Episode 24 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 24 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

آج چونکہ ہاف ڈے تھا‘ اسی لئے بچے جلد ہی اسکول سے آ گئے تھے اور صبح بھی پتا نہیں کیا کھایا تھا انہوں نے۔ وہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگی تھی اسی پل احد نے دہائی دی۔
”میرے پیٹ میں چوہوں کا میچ ہو رہا ہے مما!“
”اور میرے پیٹ میں وہ کبڈی کھیل رہے ہیں۔“ حدید بھی ٹھنکا۔
”اور ادھر بیڈ منٹن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔“ لاؤنج سے ایک اور آواز ابھری تھی۔
شفق بغیر دیکھے بھی جانتی تھی کہ آنے والا کون ہے۔
اس نے گرما گرم سینڈوچز کے ساتھ خرم کیلئے چائے بھی تیار کر لی۔ وہ لاؤنج میں آئی تو بچے بے صبری سے ٹرے کی طرف لپکے۔ اس نے پلیٹیں ٹیبل پر رکھیں اور چائے خرم کی طرف بڑھائی۔
”خالی چائے!“ خرم چیخا۔
”یہ سینڈوچ نظر نہیں آ رہے تمہیں؟“ شفق سنجیدگی سے بولی۔

(جاری ہے)

”لو یہ سینڈوچ… یہ تو تمہارے یہ پیٹو پہلوان چٹکیوں میں اڑا دیں گے۔
مجھ مسکین کو تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔“
”صبح پتا نہیں کیا کچا پکا کھا کر گئے تھے اسکول بے چارے‘ میں آج دیر سے اٹھی تھی۔“ اس نے محبت سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ خرم کو اچانک ہی اچھو لگ گیا تھا۔ ممانی پریشان ہو اٹھیں۔
”اے بیٹا! آرام سے۔“
”بے چارے۔“ وہ کھانستے ہوئے بمشکل بولا۔
”تمہارے ان ”بے چاروں“ نے ایک ایک پراٹھا اور دو توس میری ان گنہگار آنکھوں کے سامنے کھائے ہیں۔
ان بابرکت ہاتھوں سے میں نے انہیں ناشتہ بنا کر ٹھنسوایا ہے۔“ گہرے صدمے سے اس کی آواز بوجھل ہو گئی تھی۔ بچوں اور ممانی کے ساتھ وہ بھی ہنس پڑی۔
ممانی اور خرم کے جانے کے بعد اس کا باقی دن بے حد مصروف گزرا تھا۔ بچوں کو ہوم ورک کروا کر اس نے کھانا بنایا‘ بچے کھانا کھا کر کمپیوٹر کے سامنے جم کر بیٹھ گئے اور وہ کچھ دیر سونے کیلئے کمرے میں چلی گئی۔
شام گہری ہو گئی تھی جب احد نے اسے تقریباً جھنجھوڑ کر اٹھایا تھا۔
”مما جی اٹھ جائیں‘ رات ہو گئی ہے اور خرم انکل بھی آئے ہیں۔“ شفق اتنی دیر سونے پر حیران ہوتی واش روم میں گھس گئی۔ جب وہ باہر آئی تو خرم اور بچے لڈو کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہ کچن میں آکر سبزی بنانے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد خرم بھی آ گیا تھا۔
”شفو!“ وہ انتہائی نرم لہجے میں بولا۔
شفق نے گھور کر اسے دیکھا‘ وہ جانتی تھی کہ اب خرم کیا کہنے والا ہے۔ اسی لئے سرعت سے بولی۔
”پلیز خرم! کوئی ایسا سوال مت کرنا جو مجھے مشکل میں ڈال دے اور تمہاری اس فضول بکواس کا میرے پاس کوئی جواب بھی نہیں۔“
”کبھی تو نرمی سے بول لیا کرو‘ ہر وقت ہی انگارے چبائے رکھتی ہو۔“ خرم نے منہ بنایا۔
”میں تو خود سوچ رہا ہوں کہ تم سے فی الحال شادی کرنے کا ارادہ بدل دوں۔
“ وہ بے حد سنجیدگی سے بولا تھا۔ شفق کو خوشگوار حیرت نے گھیر لیا۔
”شکر ہے کہ تم نے بھی کوئی عقل مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ اب میں اور ممانی فٹا فٹ تمہارے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈتے ہیں۔ مجھے ممانی کی تنہائی کا خیال آزردہ کر دیتا ہے۔ تمہیں تو ان کے بڑھاپے کا احساس کرکے بہت پہلے ہی سنجیدہ ہو جانا چاہئے تھا۔ چلو دیر آید درست آید۔“
”شفق خاتون! آپ کس قدر معصوم ہیں۔
اس معصومیت نے ہی تو اسیر کر رکھا ہے قسم سے۔“ اس نے فروٹ باسکٹ سے سرخ سا سیب اٹھایا۔
”میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ چند سال مزید انتظار کر لوں۔ شاید کسی کو مجھ بے چارے پر ترس آ ہی جائے اور کوئی پرموشن کا چانس بن جائے۔ اب تم میجر اور میں کیپٹن۔ تمہیں سلیوٹ کرتا اچھا لگوں گا بھلا۔“ وہ ایک دفعہ پھر پٹڑی سے اتر گیا تھا اور شفق کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کی گردن مروڑ دے۔
”ویسے مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی کی دو بڑی خواہشیں کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ ایک تم سے شادی دوسری پروموشن امی بھی یہی کہتی ہیں‘ خرم تمہاری نالائقی کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ اسی کپتانی کے ساتھ عمریا بیتے گی تمہاری۔“ اس نے قہقہہ لگایا تھا جبکہ شفق نے چمچہ سلیب پر پٹخا اور اس کی طرف رخ کیا۔
”پورے تیس کے ہو چکے ہو۔ دو چار سال بعد کون لڑکی دے گا تمہیں‘ یہی شادی کی مناسب عمر ہے۔
اپنا نہیں تو ممانی کا ہی احساس کر لو۔“ وہ آزردگی سے بولی۔
”تو پھر مان جاؤ‘ نہ مجھے خوار کرو نہ خود کو۔“ خرم سنجیدگی سے بولا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نرم گرم سے جذبے لو دینے لگے تھے۔ شفق نے نگاہ چرا لی۔
”کیوں بھول جاتے ہو تم کہ میں پہلے سے شادی شدہ اور دو بیٹوں کی ماں ہوں اور بیٹے بھی ایسے کہ جن کے بڑھتے قد میری نیندیں اڑا رہے ہیں۔
کل کو یہی بچے مجھ سے سوال کریں گے کہ ہمارا باپ کہاں ہے۔“ وہ جیسے پھٹ پڑی تھی اور خرم کے ضبط کی طنابیں بھی ٹوٹ گئیں۔
”اسی لئے‘ اسی لئے آج سے نو سال پہلے تم سے کہا تھا کہ مجھ سے شادی کر لو۔ بچے چھوٹے ہیں۔ وہ مجھے باپ کے روپ میں قبول کر لیں گے مگر تم نہیں مانیں۔ کیا میں انہیں باپ کا پیار نہیں دے سکتا تھا۔ بولو‘ بتاؤ۔“
”خرم! تم کسی اچھی سی لڑکی کے ساتھ شادی کر لو۔
میں خود کو تمہارے قابل نہیں سمجھتی‘ مت خود کو ضائع کرو۔ اپنی بوڑھی ماں کا ہی خیال کر لو۔ پلیز خرم! پلیز! وہ بے تحاشا روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی تھی۔
خرم کو نجانے کیا ہوا تھا‘ وہ الٹے قدموں تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا جبکہ شفق ٹیبل پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ اسی پل فون کی گھنٹی گونج اٹھی۔ اس نے سی ایل آئی پر نمبر دیکھا‘ وہ ہی نمبر تھا۔ اک خوف کی لہر اس کے وجود سے اٹھی تھی۔ وہ ایک دفعہ پھر بے تحاشا رونے لگی۔ آنکھوں کے سامنے نجانے کون کون سے منظر آ رہے تھے جو کہ یادوں کے تپتے صحراؤں میں لے گئے۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi