Episode 57 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 57 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”دفع دور۔“ سونی بری طرح سے جھینپ گئی۔
”ایک بات کہوں؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے اجازت طلب کی۔
”برے منہ سے اچھی بات نکالنا۔“ سونی نے وارننگ دی۔
”سنو تو…“ شازی قدرے آگے کو جھکی۔ ”سامی کے ساتھ تیری خاص بے تکلفی ہے۔“
”کچھ خاص بھی نہیں۔“سونی نے بے نیازی دکھائی۔ ”خود بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید اس کا مزاج ہی ایسا ہے اور پھر مجھ سے گالیاں سنتا ہے۔
”اور گالیاں سن کر کیا کرتا ہے۔“وہ بے حد سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
”خوش ہوتا ہے۔ ہنستا ہے۔“سونی نے لاپرواہی سے کہا۔
”اچھا۔“وہ منی خیزی سے ہونٹ سکیڑنے لگی۔
”مجھے تو لگتا ہے۔“
”کیا؟“سونی بغیر اس کے کہے ہی سمجھ گئی تھی تبھی پھاڑ کھانے کو دوڑی۔
”سامی کو تجھ سے خاص قسم کا لگاؤ ہے۔

(جاری ہے)

”وضاحت کرنا پسند کرو گی۔
“ سونی نے طنزیہ کہا۔
”بھئی صاف لفظوں میں کہوں گی تو تمہیں بظاہر تو برا لگے گا البتہ دل ہی دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے۔“ وہ کپڑے تہہ کر چکی تھی۔ اب فرصت سے چارپائی پر پھسکرڑا مارے بیٹھ گئی۔
”بکو۔“سونی نے انجان بننے کی بھرپور ایکٹنگ کی۔
”مجھے تو لگی لپٹی آتی نہیں۔ صاف بات کروں گی۔ سامی اور تمہاری خالہ کا اینٹ‘ پتھر کا بیر ہے۔
ایک سیر ہے تو دوسرا سو اسیر۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر اکٹھے آتے رہے ہیں۔ یعنی تمہارے گھر۔ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔“ شازی نے مکاری سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
”ہامون جادوگر کی بہن کی طرح ڈیلوں کو مت مکارانہ انداز میں گھمایا کرو۔“ وہ دل کی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو ڈنپٹتے ہوئے بول تھی۔
”مجھے تو لگتا ہے۔ سامی تجھ سے محبت کرتا ہے۔
عنقریب تمہارا ہاتھ مانگنے آئے گا۔ لکھوا لو مجھ سے“ 
”اور میں اتنی احمق ہوں۔ اپنا ہاتھ کاٹ کر اُسے دوں گی۔ ہونہہ۔“ سونی نے تنک کر کہا۔
”تم احمق نہیں ہو بلکہ احمقوں کی ملکہ ہو۔“شازی نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ ”اماں کے پاس آئے گا۔ تیرا رشتہ مانگنے۔“
”اچھا۔“سونی نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”مجھے تو لگتا ہے۔
سامی تیرے سے مشورے کرتا ہے روزانہ۔“
”یہی سمجھ لو۔“وہ مزے سے پیر جھلانے لگی۔
”تو ڈیئر شازی! تم بھی ایک بات ذہن نشین کر لو کہ سامی جیسے خوبرو نوجوان کو بھلا پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے کی حماقت کرے۔ اسے لڑکیوں کی بھلا کیا کمی ہے۔ جہاں بھی جائے‘مقناطیس کی طرح صنف نازک کو کھینچ لیتا ہے اپنی طرف۔ اماں کی وفات پر تو مجھے ہوش نہیں تھا البتہ دسویں اور چالیسویں پر میں نے سامی کے گرد اتنی ”بالیوں“ کا جمگھٹا دیکھا ہے نا اور بالیوں کی ماؤں تک کو اس پر فدا ہوتے ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا ہے۔
مجھے تو لگتا تھا تمام خواتین پرسہ دینے نہیں‘سامی سے روابط بڑھانے کیلئے آتی ہیں۔“ سونی بے حد سنجیدہ تھی۔
”ایسے لڑکے ہمارے گلی‘محلوں میں کسی ہیرو کی طرح پہچان بنا لیتے ہیں۔“
”سامی معاشی طور پر بہت کمزور ہے۔اپنا گھر بھی نہیں‘کرائے کا مکان وہ بھی ڈیڑھ کمرے کا۔“ شازی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ”ٹھیک ہے۔ ہم بھی سفید پوش لوگ ہیں۔
ابا کی دودھ‘ دہی کی چلتی دُکان ہے۔ یہ تین کمروں کا مکان ہے‘ لیکن ہے تو اپنا۔ سامی تو ابھی تک کوئی کام دھام بھی نہیں کرتا۔“
”کام سے تو لگا ہوا ہے۔“
”بڑی معلومات ہیں۔ واہ جی واہ۔“ شازی گویا یہی سب سننے کیلئے سنجیدہ خانم بنی ہوئی تھی۔ ”کس نوعیت کے کام سے منسلک ہیں جناب!“
”خالہ کسی کے پوچھنے پر بتا رہی تھیں۔ رنگساز کی دُکان پر کام کرتا ہے۔
”چلو‘ اب تو ہماری اماں اعتراض کا کوئی نقطہ بھی نہیں اٹھائیں گی۔ لڑکا برسر روزگار ہے۔ رج کے سوہنا ہے۔ ہماری سونی کا دل سے طلبگار ہے۔“ شازی کی زبان نان اسٹاپ چل پڑی تھی۔
”بکو مت۔“ سونی برامان گئی ”میں خوابوں اور خوش گمانیوں میں گم رہنے والی نہیں ہوں اور نہ ہی میں سامی کے حوالے سے خوابوں کے تاج محل کھڑے کروں گی۔“
”فرض کرو۔
سامی کی طرف سے نکاح کا پیام آئے تو تم کیا جواب دوں گی۔ اماں بھی رضا مند ہوں اور بھی کسی کو اعتراض نہ ہو۔“ نجانے کیوں شازی کسوٹی کسوٹی کھیلنے پر اسے بھی مجبور کر رہی تھی۔
”میں ایسا کچھ بھی فرض نہیں کر سکتی۔“ ایکدم اس کے تاثرات پتھریلے ہو گئے تھے۔ اپنے نازک آبگینے سے دل کو وہ کسی بھی قسم کی ٹھیس پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
“ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔“
”مگر اب سوچنا شروع کر دو۔“ شازی نے چٹکی بجائی۔
”تم کہنا کیا چاہتی ہو۔“ اب کے سونی سچ مچ ٹھٹک گئی۔
”جو تمہیں کچھ کچھ سمجھ میں آ چکا ہے۔“ وہ چہکی۔
”شازی!“سونی کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا۔ ”تم ایسے سنگین مذاق بھی کرنے لگی ہو۔“
”یہ مذاق سنگین نہیں رنگین ہے۔ ٹوٹلی کلر فل۔
“وہ ہنس رہی تھی۔
”بکتی ہو یا لگاؤں دو جھانپڑ۔“ اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
”ہو۔ ہو‘ اتنی بے صبری۔“وہ اس کی بے چینی سے لطف اٹھا رہی تھی۔
”شازی۔“ اس نے دانت پیستے ہوئے شازی کے بازو پر مکا جڑا۔
”جارہی ہوں میں۔“وہ سچ مچ اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی تھی۔ محض اپنی آنکھ میں اترنے والی نمی کو چھپانے کیلئے۔
”سونی! رکو تو‘سنو تو۔“ شازی چلائی۔
”نہ رکوں گی نہ سنوں گی۔“
”سننا تو تجھے پڑے گا۔ وہ جو تیری رشتے کی خالہ ہیں نا‘ان کے سوتیلے بیٹے نے تیرے لئے نکاح کا پیغام بھجوایا ہے۔بتانا منظور ہے یا نہیں۔“شازی نے بالاخر دھماکا کر ہی دیا تھا۔ساتویں سیڑھی پر رکھے اس کے قدم ہی نہیں۔ پوری سونیا باقر لرز کر رہ گئی تھی۔
”کیا۔“ اس کی دل کی دھڑکنوں نے اودھم مچا ڈالا۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi