”تو پھر تم آ ہی گئی ہو۔“ اپنے گھنے سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیرتا وہ دھیمے سے مسکرایا تھا۔
”نہیں آنا چاہئے تھا مگر پھر بھی آ گئی ہوں۔“اس نے خفگی سے کہا۔
”ارے تم تو خفا ہو گئی ہو۔ میں تو بس مذاق کر رہا تھا“ وہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔ شفق اسے مسلسل مسکراتا دیکھ کر چڑ سی گئی۔
”یوں کیوں ہنس رہے ہو‘ میرے چہرے پر لطیفہ لکھا ہے کیا؟“
”چہروں پر لطیفے بھی لکھے جاتے ہیں۔
مجھے آج پتا چلا ہے۔“ اب کے اس نے قہقہہ لگایا تھا۔ شفق روہانسی ہو گئی تھی۔
”تم نے مجھے اس لئے بلایا ہے کہ میرا مذاق اڑاؤ۔“ شفق کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
”ایک تو تم مڈل کلاس کی لڑکیاں روتی بہت ہو۔“ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا۔ اس کی آواز اتنی اونچی ضرور تھی کہ شفق کے گال تپ اٹھے۔
(جاری ہے)
آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں۔
”اس لئے کہ تم اپر کلاس کے لڑکے ہمیں رلاتے بہت ہو‘ پاگل ہوتی ہیں ہم جو تم جیسوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔
“ وہ آگ بگولا ہو کر چلائی تھی اور پھر غصے سے پلٹنے لگی۔
شاہ میر کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ آج سے پہلے اسے اپنی صاف گوئی پر کبھی بھی اتنا غصہ نہیں آیا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکتے ہوئے نرمی سے بولا۔
”تم غصے میں اور بھی خوبصورت لگتی ہو شفق! میں تو دیکھنا چاہ رہا تھا کہ تم میں کتنا غصہ ہے اگر میں براہ راست اظہار محبت کروں تو تم مجھے مارو گی تو نہیں اب تمہارے تاثرات دیکھ کر مجھے اپنا ارادہ بدلنا پڑا ہے۔
تم میں بہت غصہ ہے اور مجھے اپنی عزت عزیز ہے اور…“ وہ اسے بے تحاشا روتے دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔
”دیکھو شفق! تم مجھے معاف کر دو‘ مجھے گالیاں دے لو‘ غصہ کر لو مگر یوں خفا مت ہو۔“ زندگی میں پہلی مرتبہ شاہ میر کسی کی یوں منتیں کر رہا تھا۔ شفق نے آنسو پونچھ کر دور سے آتے رکشے کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
”تم اس رکشے والے کو مجھ پر فوقیت دے رہی ہو۔
“ شاہ میر کا دماغ بھی تپ اٹھا۔
”یوں تماشا مت بناؤ۔“ وہ دبے دبے لہجے میں غرایا تھا۔
”آئیں جی۔“ رکشہ والے نے سر باہر نکال کر کہا تھا۔ شاہ میر نے اک غصیلی نگاہ ڈال کر اسے جانے کا اشارہ کیا۔
”بادشاہو روکا کیوں تھا۔“ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا نو دو گیارہ ہو گیا۔
شاہ میر نے بغیر کچھ کہے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچنا شروع کیا۔
اس وقت سڑک سنسان تھی۔ اکا دکا گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ شاہ میر نے فرنٹ ڈور کول کر اسے گاڑی میں دھکیلا اور خود دوسری طرف آکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
”نہیں جا رہی میں تمہارے ساتھ۔“ شفق چلائی تھی۔
”مزید ایک لفظ بھی مت بولنا‘ خاموشی سے بیٹھی رہو۔ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں۔“ وہ بھی گرجا تھا۔
پھر سارے راستے خاموشی چھائی رہی۔
شفق کی سسکیاں اسے ڈسٹرب کر رہی تھیں تاہم وہ بولا کچھ نہیں۔ شفق کے گھر سے کچھ دور اس نے گاڑی روک دی۔ وہ بغیر کچھ کہے خاموشی سے اتر گئی تھی۔ شاہ میر بھی سلگتا ہوا چلا گیا تھا۔
رات تک وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اب کبھی بھی اس بددماغ لڑکی سے رابطہ نہیں کرنا۔ مگر وہ صرف تین دن ہی خود کو روک سکا تھا۔ چوتھے دن وہ ایک دفعہ پھر اس کا نمبر ملا رہا تھا۔
بیل مسلسل جا رہی تھی مگر کوئی رسپانس نہیں مل رہا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر نمبر ڈائل کیا مگر جواب ندارد۔
”فون سن بھی لو شفق!“ تیسری بیل پر کسی کرخت سے لہجے والی خاتون نے فون اٹھایا تھا۔ شاہ میر نے غصے سے فون پٹخ دیا۔
وہ ٹاول اٹھا کر واش روم کی طرف بڑھنے لگا تھا جب فون کی گھنٹی گنگنا اٹھی۔ وہ سرعت سے فون کی طرف بڑھا۔ دوسری طرف اشعر تھا۔
شاہ میر نے طویل سانس خارج کی۔
”کہاں ہو تم؟“
”تمہارے دل کے پاس۔ تمہارے سپنوں میں‘ خیالوں میں‘ خوابوں میں اور…“ وہ روانی سے بول رہا تھا جب اشعر نے گھبرا کر اسے روک دیا۔
”اوہ میرے بھائی! بس کر‘ میں ملیحہ نہیں ہوں۔ تمہارے رومانٹک ڈائیلاگز کی تاب نہیں لاسکوں گا میں۔ میرے حال پر رحم کر۔“ اشعر کے گڑگڑانے پر شاہ میر نے قہقہہ لگایا تھا۔
”اتنے دن ہو گئے ہیں تم کلب نہیں آتے۔ ملیحہ نے تو میرا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بڑی اداس ہو رہی ہے دیدار کروا دو اسے اپنا۔“
”بھاڑ میں جائے ملیحہ‘ میں کیا کروں اس پاگل کا۔“ شاہ میر نے کڑوے لہجے میں کہا تھا۔
”یہ میرے کان کیا سن رہے ہیں؟“ اشعر قدرے حیران ہوا۔
”ٹھیک ہی سن رہے ہیں‘ زیادہ ایکٹنگ نہ کرو اور ہاں اس ملیحہ سے جان چھڑوا دو میری۔
“ وہ لاپروائی سے کہہ رہا تھا۔
”بس چھٹی ملیحہ بیگم کی۔“ اشعر نے قہقہہ لگایا۔ اب وہ شہ میر کو کسی نئے ”پیس“ کے متعلق بتا رہا تھا۔ وہ بے خیالی میں سنتا گیا۔
اگلے چند ہفتے اس کے بہت مصروف گزرے تھے مگر باوجود مصروفیت کے وہ شفق کو اپنے ذہن سے نہیں نکال پایا تھا۔
اس نے ایک مرتبہ پھر اس سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کرنا شروع کر دی تھی‘ ایک دن اتفاقاً اس نے فون اٹھا لیا۔
”کیسی ہو ڈئیر؟“ شاہ میر کے لہجے میں ایسی تڑپ تھی‘ اتنی بے قراری تھی کہ شفق ٹھٹک سی گئی۔
”فون مت رکھنا‘ پہلے میری بات سن لو۔“ وہ ٹوٹے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”اتنے دنوں میں‘ میں نے جان لیا ہے کہ میں سچ مچ تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ تمہاری بے رخی ناراضی مجھے بہت تکلیف دیتی ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ تمہاری فیلنگز کیا ہیں۔
اگر تم مجھے چاہتی ہوتیں تو یوں تمام رابطے‘ تعلق نہ توڑ لیتی۔ خیرایک بات تو طے ہے۔ تم مجھے چاہو یا نہ چاہو۔ میں تم سے زندگی کی آخری سانس تک محبت کرتا رہوں گا۔ تم مجھے معاف کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو تو کل اسی جگہ پر مجھ سے ملنا‘ جہاں پہلی مرتبہ ہماری ملاقات ہوئی تھی‘ اوکے۔“ شاہ میر فون رکھ چکا جبکہ شفق ریسیور ہاتھ میں پکڑے ساکت سی کھڑی رہی۔
اس کی ماں اسے گم صم کھڑا دیکھ کر بلند آواز میں بولی تھی۔
”شافی! تیرے بابا کے آنے کا وقت ہو گیا ہے‘ جلدی سے ہنڈیا چڑھا لو۔“
”اچھا اماں!“ شفق نے گڑبڑا کر ریسیو کریڈل پر پٹخا ور تیزی سے کچن کی طرف بھاگی۔ وہ سبزی کاٹ رہی تھی جب خرم کی آواز آئی۔
”شفو“ شافی! کہاں ہو تم؟“
”کیا بات ہے‘ ادھر ہوں میں۔“ اس نے کھڑکی میں سے جھانکا۔
”دیکھو‘ میرا ٹیسٹ کتنا اچھا ہوا ہے۔“ خرم نے ایک پرچہ شفق کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
خرم اس کے پاس انگلش اور میتھ پڑھنے آتا تھا۔ کل اسی کا ٹیسٹ تھا جس کی وہ ساری رات بیٹھ کر تیاری کرتا رہا تھا۔ شفق بھی اس کے ساتھ جاگتی رہی تھی۔
”بابا آتے ہیں تو انہیں بھی دکھانا۔“
”سر نے آج میری بہت تعریف کی ہے۔کہہ رہے تھے کہ خرم! تم تو کمال کرنے لگے ہو۔ میں نے کہا کمال میرا نہیں میرے ٹیوٹر کا ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔ شفق بھی بے دلی سے مسکرا دی۔
”تم باہر بیٹھ کر پڑھو۔ میں ابھی آتی ہوں۔“ خرم کو بھیج کر وہ ایک دفعہ پھر گہری سوچوں میں گم ہو گئی تھی۔
######