ویک اینڈ پر وہ گھر گیا تھا اور اس نے ممی‘ پاپا سے بات بھی کی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ممی پاپا نے ماننا نہیں ہے مگر وہ پھر بھی کافی دیر تک ان سے بحث کرتا رہا تھا جھگڑتا رہا تھا۔
جنرل جہاں زیب جانتے تھے کہ شاہ میر بے حد جذباتی ہے۔ اس دور میں عموماً لڑکے جذباتی ہوتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اس کے مسئلے پر اتنا غور نہیں کیا تھا جبکہ شیما کافی پریشان تھیں۔
انہیں شاہ میر کے مزاج کا پتا تھا کہ وہ کس قدر ضدی‘ جذباتی اور جنونی ہے۔ جس کام سے اسے روکا جائے وہ ضد میں آکر وہی کرتا تھا۔ رات کو وہ ایک دفعہ پھر ماں سے الجھ پڑا تھا۔ اب شیما کو بھی غصہ آ گیا تھا۔
”کیا ہے اس معمول لڑکی میں جس کی خاطر تم ماں باپ سے جھگڑ رہے ہو؟“
”وہ معمول لڑکی نہیں ہے۔“ اس نے ناگواری سے کہا۔
(جاری ہے)
”بتاؤ پھر کیا ہے اس کے پاس۔
کس فیملی سے تعلق ہے اس کا۔ کیا کرتا ہے اس کا باپ۔ کتنی زمینیں ہیں‘ کتنی فیکٹریز ہیں‘ کتنا بینک بیلنس ہے؟“
”اس کے پاس یہ سب نہیں ہے مگر اسے معمولی مت کہیں۔“
”یو آر آل ریڈی انگیجڈ شاہ میر! تم رشتوں کو کیا سمجھتے ہو‘ ہزاروں لوگوں کے سامنے تم نے ماہا کو انگیجمنٹ رنگ پہنائی ہے اور ماہا کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔ تمہارے پاپا کے بیسٹ فرینڈ کی بیٹی ہے اور تم جانتے ہو کہ…“
”جسٹس شرجیل کے ہم پر بہت احسان ہیں۔
“ اس نے ترشی سے شیما کی بات کاٹی۔ شیما کا چہرہ یک لخت سرخ ہو گیا تھا۔
”بہت ہو گیا‘ اب اس پاگل پن کو ختم کرو۔ تم بچے نہیں ہو اور نہ ہی اتنے کم فہم ہو کہ ہر بات تمہیں سمجھانی پڑے۔ دس منٹ میں فریش ہو کر نیچے آؤ۔ میں کھانا لگواتی ہیں۔“
”آپ نے میرا پاگل پن دیکھا ہی کب ہے ممی ڈیر!“ شیما کے جانے کے بعد اس نے تلخی سے سوچا۔
صبح ہوتے ہی اس نے جسٹس شرجیل کو فون کیا۔
وہ باتھ لے رہے تھے۔ ملازمہ نے اسے ہولڈ کرنے کو کہا۔ کچھ دیر بعد دوسری طرف شرجیل کی آواز سنائی دی۔
”شہزادہ عالم کو کیسے ہماری یاد آ گئی؟“
”انکل! میں نے آپ سے ایک بات پوچھنا ہے۔“ وہ بغیر سلام دعا کے سرعت سے بولا تھا۔ شرجیل نے قہقہہ لگایا۔
”کہو۔ میری جان! اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔“
”انکل! آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
“
”یہ کیسا سوال ہے؟“ شرجیل چونک سے گئے تھے۔
”میری بات کا جواب دیں۔“ وہ سختی سے بولا تھا۔
”اگر کوئی پیمانہ ہوتا تو پیمائش کر لیتے۔ شاید تمہارا باپ بھی تمہیں اتنا نہ چاہتا ہوگا جتنی محبت میں تم سے کرتا ہوں۔“ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
”بتائیں انکل! جو ہمیں بہت عزیز ہوں‘ ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے نا؟“ وہ ضدی لہجے میں گویا ہوا۔
”ہاں…“ شرجیل مختصر بولے۔
”تو پھر ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ پاپا کو مجھ سے محبت نہیں ہے۔ اب میں آپ کی محبت کو پرکھنا چاہتا ہوں۔“ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”ایک پہیلی بوجھتے ہیں۔ بازار میں ایک چیز ہے۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ آپ کا دل چاہتا ہے کہ اسے خرید لیں۔ والٹ میں پیسے بھی ہیں۔ کچھ اختیارات بھی ہیں۔ دل مجبور اور بے بس ہے تو پھر آپ کیا کریں گے۔
چھوڑ دیں گے اسے یا پھر خرید لیں گے؟“ اس کے لہجے میں نجانے کیا تھا جس نے شرجیل کی چھٹی حس کو الرٹ کر دیا تھا۔
”یہ تو چیز دیکھ کر بتایا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں کوئی عیب نہ ہو اور دیکھنے والی نگاہ اسے پہلی نظر میں اوکے کر دے تو پھر اسے خرید لینا چاہئے۔“ وہ شاطرانہ دماغ اور زرخیز سوچ رکھتے تھے۔
انہوں نے بڑے بڑے فیصلے کئے تھے۔
جائز و ناجائز ہر کام بڑی صفائی سے انجام دیا تھا۔ وہ لوگوں کے رویوں اور چہروں کو دیکھ کر اندر کا حال پڑھ لیتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ آدمی کی سوچ میں گھس جاتے ہیں۔ دماغ میں جھانک لیتے ہیں مگر شاہ میر کے متعلق ان کے اکثر اندازے غلط ہی ہوتے تھے۔
”اوکے انکل! آپ نے میرا مسئلہ حل کر دیا۔“ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے مگر شاہ میر نے کھٹاک سے فون رکھ دیا تھا۔
اب وہ اپنی پیکنگ کر رہا تھا۔ شاور لے کر اس نے لباس بدلا‘ جوگرز کسے‘ پرفیوم اسپرے کیا۔ اسی پل گوگی (ملازمہ) ممی کا پیغام لے کر آ گئی تھی۔
جب وہ ممی کے بیڈ روم میں آیا تو وہ اس کے انتظار میں ہی بیٹھی تھیں۔ سامنے رکھا میگزین ایک طرف رکھتے ہوئے وہ دلکشی سے مسکرائیں۔
”بہت ہینڈ سم لگ رہے ہو‘ اسی لئے تو شرجیل اور اس کی بیٹی تم پر فدا ہیں۔
“ شیما نے محبت سے اس کے شاندار سراپے کو دیکھ کر کہا۔
”ممی! بات یہ ہے کہ مجھے ان دونوں سے ہی چڑ ہونے لگی ہے۔ کم از کم ماہا کا ذکر میرے سامنے نہ کیا کریں۔“ وہ صاف گوئی سے بولا۔ شیما کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
”جتنا مرضی چڑ لو‘ شادی تو آخر اسی سے ہی ہونی ہے۔“
”ایک بات تو طے ہے کہ مجھے ماہا سے شادی کسی بھی صورت میں نہیں کرنی جس کے اتنے بوائے فرینڈز ہوں‘ وہ میری بیوی کبھی بھی نہیں بن سکتی۔
“ وہ کٹیلے لہجے میں گویا ہوا تھا۔ شیما کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”ماہا کوئی گری پڑی لڑکی نہیں ہے۔ جسٹس شرجیل کی بیٹی گری پڑی ہو بھی نہیں سکتی۔“ شیما نے بمشکل اپنے لہجے کی تندی پر قابو پایا۔ شاہ میر نے غصے سے ماں کی طرف دیکھا تھا۔
”وہ ریٹائرڈ بڈھا اب پاپا کے کسی کام کا نہیں ہے۔“
”ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔
“ شیما نے ایک دفعہ پھر لہجے میں شیرینی بھری تھی۔
”جو بھی ہو‘ میرا فیصلہ اٹل ہے۔ پاپا کو بھی بتا دیجئے۔“ وہ شانے جھٹکتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”مجھے شفق جیسی لڑکی کا ساتھ چاہئے جس کا ظاہر اور باطن صاف پاک ہے جس کی نگاہ میں حیاء ہے اور جس کی زندگی میں پہلے کوئی مرد نہیں رہا۔“ وہ مضبوط لہجے میں کہتا باہر نکل گیا تھا۔ جہاں زیب نے بے حد حیرانی سے اس کی پشت کو دیکھا۔ ان کی پیشانی پر سلوٹیں نمودار ہو گئی تھیں۔
######