Episode 6 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 6 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

اذکی اگلی صبح دن چڑھے ہی آ گئی تھی۔ مامی جی نے تو بہت روکا تھا مگر وہ حیدر کی پریشانی کے خیال سے جلد آ گئی۔ کچھ بچے بھی وہاں مطمئن نہیں تھے۔ جواد بھائی کے شریر بچوں نے دونوں کو اچھا خاصا بے زار کر دیا تھا۔ لہٰذا وہ صبح ہوتے ہی نکل پڑی۔ جواد بھائی اسے چھوڑ گئے تھے۔ گھر کی الٹ پلٹ حالت اور سنک میں برتنوں کے ڈھیر کو دیکھ کر اسے رات مامی جی کی طرف رکنے پر بے حد افسوس ہوا۔
بچوں کو کھلونے دے کر اس نے کمر کس لی تھی۔ ابتداء کچن سے کی  برتن دھوئے  شلف اور کیبٹ وغیرہ صاف کئے  خوب رگڑ رگڑ کر فرش دھویا۔ لاؤنج میں  بکھرے کشن ترتیب سے رکھے۔ بیڈ روم میں آکر اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔ حیدر کے کپڑے  کتابیں وغیرہ کارپٹ پر بکھری ہوئی تھیں تولیہ ٹوائلٹ کے دروازے کے عین وسط میں پڑا نوحہ کناں تھا  کشن زمین بوس تھے  گندے چائے کے کپ اور دودھ کے گلاس میز پر اوندھے پڑے تھے۔

(جاری ہے)

بیڈ شیٹ لٹک رہی تھی۔
”کمال ہے حیدر نے ایک رات میں ہی اتنا ”کھلارا“ ڈال دیا ہے۔“ چیزیں سمیٹتے ہوئے وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔ تکیے درست کرتے ہوئے کوئی چیز اس کے ہاتھ سے ٹکرائی تھی۔ کئی لمحے وہ اسے ہاتھ میں پکڑے گھورتی رہی۔ اس کے دل کی رفتار یکدم ہی بڑھ گئی تھی۔ گولڈ کا دل والا لاکٹ اس کے ہاتھ میں لرز رہا تھا اور وہ جانتی تھی کہ یہ کس کا ہے۔
”تو کیا وہ یہاں آئی تھی۔“ اذکی کا تنفس تیز تیز چلنے لگا۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتی چلی گئی۔ آنکھوں میں اُمڈنے والی نمی کو بے دردی سے رگڑتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ اپنی ہستی کی نفی اور ناقدری پر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ تہی دامنی کا احساس کچوکے لگانے لگا۔
”مجھے کیا ملا ہے“ روتے روتے اس نے اچانک سر اٹھا کر دیکھا۔
اس کے دونوں بچے سہمے ہوئے دروازے کے ساتھ لگے کھڑے تھے۔ اذکی نے تڑپ کر انہیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔ دیا اور زید بھی اس کے ساتھ مل کر رو رہے تھے۔
”میرا سب کچھ تو یہی ہیں۔ میں خالی دامن کب ہوں  بھلا مجھ سے بڑھ کر بھی کوئی امیر ہے۔ میرے دوست میرے بچے ہیں۔“ دیا کی پیشانی چومتے ہوئے وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔
###


”آپ اسے یہاں لائے تھے؟“ رات کو حیدر نو بجے گھر آیا تھا۔
آتے ہی اس تفتیش پر چِڑ سا گیا۔
”میں جسے چاہوں اور جب چاہوں یہاں لے کر آؤں تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی… یہ میرا گھر ہے مجھ سے تعلق رکھنے والا ہر شخص یہاں آئے گا  چاہے وہ کوئی بھی ہو…“ حیدر نے ایک ایک لفظ چبا کر بولتے ہوئے اس کے سوجے پپوٹوں اور گلابی آنکھوں کو دیکھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے جب کہ چہرہ بے حد سرخ تھا۔
”میں اس گھر کے مالک کی بیوی ہوں  حق رکھتی ہوں پوچھنے کا…“ اذکی بھاری آواز میں بمشکل بولی۔
حلق میں گولا اٹکنے لگا تھا۔
”میرے خیال میں جو یہاں آئی تھی اس کے پاس بھی ایسا حق محفوظ ہے…“ حیدر کا اطمینان قابل دید تھا۔ اذکی کو اپنا آپ انگاروں سے جلتا محسوس ہوا۔
”یہ میرا گھر ہے  میں اس عورت کا سایہ بھی نہیں پڑنے دوں گی۔“
”اپنی زبان کو لگام دو…“ حیدر نے شدید طیش کے عالم میں اس کے رخسار پر تھپڑ دے مارا۔
”کبھی بھی ساحرہ کے متعلق کچھ مت کہنا۔
ورنہ میرے مزاج سے تم واقف ہی ہو…“ اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے اس نے گرج کر کہا تھا۔
”کیا کر لیں گے آپ  زیادہ سے زیادہ ماریں گے نا  جتنا چاہیں مار لیں لیکن میں ساحرہ کو یہاں آنے نہیں دوں گی…“ نجانے کہاں سے اتنی ہمت آ گئی تھی اس میں۔ حیدر کے ہاتھوں کی رفتار میں مزید تیزی آ گئی اس نے اذکی کو دھکا دے کر بیڈ پر پٹخ دیا۔
درد سے پھٹتے سر کو انگلیوں سے دباتے ہوئے وہ روئے جا رہی تھی۔ حیدر نے سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی  آخری غصیلی نگاہ اس کے تڑپتے وجود پر ڈالی اور باہر نکل گیا۔
دروازے کی چرچراہٹ سن کر وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی تھی۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔ آہستہ آہستہ حواس ٹھکانے آئے تو نئے سرے سے سب کچھ یاد آنے لگا۔ حیدر نے بیڈ روم کی لائٹ آن کرکے شرٹ اتاری  اذکی دیا اور زید کیلئے دودھ کی بوتلیں لینے چلی گئی۔
چار بجے وہ اٹھ جاتے تھے۔ حیدر کپڑے بدل کر آیا تو اذکی لیٹ چکی تھی۔ اس نے اپنا تکیہ اٹھایا اور پھر کارپٹ پر دراز ہو گیا۔
صبح وہ معمول کے مطابق شور مچاتے ہوئے تیار ہو رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بہت دن بعد اس نے ڈٹ کر ناشتہ بھی کیا اور پھر بچوں کو باہر لے جانے کا وعدہ کرکے آفس چلا گیا تھا۔ اذکی معمول کے کام نبٹا کر بچوں کو نہلانے لگی تھی۔
جب فون کو بیل گنگنا اٹھی۔ اس نے جلدی جلدی دیا کے اوپر پانی ڈال کر تولیہ لپیٹا اور فون اسٹینڈ کی طرف بڑھی۔ دوسری طرف راحت بیگم کی آواز سن کر وہ گڑبڑا گئی تھی۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ کبھی یہاں فون کریں گی۔ بڑا طنطنہ تھا ان میں۔ اس نے اسلام کیا تو انہوں نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بس حیدر کا پوچھ کر فون رکھ دیا تھا۔
وہ سوچتے ہوئے الجھن کا شکار ہو گئی۔
لنچ ٹائم میں حیدر کبھی نہیں آیا تھا۔ اس وقت اسے دروازے میں کھڑا دیکھ کر اذکی کو شدید حیرت ہوئی۔ وہ خوب لدا پھندا تھا شاید کل کے رویے کی تلافی کرنا چاہتا تھا۔ اذکی کو مختلف شاپرز پکڑا کر وہ بیڈ روم میں چلا گیا۔ اس نے پلیٹیں نکال کر ڈائننگ ٹیبل پر رکھیں۔ وہ دونوں بچوں کو اٹھا کر لے آیا تھا۔
”انہیں کیوں لائے ہیں  سونے دیتے…“ اذکی دیا کی بے زار صورت دیکھ کر بولی۔
ابھی اس کا سائرن بج جانا تھا۔
”یہ جو میں اتنا کچھ لایا ہوں  یہ کون کھائے گا…“ وہ زید کا منہ دھلواتے ہوئے بولا۔ اذکی بغیر کچھ کہے تولیہ لینے چلی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دونوں بچے کچی نیند میں اُٹھنے کے باوجود روئے نہیں تھے بلکہ خوب چہک رہے تھے۔
”پپا میں جھولے میں بیٹھوں گی۔“ وہ دونوں رات کی تفریح کے متعلق پلاننگ کر رہے تھے۔
اذکی کو ہنسی آ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ حیدر کے پاس وقت نہیں ہوگا اور پھر راحت ولا جا کر اسے واپسی کا خیال ذرا دیر سے ہی آتا ہے۔ کھانا کھا کر اس نے برتن سمیٹے جبکہ حیدر دونوں بچوں کو لے کر بیڈ روم میں چلا گیا تھا۔ کچن صاف کرکے جب وہ آئی تو دیا اس کے سینے پر سر رکھے سو چکی تھی۔ اذکی نے اسے اٹھانا چاہا تو حیدر نے روک دیا۔
”رہنے دو اسے  اور تم کہاں جا رہی ہو ادھر بیٹھو۔
“ حیدر نے کھسک کر اس کیلئے جگہ بنائی تھی وہ خاموشی سے دوسری طرف بیٹھ گئی۔
”خفا ہو…؟“ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ آہستگی سے بولا۔ اذکی نے بے حد شکایتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا جبکہ وہ اس کی سیاہ آنکھوں میں پھیلی سرخی اور اداسی کو دیکھ کر نگاہ چرا گیا۔
”کیا نہیں ہونا چاہئے؟“ اس سوال کا جواب حیدر کے پاس نہیں تھا وہ خاموش رہا یا پھر وہ مزید اس موضوع پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا تھا۔
اسے اذکی کے تیور بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔ پہلے بھی ان کے درمیان جھگڑا ہوتا تھا کبھی کبھار غصے میں اس کا ہاتھ بھی اُٹھ جاتا  لیکن اذکی نے کبھی بات کو طول نہیں دیا تھا وہ خود ہی اسے منا لیا کرتی تھی۔ راحت ولا میں رہنے والی دبوسی اذکی جو امی جان کی ذرا سی بات پر تھرتھر کانپنے لگتی تھی ،سے یکسر مختلف لگ رہی تھی اس وقت  بے حد پر اعتماد سی۔
”حیرت ہے راحت ولا سے یہاں تک اتنے مختصر سے عرصہ میں اذکی میں اتنی زیادہ تبدیلی آ گئی ہے اور مجھے علم ہی نہیں ہو سکا۔“ وہ بے حد حیرانگی سے سوچ رہا تھا۔ اذکی کو اس معنی خیز خاموشی سے الجھن ہونے لگی  وہ سنبھل کر اس کے پاس سے اٹھی تھی۔ تکیہ درست کرتے ہوئے اس نے حیدر کی آواز سنی۔
”تم یہ چاہ رہی ہو کہ میں ایکسکیوز کروں  اپنے رویے کی معافی طلب کروں تم سے۔
“ طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے وہ ایک پل کو رُکا۔
”اس بھول میں مت رہنا اذکی بیگم  تم کبھی بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکو گی جسے عرف عام میں دل کہتے ہیں۔ اس میں کوئی اور پورے کروفر سے جلوہ افروز ہے۔“ وہ استہزائیہ ہنسا۔ اذکی کی آنکھوں میں کرچیاں چبھنے لگیں۔ سینے میں کچھ بہت زور سے ٹوٹا تھا۔
”اس فلیٹ میں تمہیں لے آیا ہوں تو مالک نہ بن بیٹھو اور ہاں ایک غلط فہمی دور کر لو ابھی سے کہ ساحرہ جب چاہے یہاں آ سکتی ہے۔
آئندہ اس معاملے میں بحث مت کرنا مجھ سے“ وہ لفظوں کے تیر برسا کر کروٹ بدل چکا تھا۔ اذکی ایک پل میں ہی عرش سے فرش پر آگری تھی۔ تھوڑی دیر پہلے جو ہلکی سی پشیمانی حیدر کے لہجے سے ظاہر ہو رہی تھی وہ اس وقت مفقود ہو چکی تھی۔ اس نے دوبارہ بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ سات مہینے پہلے جب وہ اسے لے کر راحت ولا سے نکلا تھا تو پہلی مرتبہ اذکی کو قدموں کے نیچے زمین ہونے کا احساس ہوا تھا۔ سر پر چھت اگرچہ نہیں تھی مگر سائبان دینے والا ہم قدم تھا اور اس وقت وہ ایک دفعہ پھر کڑی دھوپ میں بھڑبھڑ جل رہی تھی۔ اس تپش نے اس کے دل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ ایک دفعہ پھر خلا میں معلق ہو گئی تھی۔
###

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi