Episode 45 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 45 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

بیس دن وہ ہوش و خرد سے بیگانہ رہی تھی۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ممانی‘ خرم اور کرنل راحیل ان دنوں میں اس کے ساتھ سائے کی طرح رہے تھے۔ ان تین چہروں کے علاوہ اسے وہ دو نظر نہیں آئے تھے جنہیں دیکھے بغیر اس کی سانس بند ہونے لگتی تھی۔
جن کے بغیر اسے لگتا تھا کہ شاید کہ وہ مر ہی جائے گی مگر وہ مری نہیں تھی۔ وہ زندہ تھی‘ سانس لے رہی تھی۔
بس زندگی اس کے اندر مر چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک مفقود تھی اور امید کا آخری دیا بھی بجھ گیا تھا اور پھر لوگوں نے میجر ڈاکٹر شفق احمد کو عین کیرئیر کے عروج میں استعفیٰ دیتے دیکھا۔
گھر اس نے خرم کے نام کر دیا تھا ان دونوں کی شدید ناراضی کے باوجود پھر اس نے خرم کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”سارے محرم رشتے مر گئے ہیں۔

(جاری ہے)

نہ باپ ہے نہ شوہر اور نہ بیٹے۔

ایک بھائی کا آسرا ہی تھا۔ جسے تم چھین رہے ہو۔ کیا شفق کی زندگی میں کوئی رشتہ باقی نہیں بچے گا؟“ خرم نے بے اختیار روتے ہوئے اسے ساتھ لگا لیا تھا۔
وہ عمرہ کرنے چلی گئی تھی‘ عمرہ ادا کرنے کے بعد سلگتا تڑپتا دل قدرے پرسکون ہو گیا تھا اور پھر خرم کی شادی کے بعد وہ اور بھی مطمئن ہو گئی تھی۔ وقت رینگ رینگ کر گزر رہا تھا مگر شفق کو لگتا تھا کہ جیسے صدیاں بیت گئی ہیں زمانے گزر گئے ہیں۔
”سنو شفق! زندگی میں بہت کم اتنے مخلص لوگ ملتے ہیں۔ کرنل راحیل بہت اچھے انسان ہیں۔ اگر تم…“ ایک دن خرم نے اس سے التجا کی تھی۔ شفق نے وحشت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے خاموش کروا دیا تھا۔
اسے ویران اجاڑ پھرتے دیکھ کر ممانی چپکے چپکے کتنے ہی آنسو بہا ڈالتی تھی۔ دل خون کے آنسو روتا تھا مگر سب خاموش تھے۔ وہ ان سے ہر موضوع پر بات کرتی تھی مگر ان کے جذبوں کی پذیرائی کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
کرنل راحیل اور خرم شطرنج کی بساط بچائے بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے کو ہرانے کے چکر میں وہ اکثر ہی شام سے رات کر دیتے تھے۔ شفق کچھ دیر ان کے پاس بیٹھی رہی تھی اور پھر عشاء کی نماز پڑھنے کیلئے اٹھ گئی۔
نماز کے بعد وہ معمول کے مطابق نوافل ادا کر رہی تھی جب فون کی بیل بجی اور پھر بجتی چلی گئی۔ اس نے سلام پھیر کر ریسیو اٹھایا۔ دوسری طرف احد تھا اس کا بیٹا۔
وہ رو رہا تھا اور اس سے ملنے کیلئے بے چین تھا۔ اس نے بغیر کچھ کہے فون رکھ دیا۔
اور ایک دفعہ پھر نفل پڑھنے کیلئے نیت باندھ لی۔
وہ ساری رات عبادت کرتی رہی تھی اور ساری رات فون بھی بجتا رہا۔ اس نے تہجد پڑھی‘ اپنے لئے دعا کی اپنے بچوں کیلئے دعا کی اور پھر فون اسٹینڈ کی طرف آئی۔ ابھی وہ کچھ بولنا چاہ ہی رہی تھی کہ دوسری طرف سے ایک گڑگڑاتی آواز سنائی دی۔
وہ پہچان نہیں سکی تھی کہ دوسری طرف کون ہے۔ اس نے بہت سوچنے کی کوشش کی مگر اس لکنت زدہ لہجے کو پہچان نہیں پائی تھی۔
”مم… فی… مانگ… تم سے… میں بہت… درد ہائے۔“
ٹوٹے لفظ‘ ٹوٹا لہجہ‘ شفق کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اس نے ریسیو مضبوطی سے پکڑا۔
اسی پل ریسیو کسی اور ہاتھ میں منتقل ہوا۔
”میڈم! میں ڈاکٹر عالیان بات کر رہا ہوں۔
جسٹس شرجیل میرے پیشنٹ ہیں اور ان کی حالت کافی نازک ہے اور یہ بار بار التجا کر رہے تھے کہ میں آپ سے ان کی بات کرواؤں۔ ان کی بیگم بڑی مشکل سے آپ کا نمبر لے کر آئی ہیں۔ دراصل چند دن پہلے ایک حادثے میں ان کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔ شدید ذہنی صدمے کی وجہ سے ان کی زبان اور دایاں حصہ متاثر ہوا ہے۔ پلیز آپ ان کی بات سن لیں۔“ ڈاکٹر عالیان نہایت شائستگی سے کہہ رہا تھا۔
ایک دفعہ پھر ریسیور اس کے کان سے لگا دیا گیا تھا۔ ان کی عجیب و غریب بھیانک آوازیں اس کی سماعتوں میں اتر رہی تھیں۔
”تو کیا ماہا مر گئی۔“ شفق نے ریسیو کریڈل پر رکھتے ہوئے آزردگی سے سوچا تھا۔
فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ جب خرم نے اس کے کمرے کا دروازہ پیٹ ڈالا۔ وہ تیزی سے اٹھ کر دروازے تک آئی۔ خرم یونیفارم میں تھا اور ابھی ابھی شاید ڈیوٹی سے آیا تھا۔
”کیا بات ہے خرم!“
”جنرل (ر) سید جہاں زیب پر دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گئے۔“
’کک۔ کیا کہہ رہے ہو تم؟“
”ابھی ابھی ان کی ڈیڈ باڈی گھر پہنچا کر آ رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے شاہ میر اور اس کی بیوی کا بھی ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کی بیوی تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی تھی جبکہ شاہ میر کو شدید چوٹیں آئی تھیں اور اب…“
ایک انسان ہونے کے ناتے ان انسانیت سے عاری لوگوں کی اس طرح کی حادثاتی اموات پر اسے شدید دکھ ہوا تھا۔
”اللہ بڑا باانصاف ہے۔“ خرم کہہ رہا تھا جبکہ شفق کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔
جہاں زیب کا تکبر‘ سیما کی نفرت و حقارت بھری نگاہیں اور جسٹس شرجیل کی وہ آخری فون کال جو کہ طلاق کے پیپرز ملنے کے تیسرے دن انہوں نے کی تھی۔ وہ ہنس رہے تھے قہقہے لگا رہے تھے اس کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے تھے۔ وہ خود کو داد دے رہے تھے۔ اپنی شاندار کامیابی پر مسرور تھے۔
دوسرے دن وہ قریبی میڈیکل اسٹور سے اپنی دوائی لے کر گھر واپس آئی تو سامنے صوفوں پر نڈھال بیٹھے اپنے بیٹوں کو دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
وہ دونوں اسے دیکھ کر تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے تھے۔ اس نے ان دونوں کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیا تھا۔
”میری جان‘ میرے بچے!“ وہ اپنی پیاسی ممتا کو سیراب کر رہی تھی۔ ممانی کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو قطرہ قطرہ گر رہے تھے۔ خرم بھی بھیگی پلکوں کے ساتھ اس ملاپ کو دیکھ رہا تھا۔
”اللہ نے میری دعائیں قبول کر لیں۔ اللہ نے میری شفق کی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔“ ممانی نفل پڑھنے کیلئے چل دی تھیں۔ شفق بھی کیوں اللہ کا شکر ادا کرنے میں دیر کرتی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi