Episode 15 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 15 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

گھر آکر ساحرہ نے بھرپور نیند لی تھی۔ دو تین گھنٹے سونے کے بعد اس وقت وہ فریش تھی۔ وہ نہا کر باہر نکلی تو فون بجنے لگا تھا۔ دوسری طرف اس کی سہیلی ثمن تھی کافی دیر اس سے گپ شپ لگانے کے بعد اس نے فون رکھ کر اپنا جائزہ لیا۔ جدید تراش خراش کا خوب صورت سوٹ اس کے سراپے پر سج گیا تھا۔ وہ آئینے کے سامنے سے ہٹی تو دیا پر نظر پڑی۔ ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا۔
وہ دیا کے قریب بیڈ پر لیٹ کر اس کے من موہنے سے نقوش دیکھنے لگی۔ خوب صورت ناک  چھوٹا سا دہانہ  لمبی لمبی سنہری پلکیں۔ اس کے نقوش حیدر سے بے حد ملتے تھے۔ دیا کا انتخاب اس نے اسی لئے ہی کیا تھا ورنہ زید میں اذکی کا عکس دیکھ دیکھ کر اس کا بی پی شوٹ کر جاتا تھا۔
دیا جب اٹھی تو ایک دفعہ پھر مما مما کی گردان شروع کر دی تھی اس نے، تنگ آکر ہولے سے جھنجھوڑا تھا اُسے۔

(جاری ہے)

”میں بھی ماں ہوں تمہاری۔“
”نہیں… آپ نہیں مما…“ ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے اس نے چلانا شروع کر دیا تھا۔
ساحرہ نے نجمہ کو آواز دے کر دودھ کی بوتل منگوائی اور اس کے لبوں سے لگا دی۔ شام کو حیدر آیا تو دیا اسے دیکھ کر کھل اٹھی۔ ساحرہ آئسکریم باؤل میں نکال کر اسے کھلا رہی تھی اور وہ نخرے کر کرکے کھا رہی تھی بلکہ زیادہ منہ اور ہاتھوں پر مل رہی تھی۔
”ارے یہ کون ہے  کارٹون؟“ حیدر نے کوٹ پھینک کر دیا کو اٹھا لیا۔
”کدل (کدھر) کارٹون…“ اس نے آئسکریم سے لت پت ہاتھ حیدر کے منہ پر رکھا۔
”یہ ہے۔“ حیدر نے اس کے گال پر بوسہ دیا۔
”میں… کارٹون۔“ وہ کھلکھلائی۔ حیدر اسے گدگدانے لگا تھا۔ وہ بھی باپ سے کافی اٹیج تھی۔
فریش ہو کر اس نے جوس پیا اور پھر ماں کو سلام کرنے ان کے بیڈ روم میں چلا گیا۔
ساحرہ نے دیا کے کپڑے چینج کئے تھے۔ حیدر جب آیا تو پنک فراک پہنے گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس نے محبت پاش نظروں سے بیٹی کے چہرے کو دیکھا۔ اسے اچانک بابا کی بات یاد آئی تھی۔ وہ برسات کی ایک خوب صورت شام تھی۔ ان دنوں اس نے نیا نیا کالج جوائن کیا تھا۔ لان میں کرکٹ کھیلتے ہوئے اچانک زور دار شاٹ لگا تھا اور بال اڑتے ہوئے سدرہ کے ماتھے پر جا لگی۔
وہ چیختی ہوئی گھاس پر دو زانو بیٹھ کے رونے لگی تھی جبکہ حیدر نے بیٹ پھینک کر ہنسنا شروع کر دیا۔ سدرہ کی رونی صورت دیکھ کر اس نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی تھی۔ اسی اثناء میں بابا بھی چلے آئے۔
”کیا ہوا ہے میرے بیٹے کو۔“ بابا نے فکر مندی سے اس کے چہرے پر پھیلے آنسوؤں کو دیکھا۔ سدرہ نے پاس رکھا بیٹ اٹھایا اور حیدر کی ٹانگ پر دے مارا اور چلائی۔
”اس نے مجھے مارا ہے بابا۔ دیکھیں میرا ماتھا۔“ وہ روتے ہوئے بابا کے کندھے سے جا لگی۔ انہوں نے محبت سے اس کے ماتھے کو چوما اور پھر ساتھ لپٹا کر حیدر کو گھورا۔
”گھر کو کرکٹ گراؤنڈ سمجھ رکھا ہے۔ آنکھوں پر عینکیں چڑھا کر کھیلو گے تو یہی ہوگا۔ چلو سوری بولو بہن سے۔“
”میں کیوں بولوں سوری  جان بوجھ کر تو نہیں مارا میں نے۔
خود ہی بے نتھے بیل کی طرح جھومتی ہوئی آ گئی تھی سامنے۔ بال نے تو پھر لگنا ہی تھا۔“ وہ لاپروائی سے بولا۔ بابا کو شدید غصہ آ گیا تھا اس کے انداز پر۔
”حیدر! سنا نہیں تم نے۔“
”سوری…“ اس نے جان چھڑائی اور بیٹ جھک کر اٹھایا۔
”یہ کون سا طریقہ ہے معافی مانگنے کا۔“ وہ بغیر ان کی طرف دیکھے پلٹنے لگا تھا جب بابا نے پکارا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“
”سوری بولنے کا طریقہ سیکھنے۔“ وہ پیچھے سے چلایا۔ بابا کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی انہوں نے آواز دے کر اسے واپس بلایا تھا۔ وہ منہ بناتا ہوا پلٹ آیا۔
”سنو حیدر یہ بیٹیاں بہت نازک بہت پیاری ہوتی ہیں۔ جب تمہاری بیٹی ہوگی تو پھر تم سمجھو گے۔“ اچانک ہی وہ سنجیدہ ہو گئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
اس وقت تو اس نے لاپروائی سے سر ہلا دیا تھا مگر اب اپنی بیٹی کو دیکھ کر بہت سے پردے آنکھوں کے سامنے سے ہٹے تھے۔
”کل کو اگر زید کرکٹ کھیلتے ہوئے دیا کو بال مارے تو پھر…“ حیدر نے سوچا اور اس کے دل کو کسی نے مٹی میں بھینچا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دیا کو سینے سے لگا لیا۔
”مما پاس جانا ہے۔“ وہ باپ سے لپٹتے ہوئے منمنائی۔ حیدر نے موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھا کر اس کی انگلی پکڑ لی۔
ساحرہ کچن میں تھی۔ وہ دروازے کے قریب آکر بولا۔
”ساحرہ! میں ذرا دیا کو اذکی سے ملوانے لے کر جا رہا ہوں ،دو گھنٹے تک آ جاؤں گا۔“
”کیا مطلب ہے تمہارا۔“ ساحرہ نے برنر بند کرکے چمچہ سلیب پر پٹخا۔
”دیا نہیں جائے گی ادھر بمشکل میں نے اسے بہلایا ہے۔“
”یہ ضد کر رہی ہے۔“ وہ نرمی سے بولا۔
”تو کرنے دو‘ تمہیں کیا ہے جاؤ اپنا کام کرو۔ اسے میرے پاس چھوڑ دو۔ اسی طرح عادی ہو گی یہ۔“ ساحرہ نے ہاتھ پونچھ کر دیا کا بازو پکڑ لیا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
حیدر کچھ دیر سوچتا رہا پھر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi