Episode 44 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 44 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”اس کمینے نے مجھے مخاطب کرنے جی جرأت کیسے کی؟“ شفق کا دماغ کھول رہا تھا۔ اس نے بلاوجہ ہی بچوں کو بھی ڈانٹا تھا۔ کچن میں آکر کتنے ہی برتن آج اس نے توڑے تھے۔ بچے بھی قدرے سہم سے گئے تھے۔
کھانا بھی اسی حالت میں جیسے تیسے پکایا۔ بچوں کو کھانا کھلا کر اور دودھ دے کر ہمیشہ کی طرح ان کے پاس بیٹھنے کے بجائے وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
نو بجے کرنل راحیل کا فون آ گیا تھا۔
”کیسی ہیں شفق آپ؟“ وہ سوچ سکتے تھے کہ شفق کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اسی لئے قدرے تاخیر سے فون کیا تھا۔ شفق اس دوران خود کو سنبھال چکی تھی اس لئے نارمل لہجے میں ان سے بات کرنے لگی تھی۔
”مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اب ان باتوں کا کیا مقصد ہے۔ کون سا نیا ڈرامہ کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ میرے ساتھ۔

(جاری ہے)

“ کرنل راحیل کی ہمدرد فطرت اور خلوص ہی تھا جو وہ اپنی ہر بات ان سے شیئر کرنے لگی تھی۔
”اگر اس نے بچوں کیلئے عدالت میں کیس کیا تو میں بھی اس کے خلاف اسٹینڈ لوں گی۔“ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”بچوں کے بالغ ہونے تک تو کوئی بھی عدالت آپ سے بچے نہیں چھین سکتی۔ اس کے بعد بچے خود فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے کس کے پاس رہنا ہے۔“
”بچے صرف اور صرف میرے ہیں۔
وہ میرے پاس رہیں گے‘ میرا انتخاب کریں گے۔ وہ ایسے باپ پر تھوکیں گے بھی نہیں۔“ اس نے بڑے دعوے کے ساتھ کہا تھا اور صرف چار دن بعد اس کا یہ دعویٰ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
جہاں زیب ایک دفعہ پھر جیت گیا تھا۔ شفق نے ایک مرتبہ پھر اس کے ہاتھوں بری طرح شکست کھائی تھی۔ اس شام ایک دفعہ پھر اس کے زخم زخم دل پر آندھیاں چل گئی تھیں۔ ایک دفعہ پھر وہ پورے قدرے کے ساتھ زمین پر گری تھی۔
ایک دفعہ پھر اس کے اندر صف ماتم بچھ گئی۔
بہت سال پہلے اس نے بڑی آس بھری نگاہوں سے شاہ میر کے چہرے کی طرف دیکھا تھا اور اسے شاہ میر کا چہرہ بدلا بدلا سا محسوس ہوا تھا۔ اب اس نے اپنے بچوں کے چہروں کو بالکل شاہ میر کے چہرے کی طرح بدلا بدلا پایا تھا۔ سرد‘ لاتعلق اور اجنبی چہرے۔
”آپ ہماری ماں نہیں ہیں۔ آپ تو ڈائن ہیں ڈائن‘ جس نے ہمیں ہمارے مم‘ پاپا سے جدا کر دیں۔
آخر کون سا جرم کیا تھا ہم نے۔ بتائیں بولیں۔“ وہ دونوں چلا چلا کر کہہ رہے تھے۔
”میں تمہاری ماں نہیں ہوں تو پھر کون ہے تمہاری ماں؟“ وہ خونخوار لہجے میں کہتی ہوئی آگے بڑھی تھی۔
”ماہا‘ امی!“
اس کے سر پر گویا آسمان آن گرا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے بیٹوں کو دیکھتی رہ گئی۔
”کیا کہا۔ ماہا!“ اس نے احد کے منہ پر تھپڑ دے مارا تھا۔
”ہاں ماہا ہے ہماری ماں۔ آپ تو ڈاکٹر تھیں۔ مسیحا تھیں پھر کیونکر آپ نے ہماری ماں کے ساتھ یہ ظلم کیا۔ کیوں ہمیں ان سے دور کر دیا۔ کس جذبے کی تسکین کرتی رہی ہیں آپ اب تک۔“ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ شفق کا دل بند ہونے لگا تھا۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے بیٹھتی چلی گئی۔
”نہیں مولا اب نہیں۔ اب نہیں جینا میرے اللہ بس اب آزاد کر دے زندگی کے اس بوجھ سے“
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi