Episode 4 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 4 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

اذکی نے بریانی دم پر رکھی ہی تھی کہ ڈور بیل گنگنا اٹھی۔ اس نے آنچ دھیمی کرکے باہر جھانکا۔ اس سے پہلے ہی دونوں بچے اچھلتے ہوئے۔ ”پپا آ گئے“ کا نعرہ بلند کئے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔
”مما! آ بھی جائیں  پپا آ گئے ہیں۔“ زید نے بے صبری سے اذکی کو پکارا۔ وہ ہاتھ پونچھتی ہوئی ان کے پیچھے آ گئی۔ لاک کھول کر وہ ہٹ گئی تھی۔ دونوں بچے باپ سے لپٹ گئے وہ بھی ساری تھکن بھلا کر ان دونوں کو چٹا چٹ چوم رہا تھا۔
”مما کہاں ہیں؟“ حیدر نے زید سے دریافت کیا۔
”کچن میں۔“
”اچھا…“ اس کا ”اچھا“ خاصا طویل تھا۔ اذکی کی کچکچا کر حیدر کو دیکھا۔ وہ زید اور دیا کو ایک ایک چاکلیٹ کھول کر پکڑا رہا تھا۔ کچن کے دروازے کے پاس وہ لمحہ کو رُکا پھر بڑے انداز میں گنگناتے ہوئے بیڈ روم میں چل دیا وہ نہا کر باہر نکلا تو اذکی بیڈ روم میں موجود تھی۔

(جاری ہے)

”آج آپ دیر سے کیوں آئے ہیں۔“ اس کے تھانیدارانہ انداز پر حیدر نے مسکراہٹ ضبط کی۔
”دراصل ایک دوست کو اس کے گھر ڈراپ کرنا تھا۔ اس کا راستہ چونکہ دوسرا تھا اسی لئے دیر ہو گئی۔“ خلاف توقع حیدر نے ذرا تفصیل سے جواب دیا۔
”جن کے راستے مختلف ہوں ان دونوں کو ابتداء میں ہی للہ حافظ کہہ دینا چاہئے۔ اس سے نہ صرف اپنا وقت بچتاہے بلکہ طویل سفر کی تھکان بھی نہیں ہوتی۔
”کھانا کھلانے کا پروگرام ہے کہ فلسفہ پر ہی ٹرخاؤ گی۔“ حیدر مسکرایا  کم کم ہی چہرہ مبارک پر مسکراہٹ جلوہ افروز ہوتی تھی۔ اذکی اس کا موڈ بہتر دیکھ کر پلٹ گئی۔ وہ ڈائننگ ٹیبل پر برتن رکھ رہی تھی جب وہ ایک دفعہ پھر بنا ٹھنا سا اس کے قریب چلا آیا۔
”کہیں جانا ہے آپ کو۔“ اذکی نے اس کی ”تیاریوں“ کو دل ہی دل میں سراہا۔ غضب کی ڈریسنگ ہوتی تھی اس کی بلا کا نفاست پسند تھا۔
”ہاں… ایسا ہے کہ تم بچوں کو تیار کر دو اور خود بھی ہو جاؤ میں اتنے میں گاڑی نکالتا ہوں۔ ایک دوست کا نکاح ہے آج ”شہنائی“ میں۔ مجھے اصل میں یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ابھی ابھی اس کا ایس ایم ایس آیا ہے۔ اب کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو  فٹا فٹ تیاری پکڑو۔“ اذکی نے کچھ جھنجلا کر چمچہ ٹیبل پر پٹخا۔ اس کی اسی طرح کی لاپروایوں پر اُسے جی بھر کے تاؤ آتا تھا۔
”یہ کوئی وقت ہے بتانے کا۔ آپ صبح بھی تو ذکر کر سکتے تھے میں کم از کم بچوں کے کپڑے ہی پریس کر دیتی۔“
”کہا تو ہے کہ ذہن سے نکل گیا تھا۔“ اذکی نے تیزی سے برتن میز پر سے سمیٹے  دیا نے چاکلیٹ سے منہ اور دونوں ہاتھ گندے کر لئے تھے۔ اس کا منہ اور ہاتھ دھلوا کر کپڑے بدلتے ہوئے وہ مسلسل نیچے سے آنے والے ہارن کی آواز سن کر بھنارہی تھی بچوں کو تیار کرکے اس نے اپنے کپڑے الماری سے نکالے تب ہی موبائل کی بل بجنے لگی تھی۔
اذکی نے جھلا کر موبائل اٹھایا۔ اسکرین پر حیدر کا نمبر جگمگا رہا تھا۔
”دس منٹ تک آ رہی ہوں۔“ حیدر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ سرعت سے بولی۔
”تم رہنے دو  میں پہلے ہی لیٹ ہو چکا ہوں۔ کم از کم تم آدھا گھنٹہ تو مزید لگاؤ گی۔ لہٰذا دروازہ بند کرکے کھاناکھا لو  میں دیر سے آؤں گا۔“ اذکی نے گہری سانس خارج کرکے کپڑے بیڈ پر پھینکے اور دونوں ہاتھوں سے سرتھام لیا۔
”مما چلیں بھی۔“ دیا نے اس کا بازو ہلایا۔ زید منتظر سا بیٹھا تھا۔ اس نے بکھری ہمتیں سمیٹ کر بچوں کو اٹھایا۔ بالوں میں برش چلا کر پرس پکڑا اور دروازے لاک کرکے سیڑھیاں اترنے لگی۔ آخر بچوں کو بھی بہلانا تھا۔ حیدر کو اس نے مختصر سی کال کرکے بتا دیا تھا اپنے جانے کے متعلق۔
###

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi