Episode 34 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 34 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

شاہ میر نے کرائے پر کوٹھی لی تھی جس میں وہ شفق کو لے کر گیا تھا اور جسٹس شرجیل کیلئے شادمان میں اس درمیانے درجے کی کوٹھی کا پتا لگانا کون سا مشکل کام تھا۔
”وہ دونوں ایک ہفتے کیلئے ملک سے باہر گئے ہیں۔“ جسٹس شرجیل فون پر اپنے دوست سے مخاطب تھے۔
”تم اسے ایک دفعہ پاکستان آ لینے دو پھر دیکھنا‘ میں اس کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔“ جنرل جہاں زیب دوسری طرف پھنکار رہا تھا۔
شرجیل نے زہر کا گھونٹ بھرتے ہوئے جہاں زیب کو ٹھنڈا رہنے کی تلقین کی۔
”شرجیل! اس بے غیرت نے میری انا کو للکارا ہے۔ میں اس کا خون کر دوں گا۔ اس نے ابھی میری نرمی اور پیار دیکھا ہے‘ اسے ڈھیل دے رکھی تھی میں نے۔ بہت ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اس نے میری نرمی کا۔ ایک دفعہ آ لو لینے دو اسے‘ میں کیا حشر کروں گا اس کا۔

(جاری ہے)

“ جہاں زیب بھوکے شیر کی طرح غرا رہے تھے۔

ایسے ہی غصے اور اشتعال کی تیز لہریں شرجیل کے وجود سے بھی اٹھ رہی تھیں۔
”جذباتی مت بنو جہاں زیب! اپنے بیٹے کے کیریئر کو تباہ کرنے کے بارے میں مت سوچو۔ ہمیں شاہ میر کے راستوں میں روڑے اٹکانے کی ضرورت نہیں۔“ شرجیل نرم آواز میں بولے۔
”اس نے مجھے ذلیل کرکے رکھ دیا ہے۔ بہت شرمندہ ہوں میں تم سے۔“
”جانے دو اس بات کو‘ اب آگے کا سوچو۔
جو ہونا تھا‘ وہ تو ہو چکا ہے۔ شاہ میر نے اپنی مرضی کر لی ہے‘ اب ہماری باری ہے۔ اگر تم شاہ میر سے اُلجھو گے‘ جھگڑو گے تو وہ تم سے اور دور چلا جائے گا۔ اسے خود سے قریب کرو۔ ہم کیوں اس کی نظروں میں بُرے بنیں۔ اسے کیوں نہ شاہ میر کی نگاہوں سے گرا دیں جو کہ سارے فساد کی جڑ ہے۔ وہ اس لڑکی کی ظاہری شخصیت سے متاثر ہوا ہے۔ اس کے اندر کی بدصورتی برداشت نہیں کر پائے گا۔
“ ہلکا سا قہقہہ لگا کر شرجیل ایک پل کو رکے۔
”یہ وقت جوش سے نہیں‘ ہوش سے کام لینے کا ہے۔ اگرچہ غلطی شاہ میر کی ہے مگر سزا کی حق دار وہ عورت ہے جس نے شاہ میر کو اپنے جال میں پھنسایا ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔ ذرا غور سے سنو“ شرجیل نے شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنا نیا منصوبہ دوست تک پہنچایا تھا۔
دوسری طرف جہاں زیب بھی کھل اٹھے۔
اب وہ دونوں بڑے خوش گوار موڈ میں بات چیت کر رہے تھے۔
######
”تمہیں پاکر میرے وجود کی تکمیل ہوئی ہے شفق! میں جو صرف ایک ایڈونچر کے تحت تم تک آیا تھا‘ دل لگی کرتے کرتے تمہیں دل میں ہی بسا لیا ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم یوں میرے دل و دماغ پر حاوی ہو جاؤ گی کہ تمہارے بغیر ایک پل کٹنا بھی نہایت مشکل ہوگا۔ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہا تھا۔
شفق کا انگ انگ سرشار ہو گیا۔ وہ شاہ میر کے قریب آکر اس کے کندھے پر سر ٹکاتے ہوئے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دور تلک پھیلے خوش رنگ پھولوں اور اونچے اونچے درختوں کو دیکھنے لگی۔
”زندگی کس قدر خوبصورت ہے۔“ وہ خوابناک لہجے میں بولی تھی۔
”زندگی نہیں‘ تم خوبصورت ہو۔“ شاہ میر نے اس کے گرد بازو پھیلا کر نرمی سے کہا۔
”آپ کو اتنی اچھی اچھی باتیں کرنا بھی آتی ہیں۔
میں تو سمجھ رہی تھی کہ صرف لڑنا اور جھگڑنا ہی آتا ہے۔“ شفق نے شرارت سے کہا۔ شاہ میر نے گردن موڑ کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور تنک کر پوچھا۔
”میں نے کب تمہارے ساتھ لڑائی کی ہے۔ بتاؤ ذرا۔“
”ایک تو یہ جو ویٹر بے چارہ بدقسمتی سے پاکستانی ہے‘ اس کی شامت آئی رہتی ہے۔ دوسرے ہوٹل کا منیجر جس کے ساتھ کئی مرتبہ جھگڑ چکے ہیں آپ۔
وہ بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ کب یہ لوگ یہاں سے دفعان ہوں گے۔“
”اوہو‘ تمہیں بتانا یاد ہی نہیں رہا۔ آج رات بارہ بجے کی فلائٹ ہے ہماری۔“ شاہ میر نے گلاس ونڈو ایک جھٹکے سے بند کرکے پردے برابر کر دیئے تھے۔
شفق کا خواب بھی ایک چھناکے کے ساتھ ٹوٹا تھا‘ وہ بے خیالی میں شاہ میر کو تکنے لگی۔
”ہم کچھ اور دن نہیں یہاں ٹھہر سکتے۔
”محترمہ! میری صرف ایک ہفتے کی چھٹی تھی۔ وہ بھی کرنل حشمت کی مہربانی سے ملی تھی۔ آج جانا بہت ضروری ہے۔“ وہ بیڈ پر بیٹھ کر سوکس پہننے لگا پھر جوگرز کے تسمے کستا کھڑا ہو گیا۔
”تم پیکنگ کر لو پھر تھوڑی سی شاپنگ کر آئیں گے‘ ورنہ اشعر اور شہروز نے تو مجھے زندہ نہیں چھوڑنا۔“ وہ بال بنا کر بولتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ شفق بے دلی سے اٹھ کر سوٹ کیس نکالنے لگی۔
شفق نے اپنی اور شاہ میر کی مختصر پیکنگ کر لی تھی۔ شاور لے کر اور بال سلجھا کر وہ کچھ آزردہ سی بیڈ پر بیٹھی تھی‘ جب شاہ میر آ بھی گیا تھا۔ اسے گم صم بیٹھ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا۔
”کیا بات ہے شانی؟“ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے وہ تیز لہجے میں بولا۔ شفق نے پرنم آنکھوں سے اس کے وجیہہ چہرے کی طرف دیکھا۔
یہ شخص کس قدر عزیز ہو گیا تھا کہ اُسے کھونے کا خیال ہی جان نکالنے لگتا تھا اور پاکستان واپس جانے کا سوچ کر ہی اس کی روح تک کانپ جاتی تھی۔
”کچھ نہیں۔“ وہ بھرائی آواز میں بولی۔
”پھر رو کیوں رہی ہو؟“ شاہ میر نے اس کے گال پر پھسلتا آنسو پونچھا۔
”کب رو رہی ہوں۔“ اس نے ہتھیلیوں کی پشت سے آنکھیں رگڑیں۔
”پیکنگ کر لی ہے۔“ شاہ میر کے استفسار پر اس نے سر ہلا دیا تھا۔ اسی پل ویٹر کافی لے آیا تھا۔ کافی پی کر وہ دونوں شاپنگ کرنے چلے گئے تھے۔
واپس آ کر کھانا کھانے کے بعد شاہ میر تو ایک ڈیڑھ گھنٹے کیلئے سو گیا تھا جبکہ شفق کی ایک پل کیلئے بھی آنکھ نہیں لگی تھی جو باتیں شادی سے پہلے سوچنے والی تھیں‘ وہ اب مختلف مشکل میں ذہن کے دریچوں پر دستک دے کر اسے ڈسٹرب کر رہی تھیں۔
دل میں چند ایک خدشات بھی سر اٹھا رہ تھے۔ جب جہاز نے لندن کی حسین سرزمین کو الوداع کہا تو ساتھ ہی شفق کا سکون یہیں کہیں ان ہی فضاؤں میں بکھر کر رہ گیا تھا۔
لاہور ایئر پورٹ کی عمارت سے باہر نکل کر جوں ہی شاہ میر نے ٹیکسی کی تلاش نگاہیں دوڑائیں تو سامنے سے آتے اپنے ڈرائیور یاور کو دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا۔ یاور نے ان کے قریب آکر زور دار آواز میں سلام جھاڑا تھا۔
”چھوٹے صاحب! آئیں میرے ساتھ۔ بڑے صاحب نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو لے کر سیدھا پنڈی آؤں۔“ یاور نہایت ادب سے بولا۔
”بڑے صاحب نے؟“ شاہ میر نے تعجب سے کہا۔ شفق کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔
”ہاں جی‘ انہوں نے کہا ہے کہ آپ اور چھوٹی بی بی دونوں گھر آئیں۔ وہ آپ دونوں کا انتظار کر رہے ہیں۔“ شاہ میر بے حد حیران تھا۔
وہ اپنے پاپا کے مزاج کو جانتا تھا۔ ان سے اتنی نرمی کی توقع اسے ہرگز نہیں تھی پھر بھی وہ شفق کے منع کرنے کے باوجود گاڑی میں سامان رکھوانے لگا۔
”ٹھیک ہے جو ہوگا‘ دیکھا جائے گا۔“ شاہ میر نے ہمیشہ کی طرح لاپروائی سے سرجھٹکا۔ شفق بے حد خوف زدہ تھی۔ وہ شاہ میر کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی۔
”شاہ میر! آپ مجھے اماں کی طرف چھوڑ دیں۔
“ شفق آہستگی سے منمنائی۔ شاہ میر نے سخت نظروں سے اسے گھورا۔
”بیٹھو…“ اس نے شفق کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کادروازہ کھولا۔
”میں اماں سے ملنا چاہتی ہوں۔“ وہ ایک دفعہ پھر منمنائی تھی۔ شاہ میر نے اسے گاڑی میں دھکیل کر دروازہ بند کیا اور خود دوسری طرف آکر بیٹھ گیا۔
جوں جوں پنڈی کی حدود شروع ہو رہی تھیں‘ شفق کا سانس حلق میں اٹکنے لگا تھا اور پھر جب گاڑی ایک عالی شان بنگلے کے سامنے رکی تو وہ دل کو مضبوط کرکے شاہ میر کے ہم قدم ہو گئی۔
پہلا جھٹکا اسے تب لگا تھا‘ جب وہ اپنی ساس سے ملی تھی اور پھر جہاں زیب سے ملاقات کے بعد اس کے سارے خدشات پانی کے بلبلے کی طرح ایک ایک کرکے بیٹھتے چلے گئے۔ ان کا استقبال اتنا اچھا تھا کہ شاہ میر بھی حیران رہ گیا تھا۔ اس کی امیدوں کے برخلاف اس کے باپ نے شفق کو بحیثیت بہو کے نہ صرف قبول کیا بلکہ شاہ میر کے اس ”گناہ“ کو بھی کمال اعلیٰ ظرفی کے ساتھ معاف کر دیا۔
وہ صرف دو دن ہی رہے تھے‘ تیسرے دن شفق بھی شاہ میر کے ہمراہ لاہور آ گئی تھی۔ رات کو وہ اپنی ماں سے ملنے چلی گئی۔ اس کی ماں کا سر اسے ہشاش بشاش اور شاد دیکھ کر فخر سے بلند ہو گیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر بیٹی سے کرید کرید کر شاہ میر کے والدین کے رویوں کے متعلق پوچھتی رہی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi