Episode 26 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 26 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

شرجیل انکل کا فون آیا تھا۔ اس نے سن کر بے دلی سے ریسیو کریڈل پر ڈال دیا۔ اس کا شرجیل انکل کی طرف جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر جب پاپا کا فون آیا اور انہوں نے اس کی خوب کھنچائی کی تو مجبوراً وہ ان کی طرف جانے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔ وہ پاپا سے صاف لفظوں میں انکار کر سکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا کیا نہیں۔ کیونکہ جسٹس شرجیل کی بیٹی اس کی منگیتر تھی اور وہ اس کے ہونے والے سسر۔

وہ تو اس بات پر ہی مسرور تھا کہ ماہا ہائیر اسٹڈیز کیلئے امریکہ میں مقیم تھی اور دو چار سال تک ماہا کا بھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ شاہ میر ان چند سالوں کو انجوائے کرنا چاہتا تھا۔
لنچ آورز میں جب وہ جسٹس شرجیل کے گھر گیا تو وہ میاں بیوی اس کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

بڑے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ چونکہ اس نے آفس جانا تھا لہٰذا ان دونوں نے اسے مزید اصرار کرکے روکا نہیں۔

وہ بھی جلد ہی جان چھٹ جانے پر دل ہی دل میں خوش ہوتا بڑے مگن انداز میں ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ جب بالکل اچانک ہی دائیں طرف سے ایک لڑکی بہت تیزی سے روڈ کراس کرنے کے چکر میں اس کی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی اگر وہ بروقت بریک نہ لگاتا تو یقینا وہ اس کی گاڑی کے نیچے آکر بری طرح کچلی جاتی۔
شاہ میر کا موڈ ایک دم ہی آف ہو گیا تھا۔ گاڑی سے اترنے کے بجائے شیشہ نیچے کرکے اس نے روڈ سے اٹھتی اس بڑے سے ٹینٹ نما دوپٹے میں لپٹی لڑکی کو دیکھا۔
وہ اپنا ماتھا سہلا رہی تھی۔ شاہ میر کی نظر اس کے زخمی پاؤں اور چھلے ہاتھ پر پڑی۔ چند ایک بوندیں ٹپک کر اس کے بے داغ یونیفارم پر رنگ چھوڑ گئی تھیں۔ اسے کچھ پشیمانی ہوئی۔ ایک دم ہی وہ دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔
”آپ کو چوٹ…“ اس کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی شاہ میر باقی الفاظ بھول گیا تھا۔
وہ کھلتے کنول اور سرخ گلاب کی طرح حسین تھی کہ شاہ میر ایک ٹک اس کے دلکش چہرے کی طرف دیکھے گیا۔
اس کی دل کی رفتار معمول سے بڑھ گئی تھی۔ کم و بیش ایسے ہی تاثرات اس لڑکی کے چہرے پر ابھرے تھے۔ اس لڑکی نے شاہ میر کی محویت کو محسوس کر لیا تھا اسی لئے سر سے سرکتے دوپٹے کو ماتھے پر کرکے وہ ایک دم مڑی تھی اور پھر لہرا سی گئی۔ شاہ میر نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا تھا اور نیچے جھک کر اس کی کتابیں اٹھائیں۔
”میں آپ کو ڈراپ کر دوں‘ میرا مطلب ہے کہ آپ سے چلا نہیں جا رہا۔
“ وہ اسے لنگڑاتے دیکھ کر نرمی سے بولا۔
ایسی آفر وہ ہر کسی کو نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی اس کی آفر ٹھکراتا تھا۔ وہ بغیر کچھ بولے اس کے ہاتھ سے کتابیں لے کر جانے لگی تھی جب وہ اس کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔
”آؤ میرے ساتھ۔“ وہ تحکم سے بولا جبکہ شفق اس کی آواز کے سحر میں ڈوب گئی تھی۔
وہ آرمی یونیفارم تھا۔ ایسا یونیفارم شفق کا باپ بھی پہنتا تھا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے شانوں پر اسٹارز جگمگا رہے تھے اور وہ میجر تھا جبکہ اس کا باپ معمولی سا کواٹر ماسٹر تھا۔ کواٹر ماسٹر بشیر احمد۔
وہ ایک ٹرانس کے عالم میں چلتی ہوئی اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ پہلی مرتبہ ایسی گاڑی میں کسی مرد کے ہمراہ بیٹھی تھی۔
وہ پہلا مرد تھا جس نے پہلی مرتبہ اس پر بہت بے باک نگاہیں ڈالی تھیں اور یہ پہلی غلطی تھی جو اس نے شاہ میر کی گاڑی پر بیٹھ کر کی اور دوسری غلطی اس سے محبت کرکے۔
######
ان دنوں اسے زرشی‘ فریحہ‘ ملیحہ سب بھول چکی تھیں اور وہ بہت سنجیدگی کے ساتھ شفق سے فلرٹ کرنے میں مصروف تھا۔ وہ جب جب شفق سے ملتا اس سے باتیں کرتا اس کی آتش شوق مزید بھڑکتی۔ وہ ملیحہ جیسی ماڈ نہیں تھی۔ زرش جیسی بولڈ اور فریحہ جیسی گفتگو کرنے کا فن اسے نہیں آیا تھا مگر پھر بھی اس میں ایسی کوئی کشش ضرور تھی جو شاہ میر کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی۔
حسین چہرے اسے بہت اٹریکٹ کرتے تھے۔ وہ خوبصورتی کا دلدادہ تھا۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایک چہرے کو دیکھ دیکھ کر اُکتا سا جاتا تھا مگر شفق میں نجانے کیا بات تھی کہ وہ چاہتے ہوئے بھی دامن نہ چھڑا پاتا اور ایک وقت ایسا بھی آیا تھا اور اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ سچ مچ شفق کو چاہنے لگا ہے۔
شاہ میر کے والد جنرل جہاں زیب اعلیٰ خاندانی حسب نسب رکھتے تھے۔
ان کا تعلق سید فیملی سے تھا۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں ان کی لاکھوں ایکڑ زمین تھی۔ وہ تین بھائی تھے اور تینوں ہی عادتوں‘ مزاج میں ایک دوسرے سے مختلف تھے اگر کوئی چیز ان میں مشرکہ پائی جاتی تھی تو وہ تھی پیسے کی ہوس۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب علم کا چراغ گھر گھر نہ جلتا تھا اور نہ ہی اتنی خوشحالی تھی کہ لوگ تعلیم جیسی فضول چیز پر پیسے خرچتے۔
لیکن پنجاب کے ایک گاؤں کے زمیندار سید بلند بخت کو ایک ہی شوق تھا ایک ہی لگن تھی کہ میرے تینوں بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور بڑے شہروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں۔ انہوں نے اس شوق کی خاطر بہت سی زمینیں بھی فروخت کی تھیں اور اپنے بچوں کو اس وقت کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کیلئے بھیجا اور اس مقام پر ان کے بیٹوں نے انہیں مایوس نہیں کیا تھا۔
سید بلند بخت درمیانے درجے کے پڑھے لکھے انسان تھے۔ ان کا چھوٹا بھائی فوج میں کپتان تھا۔ جب بھی گاؤں میں کوئی ان کے بھائی کا ذکر کرتا تو ان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا۔ وہ ایک فوجی کے بڑے بھائی تھے۔ یہ اعزاز ان کیلئے کسی میڈل سے کم نہیں تھا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi