Episode 28 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 28 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

اگلے دن وہ اپنے وعدے کے عین مطابق آ گئی تھی۔ شاہ میر فتح مندی کے احساس سے سرشار ہو گیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ اس کی شخصیت نظر انداز کئے جانے والی نہیں کوئی‘ لڑکی اس کے سحر سے بچ نہیں سکتی تھی۔ اس کے سرکل کی لڑکیاں چکور کی مانند اس کے گرد چکراتی تھیں۔ اس کی قربت کی خواہشمند رہتیں۔ یہ اور بات تھی کہ شاہ میر صرف خوبصورت چہروں کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔
جن دنوں وہ کیڈٹ کالج میں زیر تعلیم تھا ان ہی دنوں میں اس کے پاپا کے خلاف ہونے والی انکوائری نے ان کی راتوں کی نیندیں اڑا دی تھی۔ وہ ویک اینڈ پر گھر آیا۔ تو خلاف معمول سب کو خاموش خاموش پایا۔ گھر میں کافی ساری خواتین نظر آ رہی تھیں۔ سب ہی نے دوپٹے اوڑھ رکھے تھے اور سپارے پڑھ رہی تھیں حتیٰ کہ ممی بھی۔

(جاری ہے)

وہ قیاس کے گھوڑے دوڑانے لگا تھا۔

اسی پل ممی کی نگاہ اس پر پڑی۔”میرو! کب آئے ہو تم۔“ وہ اس کے قریب آتے ہوئے دبی آواز میں بولیں۔
”ابھی آیا ہوں‘ کوئی حادثہ ہو گیا ہے کیا؟” وہ اپنے تجسس کو چھپا نہیں پایا تھا۔ ممی چونکیں اور پھر گھور کر اسے دیکھا۔
”دماغ ٹھیک ہے تمہارا‘ کیا بک…“ شیما نے کچھ سوچ کر اسے ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر دیا اور پھر بازو سے پکڑ کر اسے برابر والے کمرے میں لے گئیں۔
”تمہارے پاپا کو ہیڈ آفس والوں نے بلایا ہے۔“ ممی کے لب و لہجے سے ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ ”طلبی“ کس سلسلے کی کڑی ہے۔ فطری طور پر وہ بھی پریشان ہو اٹھا۔
”یہ سب جنرل ثقلین نے کروایا ہے۔“ ممی دانت پیستے ہوئے غضب ناک ہوئیں۔
”اوہوں۔“ شاہ میر نے ہونٹ سیکڑے۔
ان دنوں شاہ میر کے خاندان میں بھی چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ بریگیڈیئر جہاں زیب کی وردی بس اترنے ہی والی ہے۔
مگر حیرت انگیز طور پر نہ صرف جہاں زیب کے خلاف ہونے والی انکوائری روک دی گئی۔ بلکہ تین سال بعد ان کی پروموشن بھی ہو گئی اور یہ صرف اور صرف ان کے لاڈلے بیٹے کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ ایک بڑے طوفان کی زد میں آنے سے بچ گئے تھے۔
”ہر پروفیشن میں بے ساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔“ جہاں زیب برملا اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
شاہ میر کو بہت زیادہ محنت کرنا نہیں پڑی تھی۔
اپنے باپ کو اس انکوائری سے ”بری“ کروانے کیلئے اس نے جنرل ثقلین کی اکلوتی بیٹی کے سامنے ”دانہ“ پھینکا تھا اور وہ اس دانے کو چگتی ہوئی اس کے قریب آ گئی۔
وہ پہلی لڑکی تھی جس کے ساتھ شاہ میر کا دل ”فلرٹ“ کرنے کو بھی نہیں چاہتا تھا۔ بے حد معمولی شکل و صورت کی نتاشا پر دوسری نظر ڈالنا بھی شاہ میر جیسے لڑکے کیلئے بہت مشکل کام تھا۔
وہ آکسفورڈ سے پڑھ کر آئی تھی۔ بے حد قابل اور بولڈ۔ اس کے باوجود وہ احساس کمتری کا شکار تھی۔
نتاشا کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرنا۔ اس کے ساتھ گھومنا پھرنا۔ اس کی تعریفیں کرنا بہت تکلیف دہ کام تھا جو وہ نہایت ہی دل جمعی سے کر رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے بہت سے کانٹے نتاشا کے دل سے نکال دیئے اور ایک بڑا سا کانٹا چبھو دیا۔ نتاشا کو اپنا اسیر کرکے وہ اس کی ”تڑپ“ کا مزہ لے رہا تھا۔
جیسا کہ نتاشا کا باپ اس کے باپ کو اذیت دے کر لطف اٹھا رہا تھا۔
اس نے نتاشا کے سامنے ایک چھوٹی سی شرط رکھی تھی۔ نتاشا‘ شاہ میر کی بات کیسے ٹال سکتی تھی اور جنرل ثقلین‘ بیٹی کی وجہ سے مجبور ہو گیا تھا۔
بہت سی بری عادتوں کے ساتھ شاہ میر نے اپنے باپ سے ایک اور بری عادت بھی وارثت میں لے لی تھی اور وہ تھی مطلب نکال کر مقابل کو پیروں تلے روند کر گزر جانا۔
نتاشا کے دل کے ساتھ جنرل ثقلین کے جذبات کو بھی اس نے کچل دیا تھا۔ ان دونوں خاندانوں میں اک سرد جنگ چھڑ چکی تھی۔ جس کا خاتمہ جہاں زیب کی ”جرنیلی“ کے بعد ہوا۔
پروموشن کے بعد انہوں نے جنرل ثقلین کو قبل از وقت ریٹائر منٹ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
باپ کی پروموشن کے بعد اس کی زندگی میں مزید آسانیاں ہو گئی تھیں۔ وہ باپ کے تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھاتا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی اس پر سختی نہیں کی تھی۔ اس لئے وہ مزید آزاد اور خود سر ہوتا چلا گیا تھا۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi