Episode 9 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 9 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”آپ نے اچھا نہیں کیا عباس صاحب؟“ راحت نے دبیز قالین پر ٹہلتے ہوئے تیسری مرتبہ کہا تھا۔ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی عباس نے فائل سے سر اٹھا کر راحت کے سرخ و سفید چہرے پر غصے کی لالی کو بغور دیکھا اور دوبارہ سے سر جھکا دیا۔ وہ بڑی اہم فائل اسٹڈی کر رہے تھے ان کا ذہن راحت کے ادا کئے ان چار لفظوں میں الجھ کر رہ گیا۔ تنگ آکر انہوں نے فائل بند کی  عینک اتار کر ٹیبل پر رکھی اور اٹھ کر راحت بیگم کے قریب چلے گئے۔
ان کے کندھے پر ہاتھ کا ہلکا سا دباؤ ڈال کر انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ راحت لب بھینچے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
”کیا اچھا نہیں کیا میں نے  تشریح کرنا پسند فرمائیں گی آپ۔“ وہ نہایت ٹھنڈے مزاج کے مالک تھے۔ مگر اس لمحے شدید کوفت و جھنجلاہٹ نے گھیر لیا تھا انہیں۔

(جاری ہے)

راحت نے تیکھے چتونوں کے ساتھ گھورا۔

”سب کچھ کرکے معصوم بن رہے ہیں آپ۔
”حیدر میری اولاد ہے۔ بیٹا ہے میرا وہ۔ اگر میں نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو کون سا گناہ سرزد ہو گیا ہے مجھ سے۔ میں حق رکھتا ہوں اس پر۔“ انہوں نے بے حد ضبط سے اپنی شریک حیات کو سمجھانا چاہا تھا۔
”بات حق حقوق کی نہیں اصول کی ہے۔ میں نے شروع سے ہی چند اصول مقرر کئے تھے اور آپ بھی پابند ہیں۔ ان اصولوں کے۔ کیا ایک ماں کے جذبات مجروح نہیں ہوئے؟ اس کے ارمانوں کا گلا نہیں گھونٹا گیا؟ میرے وجود کی نفی نہیں کی گئی۔
غم و غصہ کی وجہ سے راحت کے ماتھے کی رگ مسلسل پھڑک رہی تھی۔ غصہ میں ان کا بی پی شوٹ کر جاتا تھا لہٰذا گھر میں سب ہی اس بات کا خصوصی خیال رکھتے تھے کہ کچھ بھی ان کی مرضی کے خلاف نہ ہو پائے۔
”آپ نے نائلہ کی شادی اپنی پسند سے کی  میں خاموش رہا۔ سنیہ اور ثمرہ کے متعلق آپ کے فیصلے کو اہمیت دی گئی۔ سدرہ کی منگنی بھی آپ نے اپنی مرضی سے کی۔
میں اس وقت بھی نہیں بولا۔ اگرچہ آپ کے فیصلے بہت بہترین تھے۔ اللہ کا شکر ہے میری بیٹیاں اپنے گھروں میں شاد آباد ہیں۔ اگر میں نے بیٹے کا رشتہ اپنی پسند سے کر لیا ہے تو آپ کو فراخ دلی کا ثبوت دینا چاہئے۔“ وہ رسان سے گویا ہوئے۔ راحت نے تنفر سے سر جھٹکا۔
”کون سا رشتہ  میں نہیں مانتی اس نام نہاد بندھن کو۔ یہ کاغذ کا ٹکڑا کیا ثابت کرتا ہے۔
کچھ بھی نہیں۔“ راحت نے خاکی لفافے کو میز پر اچھالا  عباس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ اذکی میرے بھتیجی ہے اور میرے اکلوتے بیٹے کی منکوحہ  آپ کے انکار کرنے سے نہ اس کی حیثیت بدل سکتی ہے اور نہ ہی اہمیت میں کوئی فرق آ سکتا ہے۔ راحت ولا کی وہ اکلوتی بہو ہے  سن رہی ہیں آپ۔“ عباس نے گویا کھلا چیلنج کیا تھا۔
مارے تحیر کے راحت کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ان کی ہر بات پر سر جھکانے والے نے اچانک پینترا بدلا تھا اور وہ بھی اس لڑکی کی خاطر،جس کی کوئی حیثیت سرے سے تھی ہی نہیں۔ وہ اس معمولی لڑکی کی خاطر اپنی بیوی سے جھگڑ رہے تھے۔ راحت کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا۔
”آپ کس انداز میں گفتگو کر رہے ہیں میرے ساتھ۔“ کئی لمحے خاموش رہنے کے بعد راحت نے تیز لہجے میں کہا۔
عباس بغیر کچھ کہے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے دانستہ راحت کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ دروازہ کھلا اور پھر بند ہوا۔ راحت کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ عباس نے زندگی میں پہلی مرتبہ ان سے بلند آواز میں بات کی تھی وہ بھی اس معمولی لڑکی کی وجہ سے۔ جسے وہ کل رات ہی گھر لائے تھے۔ راحت کے سر پر گویا آسمان آن گرا۔ ان کے دل میں چھپی شدید نفرت ابھر کر سامنے آ گئی تھی۔
عباس نے جانتے بوجھتے حیدر کا نکاح اس لڑکی کے ساتھ کرکے انہیں گویا سلگتی بھٹی میں جھونک دیا تھا۔ راحت نے چند سال پہلے ہی ان کے کان میں یہ بات انڈیلی تھی کہ وہ حیدر کیلئے لڑکی پسند کر چکی ہیں۔ اس کی تعلیم ختم ہونے کے بعد اگلا اقدام اٹھایا جائے گا۔ ساحرہ ان کی بھانجی تھی بے حد ذہین  خوبصورت اور چنچل سی  حیدر کو بھی وہ پسند تھی۔ دونوں کی بے تحاشا دوستی اور قلبی لگاؤ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کزنز بھی تھے۔ اسٹڈی کے علاوہ بھی خوب گپ شپ رہتی تھی۔
دونوں گھرانوں کی خواتین کے درمیان بات چیت تقریباً طے تھی۔ ساحرہ بھی جانتی تھی کہ عنقریب حیدر سے اس کا گہرا تعلق بننے والا ہے جبکہ حیدر کو بھی راحت نے اوّل روز سے ساحرہ کے متعلق بتا دیا تھا۔ ساحرہ خود بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے احساس دلا دیتی تھی۔
راحت نے ان دونوں کے حوالے سے بے حد خواب بن رکھے تھے۔ خاندان کی چند ایک تقاریب میں انہوں نے دبے دبے لفظوں میں اس ”رشتہ“ کا اظہار کر دیا تھا تاکہ لوگ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ مگر چند ہی لمحوں میں ان کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ وہ گویا پتھر کا بت بنی حیدر کی پشت کو گھورے جا رہی تھیں جو لاپروائی سے بیٹ لہراتا باہر نکل گیا تھا۔
چند دن پہلے عباس کے نام ایک رجسٹری آئی تھی۔ راحت کو اندازہ نہیں تھا کہ اس لفافے میں کیا چھپا ہے۔ جب عباس نے لفافہ وصول کرکے بے تابی سے کھولا اور اس کے اندر سے برآمد ہونے والی تحریر کو پڑھ کر وہ ساکت رہ گئے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ملازم کو گاڑی نکالنے کا اشارہ کیا۔ خود تیار ہو کر وہ تیزی سے پورچ کی طرف بڑھے۔ راحت کو مختصر لفظوں میں بتا کر انہوں نے بائیک نکالتے حیدر کو آواز دی۔
اس نے چیونگم چباتے ہوئے باپ کی جلد بازی کو نوٹ کیا۔ کھڑکی کے پاس آکر اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ بریف کیس کھولے کچھ تلاش کر رہے تھے۔
”بابا! کہاں جا رہے ہیں؟“ انہیں مطلوبہ چیز مل گئی تھی۔ بریف کیس کو بند کرکے انہوں نے پچھلی سیٹ پر رکھا پھر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف اشارہ کرکے بولے۔
”ذرا میرے ساتھ آؤ۔“ بائیک کی چابی اُس نے بشیر کی طرف اچھالی اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ بابا عموماً خود ڈرائیو کیا کرتے تھے۔ یہ گاڑی انہیں بے حد محبوب تھی۔ بہت حفاظت سے انہوں نے اسے رکھا ہوا تھا۔ بقول ان کے ”بڑی یادیں وابستہ ہیں اس سے“ وہ اکثر امی کے ساتھ مل کر ان کی کھٹارا“ کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi