Episode 38 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 38 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”اماں! میں شاہ میر سے ملنا چاہلتی ہوں۔ میں اسے بتاؤں گی کہ میں اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ اماں! وہ مجھ سے بدگمان ہو رہا ہے۔ وہ اس جھوٹی عورت پر یقین کر رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ان ڈاکوؤں نے میرے ساتھ…“اپنی ماں کی گود میں سر رکھے وہ ٹوٹے لہجے میں کہتی ہوئی بے اختیار رو دی تھی۔ خالدہ نے اس کے بالوں میں محبت سے انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کے سر کو چوما۔

”ہاں بیٹی! تم اس سے ملو‘ اسے آرام سے تمام حالات بتاؤ‘ وہ یقینا سمجھ جائے گا۔“
”اماں! محبت کے رنگ اتنے کچے ہوتے ہیں کہ ایک ہی بارش سے بدرنگ ہو جاتے ہیں۔“ وہ لب کچلتے ہوئے آہستگی سے بولی۔
”تم نے شاہ میر کو فون کیا ہے؟“
”دونوں نمبر بند ہیں‘ اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
”اماں! ہم ابھی شاہ میر سے ملنے چلتے ہیں۔

(جاری ہے)

“ وہ بے قراری سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ خالدہ نے گہری سانس کھینچ کر چادر اٹھا لی۔
شفق کو اسپتال سے آئے آج ساتواں دن تھا اور وہ مسلسل شاہ میر کے نمبر پر ٹرائی کر رہی تھی مگر کوئی رسپانس نہیں مل رہا تھا۔ وہ دونوں رکشے کے ذریعے شادمان آئی تھی مگر کوٹھی کے گیٹ پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا پھر اس نے میس جانے کے متعلق سوچا۔ اس کی ماں کے چہرے پر تفکر کے سائے پھیلے ہوئے تھے جبکہ شفق پرامید تھی۔
ریسپشن پر اس نے اپنا تعارف کروایا اور شاہ میر کے متعلق پوچھا۔ سامنے کھڑے لڑکے نے جو خبر اس کی سماعتوں میں انڈیلی تھی‘ اسے سن کر ایک لمحے کیلئے وہ چکرا کر رہ گئی۔
”شاہ میر کی پوسٹنگ ہو چکی ہے۔“ وہ زیر لب بڑبڑائی۔ اس کی ماں نے اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتی ہوئی گھر چلی آئیں۔ ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی پوسٹنگ کیونکر ہوئی‘ اس کے پیچھے کون سا مضبوط ہاتھ ہے اس کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ کس نے کروایا؟ کڑیوں سے کڑیاں ملتی گئیں۔
بہت سے پردے آنکھوں کے سامنے ہٹتے چلے گئے اور وہ کسی ہارے ہوئے مسافر کی طرف بالکل ڈھے گئی تھی۔
######
”پھر کیا سوچا ہے تم نے؟“ وہ ابھی ابھی آفس سے آیا تھا۔ باپ کا پیغام ملتے ہی اسٹڈی روم میں چلا گیا تھا۔ جہاں زیب اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ اسے آتا دیکھ کر اس نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
”کس بارے میں؟“
”اپنی زندگی کے بارے میں۔
“ جہاں زیب نے کافی پیتے ہوئے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیا۔
”زندگی…“ وہ تلخی سے بولا۔
”اگر تم اپنی اس ”حماقت“ کی وجہ سے اداس پھر رہے ہو تو میں ”اسے“ لے آتا ہوں۔“ جہاں زیب نے کافی کے مگ پر انگلی پھیرتے ہوئے بہت اطمینان سے کہا تھا۔
ایسا اطمینان جو دوسروں کو بے اطمینان کر دے۔ شاہ میر کے تاثرات بدل گئے تھے۔ آنکھوں میں سختی سی اتر آئی۔
تاہم وہ بولا کچھ نہیں تھا۔ جہاں زیب اسی سکون کے ساتھ کافی کے سپ لیتے رہے۔
”تمہاری ”مجنونانہ“ حالت دیکھ کر دل تو نہیں چاہتا کہ تمہیں اصل حقیقت بتاؤں مگر بتانا ضروری بھی ہے۔ بشرطیکہ تم حوصلہ رکھو۔“ انہوں نے خالی مگ میز پر رکھ کر چیئر گھمائی۔ شاہ میر بے چینی سے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔ باپ کے کہنے پر اس نے چونک کر دیکھا۔
”تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ ڈاکو جو تمہارے گھر گھسے تھے۔ وہ یوں ہی آؤٹنگ کی غرض سے آئے تھے۔ میرا مطلب ہے کہ اگر انہوں نے ڈاکہ ہی ڈالنا ہوتا تو کوئی زیور‘ پیسہ بھی لے کر جاتے اور…“ انہوں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
شاہ میر کی آنکھوں میں دکھ کی لہریں ہلکورے لے رہی تھیں۔ جہاں زیب دھیرے سے مسکرائے۔
”میرے نادان بیٹے! وہ نیچ ذات تمہاری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی ہے۔
ان مڈل کلاس عورتوں کو ڈھکوسلے کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ پہلے خود کو چادروں میں لپیٹ کر پیش کرتی ہیں پھر اصل رنگ ڈھنگ دکھانے لگتی ہیں۔ وہ ڈاکو دراصل ڈاکو نہیں تھے‘ تمہاری بیوی کے پرانے عاشق تھے جو کہ تمہاری غیر موجودگی میں تجدید محبت کرنے آئے تھے۔ ایسی ذلیل گھٹیا…“
”پاپا! میں اس ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ خاموش ہو جائیں پلیز۔
“ وہ اذیت سے بولا تھا۔ جہاں زیب کی آنکھوں میں ناگواری در آئی۔
”یہ ٹاپک اسی وقت کلوز ہو گا‘ جب تم ہمیشہ کیلئے اس ”ورق“ کو پھاڑ کر پنی زندگی سے نکال دو گے۔ یہ پیپرز پڑے ہیں‘ ان پر سائن کر دو۔ اگر وہ لڑکی تمہارے قابل ہوتی تو وہ خود جا کر اسے لے آتا مگر اب…“ جہاں زیب نے چند کاغذات اس کے سامنے رکھے تھے۔ شاہ میر بے خیالی میں انہیں دیکھے گیا۔
”یہ… سب کیا ہے؟“
”یہاں سائن کرو۔“ جہاں زیب نے اسے قلم تھمایا۔
”پاپا…! مگر…“ وہ منمنایا۔
”کوئی اگر مگر نہیں‘ بہت ہو گئی بک بک۔ شاہ میر! تمہاری ضد کو مان لیا تھا‘ یہی بہت تھا۔ وہ لڑکی اگر کسی اچھے خاندان کی ہوتی تو اسی پر قناعت کرتی مگر ایسی عورتیں…“ جہاں زیب نے دو چار موٹی موٹی گالیاں دے کر اپنے غصے کو کچھ کم کیا۔
شاہ میر اس وقت جذباتی توڑ پھوڑ کا شکار تھا۔ رات رات بھر جاگنے کی وجہ سے پہلے ہی آنکھیں اور سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو گئی تھیں۔ اوپر سے پاپا کے مطالبے نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔ اس نے قلم تھام کر کاغذوں پر گھسیٹا اور پھر اٹھ کر تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا تھا۔ جہاں زیب کے لبوں پر پرسکون سی مسکراہٹ پھیل گی تھی۔
اس رات بڑی تیز آندھی آئی تھی۔ رات بھر بادل گرجتے برستے رہے۔ صبح بڑی اجاڑ اور ویران تھی۔ ہر طرف زرد پتے‘ درختوں کی ٹوٹی شاخیں اور گلابی پھول بکھرے پڑے تھے۔ صبح ڈاکیا آیا تھا اور ”وہ“ موت کا پروانہ اس کے ہاتھ میں تھما گیا۔ صبح سے شام اور شام سے رات ہو گئی تھی۔
اس رات کوارٹر ماسٹر بشیر احمد کے گھر صف ماتم بچھی تھی اور وہ تینوں ہی ایک دوسرے سے چھپ کر روتے رہے تھے۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi