Episode 43 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 43 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

ایک ہفتے بعد وہ دوبارہ سے ڈیوٹی پر جانا شروع ہو گئی تھی۔ اسی دوران جنرل (ر) جہاں زیب کا فون نہیں آیا تھا۔ اس دن وہ ہسپتال سے واپسی پر کرنل راحیل کے گھر چلی گئی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر بے حد حیران ہوئے تھے اور خوش بھی۔
”ہمارے غریب خانے کو کیسے رونق بخش دی ہے آج؟“ وہ خوش دلی سے مسکرائے تھے جبکہ شفق مسکرا بھی نہ سکی۔
انہوں نے چائے کے ساتھ ڈھیروں لوازمات بھی منگوائے تھے۔
شفق چائے کی پیالی پکڑ کر چند پل سوچتی رہی۔
”مجھے آپ سے ایک بات کرنا ہے۔“
”آپ ایک نہیں سو باتیں کر لیں۔“ انہوں نے کیک پیس اٹھاتے ہوئے نرمی سے کہا۔
”دراصل میں ریٹائر منٹ لینا چاہتی ہوں۔“
”واٹ!“ انہیں شاک لگا تھا۔ ہاتھ میں پکڑا کپ انہوں نے مزید پر رکھ دیا۔

(جاری ہے)

”اصل میں میں چاہتی ہوں کہ اپنے آبائی شہر چلی جاؤں۔
کم از کم کوئی ڈر‘ کوئی خدشہ تو نہ ہوگا۔ بچے بھی ڈسٹرب نہیں ہوں گے۔“
”ایک فون کال سے گھبرا کر آپ اپنا کیریئر تباہ کرنا چاہتی ہیں۔“ وہ نہایت افسوس سے بولے تھے۔
”اس نے آپ کو دھمکایا اور آپ خوف زدہ ہو گئیں۔ بہت حیرت ہو رہی ہے۔ مجھے آپ کے اس فیصلے کو سن کر۔ یعنی کہ حد ہی ہو گئی۔“
”آپ نہیں جانتے کہ ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔
وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پہلے مجھے یہ اطمینان تھا کہ چلو انہیں مجھ سے اور میرے بچوں سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ میرے بیٹوں سے کوئی تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔
مگر اب جبکہ وہ مجھے واضح دھمکی دے رہے ہیں تو مجھے اس سے بہتر کوئی حل نہیں لگا کہ میں…“
”فوراً سے پیشتر کسی کونے میں چھپ جاؤں۔ اگر وہ لوگ وہاں بھی پہنچ گئے تو پھر کہاں جائیں گی آپ؟“ کرنل راحیل کے کہنے پر وہ لب کاٹ کر خاموش ہو گئی۔
”خاتون! میں تو آپ کو اچھا خاصا سمجھ دار سمجھتا تھا مگر آپ تو ماشاء اللہ سے… اتنی بہادر اور باحوصلہ ہو کر اس مقام پر ایسی کمزوری دکھا رہی ہیں۔ آپ کو تو چاہئے تھا کہ ان کو منہ توڑ جواب دیتیں آپ نے انہیں…“
”صاحب! آپ کا فون ہے۔“ ملازم کے کہنے پر وہ اس سے معذرت کرتے فون سننے کیلئے چلے گئے تھے۔
اسی پل لاؤنج کا دروازہ کھلا تھا۔
وہ سامنے لگی خوبصورت سی پینٹنگ کو بغور دیکھ رہی تھی۔ قدرے رخ موڑ کر اس نے اندر آتی شخصیت کو دیکھا اور پھر جیسے زمان و مکاں بھول گئے۔ وقت کی سوئیاں گویا تھم چکی تھی۔ مقابل کے تاثرات بھی کم و بیش ایسے ہی تھے۔
شاہ میر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ راحیل کے گھر وہ پورے چودہ برس بعد اس چہرے کو دیکھے گا۔ جو کبھی بھی ایک پل کیلئے بھی اس کی نگاہوں کے سامنے سے ہٹا نہیں تھا۔
وہ ایک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔
شفق ایک دم اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور پھر تیزی سے اس کے قریب سے گزر کر اندرونی دروازہ عبور کر گئی۔ اس کا دماغ سنسنا رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے تھے۔ شاہ میر کے وجود میں بھی حرکت ہوئی تھی۔ وہ تقریباً بھاگتا ہوا اس کے پیچھے آیا تھا۔
”شافی! شفق!“ وہ اسے آوازیں دے رہا تھا۔ بلا رہا تھا۔
شفق نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔
شاہ میر تیزی سے اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ اس کی سانس پھول رہی تھی۔ چہرہ سرخ تھا اور ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
”شافی‘ تم کہاں چلی گئی تھیں۔ میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔“
شفق کے اندر آگ لگی ہوئی تھی۔ آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ وہ اس سے کلام تو کیا دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی اس کی طرف جبکہ وہ اس کے عین سامنے راستہ روکے کھڑا تھا۔
”ہٹو میرے راستے سے“ وہ بغیر اس کی طرف دیکھے غرائی تھی۔
”پہلے میری بات کا جواب دو‘ کہاں تھیں تم؟“ وہ بے قراری سے بول رہا تھا۔
”میں کہہ رہی ہوں کہ ہٹ جاؤ میرے سامنے سے۔ میں تمہاری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔“ شفق نے آگ بگولا ہو کر اسے دھکا دیا تھا۔ وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے اتنی کوشش کی تھی تم سے رابطہ کرنے کی۔
بچوں کو خرچا دینے کی مگر…“
”ذلیل! بے غیرت! کن بچوں کی بات کر رہے ہو۔ نہیں ہیں وہ تمہارے بچے‘ اپنی ناپاک زبان سے ان کا نام بھی مت لینا۔“ شفق کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ وہ بمشکل اپنے ٹوٹے بکھرے وجود کو سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکلی تھی۔
کرنل راحیل شفق کو نہ پاکر پریشانی کے عالم میں باہر نکلے تھے جب سرخ پتھروں کی روش پر کھڑے شاہ میر کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
”شاہ میر! تم اندر آؤ یہاں کیوں کھڑے ہو؟“ وہ بے خیالی میں چلتا ہوا ان کے ہمراہ لاؤنج میں آ گیا تھا۔
”یہ شفق‘ یہاں؟ میرا مطلب ہے۔“
گہرا اضطراب اس کی آنکھوں میں ہلکورے لے رہا تھا۔ لاشعوری طور پر وہ بار بار بیرونی گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کرنل راحیل کو کچھ غیر معمولی پن کا احساس ہوا اور پھر جیسے کلک کے ساتھ ان کے ذہن میں جھمکاکا ہوا تھا بہت سی غیر واضح چیزیں سامنے آ گئی تھیں۔
”شاہ میر تم اور شفق… اومائی گاڈ!“ وہ کسی گہرے دکھ اور صدمے کے زیر اثر بولے تھے۔ ان کے دل میں تنفر کی تیز لہر اٹھی تھی۔
”اس اتنے حسین چہرے کے پیچھے اتنی بدصورتیاں…“ ان کا ذہن اس حقیقت کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔
شاہ میر کے پاس گویا الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ گم صم سا بے اختیار اٹھا اور پھر تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا۔ کرنل راحیل اسے روک بھی نہیں پائے تھے۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi