وہ ساری رات سو نہیں سکی تھی‘ اس لئے آنکھ بھی دیر سے کھلی۔جب وہ اٹھی تو دن خوب چمک رہا تھا۔ سوجی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے تو کچھ جلن کم ہوئی۔ معاً اسے احد اور حدید کا خیال آیا۔ وہ سرعت سے ان کے بیڈ روم کی طرف بڑھی۔
دونوں کے بیڈ خالی تھے جبکہ کمرے کی حالت بھی بے حد ابتر تھی۔ بکھری ہوئی چیزیں سمیٹ کر اس نے کمرے کی حالت کچھ بہتر کی اور پھر کچن میں جھانکا۔
دودھ کے خالی گلاس اور ڈبل روٹی کے بچے کچھے ٹکڑے آملیٹ کی باقیات ٹیبل پر پڑی تھیں۔ اس کے لبوں پر مسکان اُبھر آئی۔
خود سے اٹھ کر ان دونوں سے پانی تک پیا نہیں جاتا تھا اور کجا کہ خود سے ناشتہ بنانا۔ وہ بے حد حیران تھی اور خوش بھی۔ ان دونوں نے صبح ہنگامہ بھی نہیں کیا تھا اس لئے تو وہ اتنی دیر تک سوتی رہی۔
(جاری ہے)
ورنہ ان دونوں کے شور شرابے کی وجہ سے اس کی آنکھ خود بخود کھل جاتی تھی۔
یعنی الارم لگانے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔
وہ بال سمیٹ کر اپنے لئے چائے بنانے لگی۔چائے کے ساتھ ٹیبلٹ لی تو پھوڑے کی طرح دکھتے سر کو کچھ آرام ملا۔ برتن سمیٹ کر اس نے ٹی وی لگا لیا تھا۔ وہ دانستہ کچھ بھی سوچنے سے گریز کر رہی تھی۔اسی پل ممانی بولتی ہوئی چلی آئی تھیں۔ ہاتھ میں اون کا گولا اور سوئیٹر تھا۔ شفق نے زبردستی مسکراہٹ لبوں پر سجائی۔
اس وقت وہ خاموشی اور تنہائی چاہتی تھی۔ مگر ممانی کی موجودگی میں یہ دونوں چیزیں اسے میسر نہیں آ سکتی تھیں۔
”اے شافی! آج تم ہسپتال نہیں گئی۔ خیر تو ہے‘ یہ آنکھیں کیوں لال ہو رہی ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری۔“ ممانی نے محبت سے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔
”ٹھیک ہوں ممانی!“ وہ بے دلی سے بولی۔
”خاک ٹھیک ہو۔ اے خرم بھی چلا گیا ورنہ وہی تمہیں دیکھ لیتا۔“ ممانی کے یونہی ہاتھ پاؤں پھولے رہتے تھے۔ ان کے ”وہ ہی تمہیں دیکھ لیتا۔“ کہنے پر وہ مسکرا دی تھی۔
”آپ کا بیٹا بہت قابل ہے۔“
”ہیں سچ!“ وہ کھل اٹھیں۔
”اب خرم آتا ہے تو کہتی ہوں اس سے کہ تمہیں دیکھ لے‘ کیسی رنگت ہو رہی ہے تمہاری۔ بڑی شفا ہے میرے خرم کے ہاتھ میں‘ بس شفق! تم اس کا خیال رکھنا ہے تو بڑا ہی ذہین مگر کچھ کھنڈرا اور لاپروا ہے۔
اللہ بخشے بھائی جی کو‘ بڑی خواہش تھی ان کی کہ تم دونوں کو ڈاکٹر بنانے کی۔ جب تم پیدا ہوئی تو رات کے بارہ بجے ہی فون کھڑکا دیا۔ بولے کہ مستقبل کی ڈاکٹر صاحبہ آئی ہیں اور پھر ساڑھے چار سال بعد صبح صادق کے وقت خرم نے بھی آنکھیں کھول لیں۔ رحیم نے بھائی جی کو فون کرکے خوشخبری سنائی اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لے آئے ہیں۔ جواباً بھائی جی نے کہا تھا کہ یہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کچھ لیٹ نہیں ہو گئے۔
چلو پھر بھی ٹھیک ہے اور ان دونوں کی کتنی خواہش تھی کہ تم دونوں کی شا…“
اس کے چہرے پر پھیلے تاثرات دیکھ کر وہ خاموش ہو گئی تھیں اور پھر اپنی خفت مٹانے کیلئے اسے سوئٹر کا نیا ڈیزائن دکھانے لگیں۔ اس نے بھی سر جھٹک کر خود کو لاپروا ظاہر کیا۔
”کتنے سوئٹر بنائیں گی خرم کیلئے۔“ ابھی سردی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا اور وہ کتنے ہی سوئٹر بنا کر اسے دکھا بھی چکی تھیں۔
خرم کیلئے کام کرتے وہ کبھی بھی نہیں تھکتی تھیں۔
”اس خبیث کیلئے تو نہیں بنا رہی اب‘ وہ تو اس قابل ہی نہیں کہ اس کی خاطر آنکھیں پھوڑوں۔ یہ تو احد اور حدید کیلئے ہیں۔ دیکھو تو رنگ اچھا ہے نا! پتا نہیں ان شیطانوں کو بھی پسند آتے ہیں کہ نہیں۔“ انہوں نے ادھ بنا سوئٹر بازو پہ پھیلا کر اسے دکھایا۔ شفق مسکرا دی۔
یقینا خرم نے ان کے اتنے پیار سے بنائے سوئٹرز میں نقص نکالے تھے۔
اسی لئے وہ اس سے کافی خفا دکھائی دے رہی تھیں۔
”ممانی! کیوں آپ اتنی محنت کرتی ہیں۔ سردی اسٹارٹ ہوتے ہی میں بازار سے لے آتی۔ بھلا اتنی مشقت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“ اس نے نرمی سے کہا تھا جبکہ ممانی مزید خفا ہو گئیں۔
”تو بھلا مشقت کیسی‘ وہ بھی یہی کہتا ہے۔ امی آپ کی نظر کمزور ہے کیوں اون سلائیوں میں ہر وقت لگی رہتی ہیں۔ بازار سے ریڈی میڈ لے آیئے گا۔
“ شفق ان کا موڈ خراب ہوتا دیکھ کر گرما گرما چائے بنا لائی۔ چائے پیتے ہوئے اچانک انہیں یاد آیا۔
”اے شافی! تمہیں بتانا یاد ہی نہیں رہا۔ ہماری کالونی میں جو مسز رضوی نہیں ہیں جن کے پوتے کے عقیقہ میں تم بھی گئی تھی۔ ان کی بیٹی کی پرسوں شادی تھی۔“ انہوں نے شادی کا ذکر اس طرح کیا تھا جیسے خدا نخواستہ وہاں وفات ہو گئی ہو۔ شفق نے بے خیالی میں سر ہلایا۔
”تم سے دو ڈھائی سال بڑی ہی ہوگی۔“ ان کے لہجے میں حسرت سی تھی جس نے شفق کو بے چین سا کر دیا تھا۔
”میاں کرنل ہے۔ کوئٹہ گئی ہے بیاہ کر…“ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھیں مگر احد اور حدید کو آتا دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔ وہ آتے ہی شفق سے لپٹ گئے۔
”رات کو آپ دیر سے کیوں آئی تھیں۔ آپ کے آنے تک میں سو بھی گیا تھا۔“ احد نے اس کے گال کو چومتے ہوئے شکوہ کیا۔
حدید کیوں پیچھے رہتا۔ بیگ کار پیٹ پر پھینک کر وہ بھی اس سے لپٹ گیا تھا۔
”رات کو کسی نے دودھ بھی نہیں دیا تھا۔ اسی لئے میں صبح بھی نہیں پی رہا تھا۔ وہ تو خرم…“
”شیطانوں! اِدھر اُدھر بھی دیکھ لیا کرو‘ ممانی جان آئی ہیں۔ پہلے انہیں سلام کرو۔“ وہ دونوں جھٹ اس سے الگ ہو کر ممانی سے چمٹ گئے۔
”میں بوڑھی ہڈیاں گھسیٹتی آ جاتی ہوں مگر تم دونوں کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ نانی کا حال ہی پوچھ آئیں۔
“ ممانی نے بھی شکوہ کر ڈالا تھا اور ان دونوں کو تو موقع ملنا چاہئے تھا شفق کے خلاف بولنے کا۔
”ان سے پوچھئے ذرا‘ یہی تو ہمیں جانے نہیں دیتیں کہیں بھی۔“ احد نے ہاتھ نچا کر کہا۔
”سنڈے کو میں آ رہا تھا آپ کی طرف مگر مما نے جانے ہی نہیں دیا۔“ حدید نے بھی مسکین سی شکل بنائی۔ شفق مسکراتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئی تھی۔