Episode 7 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 7 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”امی جان نے فون کیا تھا جبکہ تم نے مجھے بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وجہ پوچھ سکتا ہوں۔ محترمہ اذکی صاحبہ آپ سے۔“
کھیر بناتے ہوئے اذکی کے ہاتھ سے کفگیر گر پڑا۔ حیدر آفس سے اٹھ کر آیا تھا۔ اس کی گاڑی کو بے وقت گیراج میں دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ پردے کی اوٹ میں اس نے حیدر کے سرخ چہرے اور بھینچے ہوئے لبوں کو دیکھا تھا۔
اس کے سیڑھیاں چڑھنے اور کچن تک آنے میں صرف تین منٹ لگے تھے جب کہ اذکی پر ایک ایک پل بھاری ہو گیا تھا وہ جان گئی تھی کہ اس سے انجانے میں غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اس کی سزا بے حد کڑی ہو گی۔
”وہ میں۔ کل آپ کو بتانا چاہ رہی تھی۔“ وہ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ تمہارے لفظوں کے تیروں نے مجھے لہولہان کر دیا تھا۔ کچھ بھی محفوظ نہیں رہا تھا نہ دل نہ دماغ۔

(جاری ہے)

سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو گئی تھیں اس پل۔
”تم شروع سے ہی خار کھاتی ہو ان سے۔ امی نے فون کیا تھا کہ ساحرہ کی طبیعت خراب ہے مگر تم نے جان بوجھ کر نہیں بتایا۔“ وہ دہاڑ رہا تھا جب کہ اذکی اس نئے الزام پر تڑپ کر رہ گئی۔
”یہ۔ جھوٹ ہے۔“ وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔
”کیا مطلب امی نے فون نہیں کیا تھا۔“ اس کی تیوریاں چڑھ گئیں۔
اذکی نے اس کے لہجے کے اتار چڑھاؤ اور تنفس کی تیزی کو ملاحظہ کیا۔ وہ بے حد اشتعال میں تھا۔ ساحرہ کا معاملہ ہو اور حیدر کو غصہ نہ آئے۔ وہ ساری دنیا سے لاپروا ہو سکتا تھا مگر ساحرہ سے نہیں۔ نجانے کون سی کشش تھی اس عورت میں یا پھر کوئی اسم پڑھ کر پھونک رکھا تھا ساحرہ نے حیدر پر۔
”تائی جی نے فون کیا تھا مگر…“ وہ منمنائی۔
”شٹ اپ… فضول صفائیاں دے کر وقت برباد نہ کرو میرا… ابھی مجھے ساحرہ کو ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر جانا ہے اور ہاں آج میں تمہیں معاف کر رہا ہوں آئندہ ایسی لاپروائی نہ کرنا۔
“ اذکی کی بات سنے بغیر اس پر احسان کرتا ہوا دروازہ دھماکے سے بند کرکے سیڑھیاں اتر گیا تھا وہ  دیا ”پاپا پاپا‘ کرتی اس کے پیچھے لپکی تھی جب کہ اس نے دیا کی آواز سن کر بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ بند دروازے کو ننھے منے ہاتھوں سے بجاتے ہوئے وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ اس نے برنر بند کرکے دیا کو اٹھایا اور ساتھ لگا کر تھپکنے لگی۔
موسم چند دنوں سے بے حد خراب تھا اچانک ہی مشرقی جانب سے تیز بگولا اٹھا جس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے یا۔
تیز آندھی کے ساتھ بادلوں کی گرج چمک دلوں کو سہما رہی تھی۔ رات کے دس بجے تھے۔ اذکی کھڑکیاں دروازے اچھی طرح بند کرکے بچوں کو لئے بیڈ روم میں آ گئی۔ بچے بے حد خوفزدہ تھے اس نے دونوں کو کمبل اوڑھا کر فون اٹھایا اور نمبر ملانے لگی۔ حیدر نے کال ریسیو کی تھی۔ اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول اٹھا۔
”آج میں نہیں آؤں گا…“ اذکی اس کی لاپروائی پر چیخ کر رہ گئی۔
دونوں بچوں کی طرف دیکھ کر اس نے آہستگی سے کہا۔
”حیدر! بچے بے حد خوفزدہ ہیں اور پھر آپ جانتے ہیں کہ میں اکیلی نہیں رہ سکتی۔“
”میں تم لوگوں کے ساتھ چپک کر بیٹھ جاؤں۔ بہت شوق تھا تمہیں الگ رہنے کا اب بھگتو خود ہی۔“ جواباً وہ دھیمے لہجے میں طنزیہ بولا۔ اذکی جان گئی تھی کہ کچھ کہنا سننا بے کار ہے۔ فون رکھ کر وہ بیڈ پر ڈھے گئی۔
دیا کھسکتے ہوئے اس کے قریب آ گئی تھی۔
”مما! ڈل (ڈر) لگ رہا ہے؟“ اپنے منے سے ہاتھ کو اس کے گال پر پھیرتے ہوئے وہ معصومیت سے بولی۔ اذکی نے بے خیالی میں سر ہلایا۔
”مجھے بھی ڈل (ڈر) لگ رہا ہے اور بھائی کو بھی۔“
”اچھے بچے ڈرتے نہیں ہیں۔ آپ تو بہت بہادر ہو۔“ اس نے کچھ چونک کر دیا اور پھر زید کو دیکھا۔ آدھی بند ہوتی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں واضح نظر آ رہی تھیں۔
اذکی نے ہاتھ بڑھا کر زید کو بھی قریب کر لیا۔ دونوں بچے اس کے دائیں بائیں تھے۔ اس نے خود کو بہت محفوظ تصور کیا۔ تھوڑی دیر پہلے والی بے سکونی اور تکلیف کا اثر زائل ہو گیا تھا۔
”مما! پاپا نہیں آئیں گے۔“ زید نے اس کے بازو میں سر گھسایا۔
”نہیں  باہل (باہر) بالش (بارش) ہے پپا بھیگ جائیں گے۔“ دیا بڑے پن سے بولی۔ ساتھ میں ماں سے تائید بھی چاہی۔
اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”پاپا امبریلا لے کر آ جائیں گے  دادو پاس ہوگی امبریلا۔“ زید نے سر اٹھا کر دیا کو دیکھا۔
”اچھا۔ پاپا آ جائیں گے۔“ وہ خوش ہو کر چہکی۔ ”بٹر فلائی والی امبریلا لے کر  ہیں مما جی…“ دیا نے اس کا بازو ہلایا۔ اس نے کچھ جھنجلا کر دیا کو تھپکا۔ ”چلو اب کلمہ پڑھو اور سو جاؤ۔“
”میں پاپا سے کلمہ پڑھوں گی۔“ دیا سرعت سے بولی۔
”میں بھی…“ زید نے ایک دفعہ پھر سر اٹھا کر کہا۔ اذکی نے دونوں کو ہلکی سی چپت لگا کر ڈانٹا اور پھر کلمہ سننے لگی۔ دونوں ماں کا موڈ دیکھ کر شرافت سے کلمہ سنانے لگے تھے۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi