Episode 62 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 62 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

سونی‘ پھوپھی کے گھر سے رخصت ہو کر اپنی اماں کے گھر آ گئی تھی۔زندگی میں گویا رنگوں کی برسات اُتر آئی تھی۔ سامی کی بے پایاں محبت‘ توجہ اور چاہتوں کے سنگ وقت سبک خرامی سے گزرنے لگا تھا۔ کمی تھی تو صرف اس ننھے منے وجود کی جو ان کی خوشیوں کے ستاروں کو قوس و قزح سے سجا دیتا۔
ایک معمول سے گزرتی زندگی کے سمندر میں تلاطم بھلا کب اور کیسے آیا؟
صبح اور شام کی اس کہانی کے صفحات پورب سے آتی ہوا سے پھڑپھڑائے تھے اور صفحہ قرطاس پر کچھ اور ہی نئے انداز میں رقم ہونے لگا۔
بہار سر جھکائے آنسو پیتی چپکے سے کسی اور دیس نکل گئی تھی اور خزاں نے نخوت سے پتا پتا گرتے درختوں کے نوحوں کو سنا اور استہزائیہ ہنس دی۔
سورج اپنی نرم کرنوں کو سمیٹ رہا تھا۔ دھوپ میں تپش سی محسوس ہونے لگی تھی۔

(جاری ہے)

دو پل بھی آنگن میں بیٹھنا محل ہو گیا تھا۔ اپریل کی آخری تاریخیں تھیں۔ موسم نے ایک دم ہی کروٹ بدل لی تھی۔ دن اور راتیں نہ جانے کیوں اُداسی کی لپیٹ میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔

آج صبح سے سونی پر نامعلوم سی سستی سوار تھی۔ معمول کے کام بھی بس جیسے تیسے نبٹائے تھے۔ بڑے دن ہوئے تھے اماں بی نے چکر نہیں لگایا تھا۔ ورنہ سونی کی طبیعت اماں بی سے ملاقات کے بعد فریش ہو جاتی تھی اور اماں بی کی گزارش اور درخواست تو سونی کے ذہن سے نہ جانے کب کی پرواز کر چکی تھی۔سامی نے بات کرنا‘ مشورہ کرنا تو دور کی بات تھی‘ذہن میں اماں بی کی التجا محفوظ ہوتی تو کرائے داروں کے بارے میں سوچا جاتا۔
سامی نے آج دیر سے آنا تھا۔آج پھر سے چناب بازار کی دکانوں کا کرایہ ملنا تھا۔سامی نے گھر کیلئے ضروری سامان خریدنا تھا۔ سو وہ جانتی تھی کہ سامی دو‘ تین گھنٹوں سے پہلے آنے والا نہیں۔
وہ کھانا تو کب کا بنا چکی تھی۔ چکن بریانی‘ کڑھی کوفتہ اور میٹھے میں کھیر‘ ایک ہی تو سونی کا شوق تھا‘ اچھا اچھا پکانا اور رج کے کھانا۔
رات کے آٹھ بج چکے تھے‘ گلیاں سرشام ہی سنسان ہو جاتی تھیں۔
چھوٹے محلوں کے محنت کش لوگ تھکے ہارے بستروں پر لیٹتے ہی خراٹے لینے لگتے۔ مگر آج کچھ الگ اور انوکھی سی بات فضا محسوس کر رہی تھی۔
گلی میں معمول سے ہٹ کر چہل پہل‘ہلکی ہلکی سرگوشیاں‘تاسف میں ڈوبی آوازیں‘کسی کے چیخنے اور چلانے کی چنگھاڑ‘ جواباً درد میں ڈوبی سسکیاں‘ آہیں۔
”یارب! یہ معاملہ کیا ہے؟“سونی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیرونی گیٹ تک چلی آئی‘ جھری میں سے دیکھا تو بہت سے چہرے نظر آئے‘ تنویر باجی‘ خالہ بتول‘ چاند بی‘ بے بے نعمت اور نہ جانے کون کون۔
سونی نے دروازے کا پٹ کھول کر بازار میں جھانکا تھا۔ تقریباً سبھی کے گھروں کے کواڑ کھلے تھے۔ عورتیں اور بچیاں جھانک رہی تھیں۔ کچھ چوبارے پر لٹکی ہوئی تھیں۔ سونی حیران ہی تو رہ گئی۔
”تنویر باجی! کیوں کھڑی ہیں؟“
”ارے سونی! تم کیسی ہو؟“تنویر باجی نے سونی کو دیکھ کر خوشی کا بے ساختہ اظہار کیا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ سب یہاں اس وقت کیوں کھڑی ہیں‘ خیریت تو ہے؟“سونی اپنے گیٹ کا کواڑ پکڑے کھڑی تھی۔
تنویر باجی نے کچھ سوچا تھا‘ پھر جلدی جلدی اپنا دروازہ بند کرکے اس کے پاس چلی آئیں۔
”آؤ‘ تم بھی دیکھ لو‘یہاں تو اچھا خاصا تماشا لگا ہے۔“
”کیا ہوا؟“وہ اور بھی حیران ہوئی۔
”کوثر نے اماں بی کے مہمانوں کو گھر سے نکال دیا ہے۔“تنویر باجی نے تاسف سے کہا۔
”کیوں؟“ سونی کا منہ بے ساختہ کھل گیا۔
”کوثر سدا کی زبان دراز ہے‘ بے چاری ماں‘ بیٹی پر ایسے گندے گندے الزام لگائے ہیں‘ رات کے اس پہرے گھر سے نکال دیا ہے‘ سامان اٹھا کر گلی میں پھنکوا کر خود ایسی ایسی غلیظ گالیاں دینے لگی۔
“ تنویر باجی نے کانوں کو ہاتھ لگا کر دیدے گھمائے۔
”بڑی بے عزتی کی ہے کوثر نے ثروت بے چاری کی‘ساری گلی‘ محلے کے سامنے۔“
”اماں بی کہاں ہیں؟“
”وہ تو پندرہ‘ بیس دن سے کسی نواسی کی شادی کے سلسلے میں سکھر گئی ہیں۔“تنویر باجی نے مزید اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”اور وہ مہمان کہاں ہیں؟“سونی ساکت ہی تو رہ گئی تھی۔
پشیمانی کے عمیق گڑھے میں گرنا اسی کو کہتے ہیں۔آناً فاناً اسے اماں بی کی درخواست کا خیال آ گیا۔ساتھ ڈھیروں شرمندگی نے گھیر لیا تھا۔
”بے بے نعمت کے گھر‘ اب اس وقت بے چاری کہاں جاتیں‘صبح کو کہیں جانے کیلئے نکلیں گی۔“ تنویر باجی پپو کے آواز دینے پر پلٹ گئی تھیں۔سونی کئی لمحے سوچتی رہی تھی‘پھر دوسرے ہی پل چادر لپیٹے بے بے نعمت کے گھر آ گئی۔وہ دونوں ماں‘ بیٹی ڈیوڑھی میں بیٹھی تھیں۔ غم زدہ‘ رنجیدہ‘ شرمندہ۔
”میں سونی ہوں‘اماں بی نے ذکر تو کیا ہوگا۔ آپ خالہ ثروت ہیں اور یہ آپ کی بیٹی سوہنی۔“وہ ان کے قریب ہی دو زانو بیٹھ گئی تھی۔اس کے نرم ملائم لہجے نے ان دونوں ماں‘بیٹی کو سر اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi