میں ساحرہ ہوں۔ مرسلین وجاہت کی اکلوتی بیٹی۔
محبت‘ ذہانت‘ حسن اور دولت سے مالا مال۔
بچپن سے ہی مجھے احساس دلایا گیا تھا کہ میں بہت خاص ہوں۔ اپنے ماں باپ کیلئے‘ دادی دادا کیلئے‘ ننھیال والوں کیلئے۔ ڈیڈی مجھے بے انتہا چاہتے تھے۔ انہوں نے میری ہر ضد پوری کی۔ مجھے بے تحاشا محبت دی لیکن ایک وقت ایسا آیا تھا کہ میرے عزیز ازجان ڈیڈی نے نہ صرف میری خواہش رد کی بلکہ مجھ سے شدید ناراض بھی ہوئے۔
انسان جذبات میں اندھا ہوتا ہے اور محبت میں بے تحاشا اندھا… میں نے ہوش سنبھالا تو حیدر کا نام اپنے نام کے ساتھ جڑا سنا۔
نانی ہمیشہ بڑے دلار سے کہتی تھیں کہ ساحرہ میرے حیدر کی دلہن بنے گی۔ شعور کے ساتھ ساتھ حیدر کا خیال پختہ ہوتا گیا۔ اسی لئے میں نے ہمیشہ اس پر اپنا حق جتایا۔
(جاری ہے)
کیونکہ نانی کے ساتھ خالہ نے بھی ہمیشہ مجھے یہی جتانے کی کوشش کی تھی کہ حیدر مجھے چاہتا ہے مجھ سے محبت کرتا ہے۔
جو خواب خالہ نے میری آنکھوں میں اتارے تھے ان کی مدت بے حد طویل تھی۔ میں نے چھوٹی سی عمر میں بڑا لمبا سفر طے کر لیا تھا۔ جب حیدر کے نکاح کی خبر مجھ تک پہنچی تو میرے قدموں تلے گویا انگارے بچھ گئے۔ جسے میں نے سوچا‘ چاہا‘ پوجا وہ کسی اور کا ہو گیا تھا۔ مجھ پر ایک جنون کی کیفیت طاری ہو گئی۔ میں ساری رات روتی رہی‘چیختی رہی۔ امی مجھے سنبھال رہی تھیں سمجھا رہی تھیں۔
مجھے اس لڑکی سے نفرت محسوس ہو رہی تھی جو حیدر کی منکوحہ تھی۔ میرے خواب اجڑ گئے تھے۔ میں جتنا بھی ماتم کرتی کم تھا۔
خالہ کو میری حالت کا پتا چلا تو وہ دوڑی چلی آئیں۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ اس نکاح کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ اہمیت۔ خالو نے جذبات میں آکر یہ قدم اٹھایا ہے اور مجھے غمگین نہیں ہونا چاہئے۔ میں سنبھل گئی۔ پھر حیدر کے رویے نے بھی خالہ کی بات پر مہر لگا دی۔
میں مطمئن ہو گئی تھی۔
خالہ نے ہر لمحے مجھے احساس دلایا تھا کہ میں ہی ان کی بہو ہوں۔ میرے لئے یہ اعزاز کسی میڈل سے کم نہیں تھا۔
اذکی کیا تھی حیدر کی نظر میں خالہ کی نگاہ میں فقط عام سی لڑکی جسے خالو ہمدردی کے تحت لے آئے تھے۔ خالہ نے ہمیشہ اسے کسی تیسرے درجہ کی ملازمہ ہی سمجھا تھا۔ میں نے بھی خالہ کی پیروی کرتے ہوئے اسے ایک نوکرانی کی طرح ٹریٹ کیا۔
لیکن میرے لاشعور میں ہمہ وقت ایک خوف کنڈی مارے بیٹھا رہتا تھا جو کہ مجھے کبھی بھی مطمئن ہونے نہ دیتا۔ یہ خوف آہستہ آہستہ جڑ پکڑنے لگا۔ جب میں نے حیدر کو ازکی کی طرف متوجہ ہوتے دیکھا۔ اگرچہ وہ اسے بلاتا نہیں تھا مگر اس کی آنکھیں، میری چھٹی حس نے مجھے احساس دلایا تھا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔ پھر خالہ کی طرف سے شادی کا اصرار۔ میں نے امی اور ڈیڈی کو اپنی قسم دے کر منا لیا تھا جبکہ ڈیڈی مجھ سے شدید خفا ہو گئے تھے۔
ان کے نزدیک میں غلط تھی میری محبت غلط تھی۔ مجھے ڈیڈی کی اس سوچ سے وحشت ہونے لگی۔ انہیں تو اپنی بیٹی کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا کجا کہ ایک ایسی لڑکی جسے انہوں نے دیکھا تک نہیں تھا۔ اس کے غم میں گھلے جا رہے تھے۔ اس رات میری ڈیڈی کے ساتھ شدید جھڑپ ہوئی۔
”کیا یہ اس لڑکی پر ظلم نہیں جو کہ حیدر کی منکوحہ ہے۔“ ڈیڈی کے الفاظ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
”آپ کو میرا احساس نہیں ہے۔“ میں نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ امی اور ڈیڈی کو آخر ماننا ہی تھا۔
حیدر کی زندگی میں داخل ہو کر بھی میرے اندر سے وہ خوف نہیں نکل سکا مجھے اذکی کے وجود سے نفرت تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب میں نے نئے سرے سے ”گیم“ پلان کیا۔ ایسا گیم جس میں سارے فائدے میرے ہی تھے۔
خالہ تو ویسے بھی اذکی سے متنفر تھیں۔ ان کی نفرت کو میں نے مزید دو چند کیا تھا ہر وقت اذکی کی برائیاں کر، کرکے لیکن جب مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوئی میں نے خالہ کو رام کرنا شروع کر دیا۔
پانچ سال گزر جانے کے بعد ڈاکٹر نے جو پروانہ میرے ہاتھ میں پکڑایا تھا اس نے میرے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ خالہ کا رویہ بھی بدلنے لگا۔ نندوں نے بھی دبے دبے طعنے دینا شروع کر دیئے۔
ان سب کی فطرت سے میں واقف تھی۔ اپنا مقام بڑھانے اور حیدر پر احسان کرنے کا مجھے موقع مل گیا۔ میں نے خالہ اور حیدر کو اذکی کی طرف ازخود متوجہ کیا۔ خالہ اذکی سے تو نہیں البتہ مجھ سے اور بھی خوش ہو گئیں۔ پورے خاندان میں واہ واہ ہونے لگی۔ میرے اس عمل سے ڈیڈی بے حد خوش تھے۔ اذکی اور حیدر کے نکاح سے تقریباً سب ہی لاعلم تھے۔ اسی بات سے فائدہ اٹھا کر میں نے ایک نئی مثال قائم کرکے سب کے دلوں پر راج کرنے کے متعلق سوچا حیدر میر اعلیٰ ظرفی کا قائل ہو گیا۔
اس کی محبت میں کئی گناہ اضافہ ہوا تھا۔
اذکی ماں بنی تو حیدر بے حد خوش تھا۔ اسے اولاد کی نعمت حاصل ہوئی تھی اسے تو خوش ہونا ہی تھا۔ میں نے بھی خوش دلی کا خول خود پر چڑھا لیا۔ زید کو گود میں لیتے ہوئے ایک اور ننھا سا احساس دل میں ابھرا تھا۔ یہ احساس نفرت کا نہیں حسد کا تھا اور یہ حسد مجھے اس مقام تک لے آیا جس میں نری رسوائی ہی رسوائی تھی۔
سوچی سمجھی اسکیم کے تحت میں نے اذکی کو گھر سے نکلوایا تھا۔ مگر یہاں پر مجھے منہ کی کھانی پڑی تھی‘ میرے وجود کی عمارت دھڑام سے گری تھی۔
”حیدر نے اذکی کو فلیٹ لے دیا۔“ میرا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ اس خبر نے مجھے توڑ پھوڑ دیا۔
”تو کیا اذکی‘ حیدر کے دل تک پہنچ گئی ہے۔“ میں خوفزدہ ہو گئی۔ حیدر مجھ سے دور جانے والا تھا۔
چونکہ اذکی کا پلڑا بھاری تھا وہ اس کے بچوں کی ماں تھی۔ مجھے خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں۔ ہمیشہ غیر محسوس طریقے سے اپنی مٹھاس بھری باتوں میں حیدر کو الجھا کر میں نے اذکی تے متنفر کرنے کی کوشش کی تھی مگر اب… سارا پانسا الٹ چکا تھا۔ میں جو جھولی بھر کر لینے کی عادی رہی تھی تہی داماں رہ گئی۔ اس کا سرشار مطمئن چہرہ‘ سجا سجایا گھر‘ صحت مند بچے‘ مکمل گھریلو عورت کا روپ اور پھر بچوں پر فدا ہوتا حیدر۔
سب کچھ اسی کا تھا میرے حصے میں کیا آیا۔
میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا اس کے سکون کو درہم برہم کرنے کا سو میں کامیاب بھی رہی۔
حیدر کے سامنے دو شرائط رکھ کے میں پرسکون وہ چکی تھی۔ حیدر نے دیا کو میرے حوالے کر دیا یعنی کہ وہ اذکی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔
اگر میں ظرف اور دل کو تھوڑا وسیع کر لیتی تو آج خالی دامن نہ رہتا پڑتا مگر میں تو بے حد کم ظرف تھی۔
میں ایسا کیونکر کرتی۔
دیا میرے پاس آئی تو پہلی مرتبہ میں نے اس میں حیدر کی شبیہ ڈھونڈ کر جی بھر کے اسے پیار کیا۔ میری ممتا کے سوتے پھوٹ پڑے۔ دیا حیدر کی بیٹی تھی میں نے اسے اپنی بیٹی سمجھا‘ مگر وہ اذکی کے وجود کا حصہ بھی تھی وہ مجھے کبھی ماں نہیں سمجھ سکتی تھی۔ تین سال کی بچی میرے اور اپنے رشتہ کو جان بھی کیسے باقی۔ ماں سے دوری نے اسے چڑچڑا کر دیا تھا۔
وہ دن بھر روتی اور رات بھر چلاتی رہتی۔ میں نے اسے چپ کروانے اور سلانے کا پرانا طریقہ سوچا۔
مجھے جب نیند نہیں آتی تو میں آرام سے دو تین گولیاں کھا کے سو جاتی ہوں۔ میں نے اس تین سالہ بچی کے ساتھ بھی یہی کیا اور وہ ہمیشہ کیلئے سو گئی اور حیدر کی محبت بھی دیا کے ساتھ مر گئی۔ وہ مجھے الزام دیتا ہے کہ میں نے اس کی بیٹی کو قتل کر دیا ہے۔
ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے اسے مارا ہے لیکن جان بوجھ کر نہیں۔ میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی۔ میں تو بس… بھلا میں حیدر کی بیٹی کو مار سکتی ہوں مگر حیدر کو کون سمجھائے۔
اس نے مجھے پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ حالانکہ اسے ایسا کرنا چاہئے تھا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ اپنی رسوائی کے ڈر سے خاموش ہو گیا ہے۔
نہ ہی وہ اخبار میں لگنے والی خبروں سے خوفزدہ ہو کر چپ کی بکل مار بیٹھا ہے۔
اس نے دراصل مجھے ضمیر کے حوالے کر دیا ہے تاکہ یہ ضمیر رات دن کچوکے لگائے‘ کوڑے برسائے‘ اذیت سے دوچار کرے مجھے۔ خود تو وہ اسی دن چلا گیا تھا اذکی اور زید کو لے کر۔
میں اور میری خالہ اس سنہری محل میں سارا دن چکراتی رہتی ہیں۔ لیکن ایک دوسرے سے کچھ نہیں بولتیں۔ ہمارے پاس بولنے کیلئے بچا ہی کچھ نہیں حیدر چلا گیا۔ میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میں جانتی ہوں اب وہ کبھی نہیں لوٹے گا۔
بھلا حیدر کے بغیر بھی زندگی کوئی زندگی ہے۔ مجھے اب جینا چاہئے بھی نہیں میرا زندہ رہنے کو دل بھی نہیں کرتا۔ اب تو دیا بھی رات بھر پکارتی رہتی ہے۔ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔ اسی لئے وہ مجھے اپنے پاس بلاتی ہے۔ میں دیا کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ میں اس تعفن زدہ وجود و ختم کرنا چاہتی ہوں۔
کاش میں تم سے معافی مانگ سکتی اذکی! اے کاش نادان انسان سمجھ پائے۔“
######