Episode 10 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 10 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

جوش میں آکر اور کچھ گاڑی ڈرائیو کرنے کے شوق میں اس نے بابا کی بات مان تو لی تھی مگر جب اس ٹوٹے پھوٹے گندے سے محلے میں داخل ہوئے اور مسلسل جمپ لگنے کی وجہ سے اچھل کود شروع ہوئی تو وہ چند منٹوں میں بے زار ہو گیا۔
”بابا! یہ آپ کہاں چلے آئے ہیں۔“ اس نے منہ بتاتے ہوئے کوئی دسویں مرتبہ کہا تب جواباً عباس نے اس کا کندھا نرمی سے تھپتھپایا۔
”بس… وہ رہا سامنے گھر…“ سبز دروازے کے پاس گاڑی روک کر اس نے کوفت کے عالم میں اس ”گھر“ کو دیکھا جو کہیں سے بھی گھر نہیں لگ رہا تھا دڑبے کی طرح تنگ اور تاریک سا۔ پھر بابا کو ایک بے حد کمزور بوڑھے شخص سے گلے ملتے دیکھ کر اس کی کوفت دو چند ہو گئی۔ وہ بوڑھا بار بار کھانس رہا تھا۔ تخت پر بیٹھی ادھیڑ عمر عورت اپنے کھچڑی زدہ بالوں کو کھجاتے اٹھی اور گھڑے سے پانی نکال کر لے آئی۔

(جاری ہے)

پانی پی کر سانس قدرے بحال ہوئی تھی اس لاغر سے آدمی کی۔
”شاید بیمار ہے۔“ حیدر نے سوچا۔ اس چھوٹے سے مکان میں اتنے افراد کو دیکھ کر اسے بے تحاشا حیرت ہوئی۔ ڈھیروں کے حساب سے بچے  گھر گھر پھرتی خواتین۔ کچھ درمیانی عمر کے مرد ڈیوڑھی میں پڑے اونگھ رہے تھے۔
”یہ مہمان ہیں  رفیق کا پتا لینے آئے ہیں۔“ کھچڑی زدہ بالوں والی عورت نے اس کی حیرت کو دور کر دیا تھا۔
کچھ دیر بعد چند اور بوڑھی عورتیں چلی آئیں۔ ان کے پیچھے دھان پان سے وجود والی لڑکی بھی نمودار ہوئی۔ اس کے چہرے پر بوکھلاہٹ واضح تھی جبکہ ہاتھ میں پکڑی ٹرے بھی لرز رہی تھی۔ اس نے بدرنگ میز پر ٹرے رکھی۔ بابا نے اٹھ کر والہانہ انداز میں اسے لپٹا لیا تھا حیدر کو ایک دفعہ پھر جھٹکا لگا۔ وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بھرائے لہجے میں کچھ بڑبڑا رہے تھے۔
حیدر کو یہ سین ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ جب تک وہ لڑکی آنسو پونچھتے ہوئے چارپائی پر نہیں بیٹھی تھی وہ پہلو ہی بدلتا رہا۔ بابا اس کا ہاتھ پکڑے نجانے سرگوشی میں کیا کہہ رہے تھے۔ حیدر کو اب غصہ آنے لگا تھا۔
”ایک تو بابا بولتے ہی آہستہ ہیں۔“ کب سے ان کی سرگوشیاں برداشت کر رہا تھا۔ پتا نہیں کون سے ایسے راز و نیاز تھے جو ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔
”بابا! کب چلنا ہے۔“ اس نے بے زاری سے جما ہی لی۔ ایک تو نیند بے حد آ رہی تھی۔ شام کو اس کا میچ تھا اور ابھی اسے تین چار گھنٹے بھرپور نیند بھی لینا تھی مگر بابا اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ تنگ آکر اس نے ایک دفعہ پھر پکارا۔
”بابا! کس وقت جانا ہے۔“
”چلتے ہیں بیٹے تھوڑا صبر کرو اور…“ بابا کے اگلے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
چارپائی پر لیٹے شخص کو کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا۔ کھانستے کھانستے وہ بے حال ہو گیا۔ بابا نے اٹھ کر اس کا سینہ مسلنا شروع کیا۔ وہ آہستہ آہستہ بابا سے کچھ کہہ رہا تھا۔ حیدر نے دور سے اس کی آنکھوں میں ڈھیروں نمی کو تیرتے دیکھا۔ اسے کچھ افسوس ہوا تھا۔
”نہ جانے بے چارے کو کتنی تکلیف ہے۔“
بابا نے اس کا کمزور ہاتھ تھام کر شاید تسلی دی تھی وہ لمحوں میں ہی پرسکون ہو گیا۔
پاس بیٹھی عورت نے بھی بابا سے کچھ کہا تھا۔ بابا پر سوچ نظروں سے حیدر کو دیکھنے لگے پھر اٹھ کر چلے گئے اس نے بھی بابا کی پیروی کی تھی۔ کمرے میں ویسے بھی گھٹن اور حبس تھا۔ برآمدے میں آکر اس نے طویل سانس کھینچا مگر دوسرے ہی پل اس کا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔ بابا کیا کہہ رہے تھے۔ اس نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بابا کے مرجھائے چہرے کی طرف دیکھا۔
”میری بھتیجی ہے اذکی  تم نکاح کر لو اس سے بیٹا۔ شاید میرے مرے ہوئے بھائی کو سکون آ جائے۔ میں بھی کسی قدر لاپروا ہوں۔ ساری زندگی اس کی واحد نشانی کو پوچھا تک نہیں۔ اگر اب بھی پتا نہ چلتا تو میں بے خبری میں ہی مارا جاتا۔ قیامت میں کیسے منہ دکھاتا اپنے بھائی کو“ پھر بابا نہ جانے کیا کیا کہتے رہے۔ اسے تو بس یہاں سے نکلنے کی جلدی تھی۔
حیدر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بابا اسے بغیر نکاح کے جانے نہیں دیں گے۔ لہٰذا اس نے بغیر سوچے سمجھے اثبات میں سر ہلایا۔ عباس نے اسے سینے میں بھینچ کر پیشانی پر بوسہ دیا۔ ان کے بیٹے نے لاج رکھ لی تھی اس وقت ان کی  کچھ ہی دیر میں سب کو خبر ہو گئی۔ مامی جی افتاں و خیزاں کچن میں مصروف اذکی کے سر پر پہنچ گئیں۔ ان کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔ تیرہ چودہ سالہ اذکی نے حیرت سے مامی کے جھریوں زدہ چہرے کو دیکھا۔
وہ بہت مسرور لگ رہی تھیں۔
مولوی صاحب کی طرف چھوٹے کو بھیجا گیا۔ آدھے گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد مولوی صاحب کی شکل نظر آئی۔ کچھ ہی دیر میں نکاح کی کارروائی شروع ہوئی۔ مولوی جی نے ابھی دعا کیلئے ہاتھ بھی نہیں اٹھائے تھے کہ حیدر باپ کے کان میں منمنایا۔
”بابا! میرا میچ…“ وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مولوی صاحب نے آمین کہا اور حیدر نے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔
عباس اذکی کو بازو کے گھیرے میں لئے چلے آئے۔ وہ کانپتی لرزتی مامی کے گلے سے لگ کر خوب تڑپ تڑپ کر روئی۔ اس گھر سے نکل کر اسے خوابوں کے محل میں جانا تھا۔ اس کی سہیلیاں حیدر کو دیکھ کر اس کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں۔ لوگوں کے تبصرے بھی اس تک پہنچ رہے تھے۔
جس ماحول میں اس نے پرورش پائی تھی اور جس قسم کے حالات سے وہ گزر رہی تھی۔
ان سب نے اس کے شعور کو بے حد پختہ کر دیا تھا۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ سمجھ دار اور سنجیدہ تھی۔ کچھ مامی نے بھی کانوں میں بہت کچھ انڈیلا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ نکاح کا کیا مفہوم ہے۔ راحت ولا میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی آنکھوں نے کچھ خواب بن لئے تھے۔ مگر ان کی مسافت بے حد مختصر تھی۔ پل جھپکنے کے ساتھ ہی سب کچھ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ خوشنما خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔
ان کے پہنچنے سے پہلے ہی حیدر نے مختصر سا سارا واقعہ ماں کو من و عن کہہ سنایا تھا۔ اس کیلئے تو یہ ایک واقعہ ہی تھا۔ خود تو وہ کرکٹ کٹ پہن کر بیٹ گھماتا کلب چلا گیا تھا مگر اپنے پیچھے ایک طوفان چھوڑ گیا۔
راحت غم و غصہ کی تصویر بنی چادر میں لپٹی سہمی سی اذکی کو گھورے جا رہی تھیں۔
ان کے دل میں جو اوّل روز سے گرہ لگی تھی وہ آخر تک نہ کھل سکی۔
انہوں نے کبھی بھی اسے قبول نہیں کیا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی تذلیل کی  غربت کے طعنے دیئے۔ اس کی عزت نفس کو اپنے قدموں تلے روند کر نہ جانے کون سے جذبے کو تسکین پہنچاتی تھیں وہ اور رہا حیدر تو وہ شاید بھول چکا تھا کہ کسی اذکی نامی لڑکی کو اپنے ساتھ ایک بندھن میں باندھ کر لایا ہے۔ راحت کی طرح نائلہ  سنیہ اور ثمرہ کے انداز بھی خاصے روکھے قسم کے تھے البتہ سدرہ نہایت محبت سے ملی تھی اس سے۔
تایا جی کے علاوہ کوئی بھی کلام کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ سارا دن کمرے میں دبکی بیٹھی رہتی۔ زیادہ دل گھبراتا تو کچن میں گھس جاتی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے راحت کے دل کو جیت لے گی۔ انہیں خوش کرنے کیلئے آہستہ آہستہ اذکی نے بہت سی گھریلو ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھا لیں۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi