Episode 41 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 41 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

گیٹ پر ہی اس کی ملاقات کرنل ڈاکٹر راحیل سے ہو گئی۔ وہ اسے دیکھ کر بھرپور انداز میں مسکرائے تھے۔
”اسلام و علیکم! کیسی ہیں آپ؟“
”وعلیکم‘ اسلام میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟“ وہ ان کے برابر چلتے ہوئے آہستہ سے بولی تھی۔
”آپ کے سامنے ہی ہیں۔ دیکھ لیں۔“ وہ بے ساختہ بولے تھے۔ شفق اک پل کو خاموش سی ہو گئی۔
”میں شام چھ بجے تک آپ کے گھر آؤں گا۔
کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ باہر تو آپ ملیں گی نہیں۔“ کرنل راحیل دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس سے آگے نکل گئے تھے۔
شفق گہری سانس لیتی کوریڈور میں آئی تو خرم سے مڈھر بھیڑ ہو گئی۔
”یہ کرنل صاحب تم سے کیا کہہ رہے تھے؟“ وہ تنک کر پوچھ رہا تھا۔ شفق نے اسے گھور کر دیکھا۔
”صبح ہی صبح میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

خواہ مخواہ موڈ خراب کر دیتے ہو۔

“ وہ سختی سے بولتے ہوئے اپنے روم کی طرف چلی گئی۔
خرم نے بھی غصے سے اس کی پشت کو گھورا۔ یہ سارا دن اس کا بے حد مصروف گزرا تھا۔ اس نے دوبارہ خرم کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ چار بجے کے قریب خرم نے اس کے روم میں جھانکا۔
”گھر چلو گی یا ابھی مزید خدمت خلق کا ارادہ ہے۔“ شفق ابھی راؤنڈ لینے جا رہی تھی اس لئے سر نفی میں ہلانے لگی۔
”اچھا پھر میں تو جا رہا ہوں۔
“ وہ فورات ہی یہ جا وہ جا۔ آف کے بعد وہ تو ایک منٹ بھی مزید نہیں رک سکتا تھا۔ شفق ساڑھے پانچ بجے تک فارغ ہوئی تھی۔
واپسی پر اس نے سوچا کہ یوٹیلٹی اسٹور سے کچھ خریداری کر لی جائے دالیں‘ چاول‘ اور کوکنگ آئل وغیرہ خرید کر اس نے قریبی بیکری سے حدید کیلئے پائن اپیل کیک پیک کروایا۔ وہ گلاس ڈور کھول کر باہر نکل رہی تھی جب ایک دفعہ پھر شاہ میر کا چہرہ اسے نظر آیا تھا۔
اس کے ساتھ یقیناً اس کی بیوی تھی۔ وہ سلگتے ہوئے گاڑی تک آئی۔
”شاہ میر کے تو گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ کل کی شفق جسے وہ اپنے قدموں تلے روند کر چلا گیا تھا آج کی میجر ڈاکٹر شفق ہے۔“ وہ تنفر سے سوچ رہی تھی۔ گھر آکر بھی اس کے دماغ سے شعلے نکلتے ہے۔ تمام چیزیں پٹخ کر وہ بے اختیار رو دی تھی۔
”مجھے کیا ملا‘ درد‘ اذیتیں‘ تنہائی… اور وہ آج بھی کتنا خوش ہے مطمئن ہے۔
اسے تو یاد بھی نہیں ہوگا کہ کوئی شفق اس کی زندگی میں تھی بھی۔
سارے خسارے میرے ہاتھ میں ہی چلے آئے ہیں۔ اس کا تو کچھ بھی نہیں گیا۔ آج بھی شان سے جی رہا ہے۔ سب کچھ تو ہے اس کے پاس۔ عہدہ‘ دولت‘ گھر‘ بیوی اور یقینا بچے بھی۔“ وہ تڑپتے ہوئے بال نوچنے لگی تھی۔
”ساری ذلتیں‘ ساری تکلیفیں میرے حصے میں آئی ہیں۔“ اس کی آواز رندھ ہو گئی تھی۔
حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔ معاً فون کی بیل گنگنا اٹھی۔ اس نے گھٹنوں سے سر اٹھا کر اس بجتے کھلونے کی طرف دیکھا اور پھر سرعت سے اس کی طرف لپکی۔
”اب کیا چاہتے ہو جنرل جہاں زیب، بکو اب میں تمہیں کیا دوں۔ اپنا بیٹا تو تم پا ہی چکے ہو۔ اس سے شادی کرنے کی سزا بھی دے دی۔ تم نے‘ اب کیا چھیننا ہے تم نے مجھ سے کیا۔ کیا بچا ہے میرے پاس؟“
”پہلے تمہارا دل اجاڑا ہے‘ اب گود اجاڑنی ہے۔
“ دوسری طرف وہی تکبر تھا‘ وہ ہی انداز تھا‘ وہ ہی انگاروں کی تپش لیا لہجہ تھا۔
”میں تم سے اپنے پوتوں کو چھیننا چاہتا ہوں میرے پوتے‘ میرے شاہ میر کے بیٹے۔“
اس نے پگھلا ہوا سیسہ شفق کے کانوں میں انڈیلا تھا۔ اس نے بے حد خوفزدہ ہو کر ریسیو کو دیکھا اور پھر کریڈل پر پٹخ دیا۔
”نہیں‘ نہیں تم میرے بچوں کو مجھ سے دور نہیں کر سکتے۔
میں تمہیں اپنے بچے نہیں دوں گی نہیں‘ کبھی نہیں۔“ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے زور زور سے چلا رہی تھی۔
احد اور حدید بیٹ پھینک کر اپنی ماں کی طرف لپکے تھے۔
”مما… مما جان،!“ وہ دونوں بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے۔ کرنل راحیل ان تینوں کو روتے چلّاتے دیکھ کر سرعت سے آگے بڑھے۔ وہ ابھی ابھی آئے تھے۔ اندر سے آنے والے اس نامانوس شور نے انہیں بے حد پریشان کر دیا تھا۔
جوں ہی انہوں نے لاؤنج میں قدم کھا تھا‘ شفق اپنے بیٹوں کے بازوؤں میں جھول گئی تھی۔ وہ دونوں خوف زدہ نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”انکل! ہماری مما!“ کرنل راحیل نے ان دونوں کو دلاسا دے کر خاموش رہنے کیلئے کہا اور پھر احد کے ساتھ مل کر شفق کو بستر پر ڈالا۔
شفق نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ مگر اس کی ذہنی حالت کچھ بہتر نہیں تھی۔ وہ اٹھتے ہی احد اور حدید کو پکارنے لگی تھی۔
”مما! ہم آپ کے پاس ہیں۔“ کرنل راحیل کے کہنے پر وہ دونوں اپنی ماں کے دائیں بائیں بیٹھ گئے تھے۔ شاید شفق کو بھی یہی اطمینان چاہئے تھا۔ وہ ان دونوں کا ہاتھ تھام کر قدرے پرسکون ہو گئی تھی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi