راحت کے حکم کے مطابق وہ صرف کام کیلئے ہی اپنے کمرے سے نکلتی تھی۔ حیدر اگر گھر پہ ہوتا تو وہ اذکی کو ہمیشہ ادھر ادھر کر دیتی تھیں۔
چھ ماہ کے مختصر عرصے میں ساحرہ نہایت دھوم دھام سے اس گھر میں ہمیشہ کیلئے آ گئی تھی۔ راحت نے اپنے سارے ارمان جی بھر کے پورے کئے ہر ہر فنکشن نہایت بہترین تھا۔
ساحرہ نے آتے ہی سب سے پہلے اذکی سے ملاقات کرنے ارادہ ظاہر کیا۔
وہ اپنا دلکش روپ اسے دکھانا چاہتی تھی یا پھر اذکی کو یہ جتلانا تھا کہ وہ ہی حیدر کی من پسند بیوی ہے۔
اذکی پتھر سے بنی مورت نہیں تھی کہ اس پر کوئی اثر ہی نہ ہوتا۔ رات کی تاریکیوں میں جی بھر کر رونے اور دل کا غبار نکالنے کے بعد صبح وہ بے حد لاپروا نظر آتی۔ آہستہ آہستہ وہ ساحرہ کے مزاج کو سمجھنے لگی تھی۔