Episode 5 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 5 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

حیدر رات ساڑھے بارہ بجے گھر آیا تھا اس کے ساتھ ساحرہ بھی تھی۔ وہ ساحرہ کی ضد پر ہی اسے یہاں لایا تھا۔ فلیٹ کی سجاوٹ اور خوبصورتی کو ساحرہ نے بڑی حاسدانہ نظروں سے دیکھا تھا۔ وہ ایک ایک چیز کو نظروں میں تول رہی تھی۔ خصوصاً حیدر کے بیڈ روم میں آکر اس کا حسد نفرت میں بدلنے لگا۔ من میں لاوا سا پک رہا تھا جو کہ اُبلنے کو بے تاب تھا۔ اس نے زہریلی نگاہوں سے دیا اور زید کی انلارج تصویر کو گھورا۔
اس کی آنکھوں سے شعلے لپکنے لگے تھے۔ بیڈ کے عین سامنے والی دیوار پر اذکی کی فل سائز تصویر ٹنگی تھی  ہنستی مسکراتی۔ اذکی تفخر سے حیدر کے پہلو میں کھڑی تھی۔ حیدر واش روم میں تھا جب باہر آیا تو اُسے بت بنا پاکر قدرے حیران ہوا تھا۔
”کیسا لگا تمہیں میرا فلیٹ۔“ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا تھا۔

(جاری ہے)

ساحرہ نے مڑ کرکٹیلی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

”صرف تمہارا۔“ وہ دھیمی آواز میں غرائی۔ حیدر کو اپنے لفظوں کے چناؤ پر پشیمانی ہوئی۔ اس نے ساحرہ کا بدلتا موڈ بھی دیکھ لیا تھا۔ لہٰذا نرمی سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرکے کچن میں چلا گیا۔
”اس دڑبے کا راحت ولا سے کیا مقابلہ۔“ ساحرہ نے دل کو تسلی دی۔ ٹرے میں کافی کے مگ رکھے حیدر کمرے میں آیا تو ساحرہ پہلے جیسی کیفیت میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اس کی موجودگی محسوس کرکے سیدھی ہو گئی۔
”یہ کافی پیو۔“ ساحرہ نے مگ حیدر کے ہاتھ سے لے لیا تھا۔ کافی پیتے ہوئے بھی وہ مسلسل حیدر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے ساحرہ کی نظروں سے اب الجھن سی ہونے لگی تھی۔ تاہم اس نے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔
”اچھی بنی ہے ناکافی۔“ حیدر نے ساحرہ سے تائید چاہی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”جانتے ہو کتنے دنوں بلکہ مہینوں بعد تمہارے ہاتھ کی بنی کافی پی ہے۔
“ ساحرہ کا لہجہ عجیب سا تھا یا پھر حیدر کو ہی لگا۔ کئی لمحے وہ کچھ بول نہیں سکا تھا۔
”اصل میں مصروفیت ہی اتنی ہے کہ…“
”تمہاری مصروفیت کا دائرہ اذکی اور ان دو بچوں تک محدود ہو گیا ہے حیدر!“ وہ پھنکاری۔
”تمہارے پاس میرے لئے کوئی لمحہ کوئی وقت نہیں ہے۔“
”تم ایسا نہیں کہہ سکتی۔“ حیدر اس کے لہجہ کی تیزی محسوس کرکے نرمی سے بولا۔
”میں صبح ناشتہ تمہارے ساتھ کرتا ہوں  لنچ بھی راحت ولا میں کرتا ہوں۔ چاہے کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو  چھوڑ چھاڑ کر صرف تمہاری خاطر بھاگا آتا ہوں۔ آفس ٹائم کے بعد پہلے تمہارا درشن کرتا ہوں  ادھر تو بعد میں آتا ہوں میں اور تم جانتی بھی ہو کہ اذکی اور بچے بالکل اکیلے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود میں رات صرف اور صرف تمہارے لئے راحت ولا میں گزارتا ہوں تاکہ تم تنہائی محسوس نہ کرو۔
“ حیدر نے بے حد رسانیت سے اُسے ٹھنڈا کرنا چاہا تھا۔ ساحرہ کے اندر جوار بھاٹا اُٹھ رہا تھا۔ یہ خوبصورت فلیٹ اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ وہ نفرت سے سر جھٹکتے ہوئے بولی۔
”تمہاری محبت نجانے کہاں سوئی ہے۔ تم بدلتے جا رہے ہو حیدر…“ ساحرہ نے مگ ٹیبل پر پٹخا۔ تھوڑی سی کافی چھلک کر میز کی شفاف سطح پر گر گئی تھی۔
”یہ بچے تمہارے لئے اہم ہوتے جا رہے ہیں۔
“ ساحرہ نے دیا اور زید کی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔
”تم مجھے بھول رہے ہو  چند سالوں بعد تمہیں ساحرہ یاد بھی نہیں رہے گی۔“
”ساحرہ! تم نے بدگمانیوں کی بہت بڑی فصیل کھینچ لی ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں  میں کل بھی تمہیں چاہتا تھا  آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ یہ تو مجھے کہنا چاہئے کہ تم بدل رہی ہو۔ کہاں گئی میری وہ دوست جو بن کہے میری ساری پریشانیاں جان جاتی تھی جسے کچھ بتانے کیلئے مجھے لفظوں کا سہارا نہیں لیتا پڑتا تھا جو میرے چہرے کو پڑھنے کے فن سے آشنا تھی اور جسے پاکر میرے وجود کی تکمیل ہوتی تھی جو میرے دل کے موسموں  مزاج کے رنگوں اور میری عادتوں سے واقف تھی۔
حیدر کو حقیقتاً ساحرہ کی سوچ سے دکھ ہوا تھا  وہ دلفریب رسیلی آواز والی ساحرہ نجانے کہاں کھو گئی تھی جو لفظوں کی جادوگر تھی۔ اس وقت تو وہ ایک عورت نظر آ رہی تھی۔ حسد و رشک کی کیفیت میں مبتلا عام سی عورت۔ ساحرہ کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ وہ کچھ غلط بول رہی ہے۔ اس نے اپنی پسند سے بساط بچھائی تھی اور مرضی کے مطابق مہرے رکھے تھے۔
ہر بازی سوچ بچار سے جیتی تھی۔ جیسا کہ حیدر اس کا تھا۔ حیدر کی ماں  بہنیں اور خاندان والے سب گن گاتے تھے اس کے۔ اس نے ساری فضول سوچوں کو جھٹک کر حیدر پر توجہ دینی شروع کی تو اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ واقعی بہت بڑی بے وقوفی کرنے چلی تھی۔ اس سے شکوہ شکایات اور لڑائی جھگڑا کرکے۔ ساحرہ نے بڑی مہارت سے موضوع بدل دیا تھا۔ اب وہ امی کی بیماری اور ثمرہ کے سسرال میں ہونے والے تازہ ترین فنکشن کو ڈسکس کر رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ حیدر کا دھیان بٹ گیا تھا۔ آج وہ اذکی کے گھر میں تھی اس کے بیڈ روم میں۔ ایک دفعہ پھر وہ دانستہ اذکی کو ہرانے والی تھی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی سوچ کی پرچھائیں تھی جب کہ دل قدرے مطمئن ہو کر ٹھہر گیا تھا۔ اس نے بڑے استحقاق سے مگ اُٹھا کر کچن میں رکھے۔
”کل جب وہ آئے گی اور اسے میرے یہاں آنے کا پتا چلے گا پھر کیسی کیفیت ہو گی اس کی۔“ پورے گھر کا جائزہ لے کر ساحرہ نے تنفر سے سوچا اور بیڈ روم کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
###

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi