Episode 58 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 58 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”اماں نے مجھے تیری رضا مندی لینے کیلئے بھیجا ہے۔“ وہ گاجر کترتی اس کے کان میں گھس کر چلائی تھی۔ سونی کپڑے دھو رہی تھی۔ مشین کا بزر بھی بجے جا رہا تھا۔
”میرا کان پھاڑنا ہے کیا۔“
”مشین کا کان مروڑ کر اسے تو چپ کراؤ۔“ شازی نے کاہلی سے موڑھا گھسیٹا ور بیٹھ گئی۔
”دیکھ نہیں رہی۔ میں کپڑے کھنگال رہی ہوں۔ تم ہی اس کا کان مروڑ دو۔
”سوری‘ میں جس کام کیلئے آئی ہوں‘بس وہ ہی کروں گی۔یہ کون سا معمولی کام ہے۔“ وہ سست الوجود تھی اور اس کی ساری سستی چچا کے گھر جا کر ہوا ہو گئی تھی۔
”کون سا کام؟“وہ مصروف سے انداز میں بولی۔
”تمہاری رضا مندی۔“
”تمہیں کیوں بتاؤں۔“آن کی آن میں ڈھیروں لاج برس پڑی تھی گویا۔ شازی کو زور کی کھانسی آئی۔

(جاری ہے)

”تیری رضا تو ان آنکھوں میں اترتے رنگوں نے اچھی طرح بتا دی ہے۔
“ اب وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
”میں نے سارا معاملہ پھوپھی جی پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں۔مجھے اعتراض نہیں ہوگا۔ ابا اور اماں کے بعد وہ ہی میری سرپرست ہیں۔ میرا سب کچھ ہیں۔“سونی حد درجہ سنجیدگی سے بولی۔
”ایسے رشتے ہمارے جیسے گھروں میں آئیں تو نیازیں بٹنے لگتی ہیں۔ اردگرد نظر دوڑاؤ تو‘ہر گھر میں تین‘چار لڑکیاں اچھے تو کیا معمولی سے معمولی بر کے انتظار میں سروں میں چاندی لئے بیٹھی ہیں۔
“شازی کے لہجے میں واضح دُکھ کی جھلک تھی۔ سونی بھی رنجیدہ ہو گئی یہ مسئلہ تو ان جیسے معمولی مڈل کلاس گھرانوں کا المیہ بنتا جا رہا تھا۔
”تو اماں کی طرح بالوں کو لال مہندی سے رنگتی کیوں نہیں۔ ایسے نیک مشورے تو ثواب کا کام ہیں۔ تم یہ بیڑہ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھالو آپا!“سائر کبوتر کو سینے سے لگائے قریب پڑی چارپائی پر ڈھے گیا تھا۔
”کمینے! کہاں گئے تھے صبح سے۔“شازی کو چھوٹے بھائی کی مداخلت ہمیشہ کی طرح زہر لگی۔
”بہت دفعہ سمجھایا ہے‘ بڑوں کے درمیان مت بولا کرو۔ مگر تمہاری عقل میں بات سماتی نہیں۔“
”کبوتروں کے پیچھے خوار ہو رہا تھا آپا!تم جانتی تو ہو‘ پھر بھی زخم ادھیڑنے سے باز نہیں آتی“سائر نے شاید کسی ڈرامے کا ڈائیلاگ جھاڑا تھا۔ آپا سخت اشتعال میں آ گئی۔
”کتاب کو ہاتھ مت لگانا۔ غلطی سے کہیں پاس ہی نہ ہو جاؤ۔“
”اس معاملے میں میرا سونی آپا کا نقش قدم پر چلنے کا ارادہ ہے۔“ سائر نے شان بے نیازی سے کہا۔
”سونی آپا کو تو بس چند دنوں کی مہمان ہی سمجھو۔“ شازی کا دھیان پھر سے بٹ گیا۔
”کسی ڈاکٹر نے بتایا ہے یا حکیم صاحب نے۔“سائر غم کی شدت سے دوہرا ہو گیا تھا۔
”بے عقل!میرا مطلب ہے‘سونی کو ڈولی میں بٹھانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔
تو ڈولی کا ڈنڈا پکڑنے کی تیاری کر۔“شازی نے سائر کا کندھا تھپتھپایا۔
”سچی آپا۔“ سائر الگنی پر کپڑے پھیلاتی سونی سے لپٹ گیا۔
”مچی چھٹکے۔“ شازی نے لقمہ دیا۔
”آپا! بہت یاد آؤ گی۔“سائر خوامخواہ جذباتی ہونے لگا۔ آٹھویں کا اسٹوڈنٹ تھا۔ مگر حرکتیں پانچویں کے بچوں جیسی۔سونی نے پیار سے اس کے ماتھے پر چپکے بال ہاتھ سے پیچھے ہٹائے۔
”تم بھی بہت یاد آؤ گے۔“
”پر تم جا کہاں رہی ہو۔“اس نے معصومیت سے پوچھا۔
”پیا کے دیس۔“جواب شازی کی طرف سے آیا۔
”ہائے سچی۔“وہ خوشی سے جھوما۔ ”یہ کون سا ملک ہے؟“
”ہیں۔“سونی اور شازی کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”میرا مذاق اڑا رہی ہو۔“سائر برامان گیا۔
”ہماری مجال۔“ ان دونوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”آپا! پردیس جا کر مجھے مت بھولنا۔“ وہ ٹھنک کر کہہ رہا تھا۔“ ٹافیاں اور چاکلیٹ بھجوانا۔ ہو سکے تو کپڑے اور جوتے بھی۔ دل چاہا تو ایک کرکٹ کٹ بھی بھیج دینا۔ اپنی خوشی سے جو مرضی لے آیا کرنا۔ کبھی منع نہیں کروں گا۔ تمہارا دل توڑنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ تصور بھی نہیں کر سکتا۔“
”بس کر میرے ویر!تیری آپا اٹلی یا فرانس نہیں جا رہی۔
“سونی نے اسے خوابوں کی دنیا سے کھینچ کر باہر نکالا۔
”تو پھر کہاں جا رہی ہو۔“سائر نے ہونق پن کی انتہا کر دی۔
”سونی پورہ جا رہی ہے۔یعنی شادی کے بعد اپنی اماں کے گھر۔“شازی کے انکشاف نے سائر کو بدمزہ کر دیا تھا۔
”سونی پورہ سے تو لیموں یا پھپالک‘ گاجر‘ بینگن‘ بھنڈی کے ٹوکرے ہی آیا کریں گے۔“
”اُٹھ کر کپڑے بدل لو‘ بلکہ نہا لو۔
میں یہ کپڑے بھی ساتھ ہی دھو دیتی ہوں۔“
”رہنے دو آپا! ابھی تو میں پی جن فلائنگ کی آخری پرواز دیکھنے جا رہا ہوں۔“سائر ایک دفعہ پھر اٹھ گیا۔
”ٹانگیں توڑ کر رکھ دوں گی۔“شازی ڈنڈا پکڑ کر اٹھ گئی۔
”پہلے اوپر تو دیکھو۔“
”کیا ہے؟“ شازی نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔سائر نظر بچا کر بھاگ گیا تھا۔
”وہ تو نکل گیا ہے“سونی نے ہنسنا شروع کر دیا۔
”بدھو! لوٹ کر گھر میں آنا ہے۔“ وہ اسے دھمکا رہی تھی۔
”اللہ کرے سونی آپا کی جگہ تم ہی پیا کے دیس دفعان ہو جاؤ۔“ وہ جاتے جاتے بھی اُسے چڑانے سے باز نہیں آیا۔
”میری جان تو چھوٹ جائے گی۔“
”تیری جان نہیں چھوڑ کر جانے والی۔“
”بڑے بول مت بولو آپا! یہ نہ ہو کل ہی چاچی اور لیاقت بھائی تجھے لینے آ جائیں۔“ وہ چہک کر پلٹا۔
”میں تو جلیبی پر ختم دلوا کر محلے میں بانٹوں گا۔“
”فٹے منہ تیری اوقات کا۔“ شازی جل بھن کر رہ گئی۔ ”تیرے جیسے بھائی ہوتے ہیں۔ ہونہہ‘ بہنوں کا مان تم بنو گے؟“
”تمہارا نہ سہی‘ سونی آپا کا مان ضرور بنوں گا۔“ وہ کالر کھڑے کرتے ہوئے بولا۔ ”آپا! یہ تو بتاؤ‘ تمہیں کس کے کھونٹے سے باندھا جا رہا ہے۔“
”بڑی بہنوں کا ذرا بھی لحاظ نہیں۔
“سونی نے تاسف سے ماتھا پیٹا۔ ”بے شرم! ایسی باتیں ”آپاؤں سے نہیں پوچھتے۔“
”اچھا۔“ وہ سچ مچ شرمندہ ہو گیا۔ ”سوری آپا۔“
”سوری کے بچے! چل غسل خانے میں گھس۔ بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے ہیں تیرے آس پاس سے۔“ شازی اسے گھسیٹ کر غسل خانے کی طرف لے گئی تھی جبکہ وہ ”سونی آپا بچا لو۔“ کی گردان کئے چلا رہا تھا۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi