پا ر لیمنٹ کے اندر یاباہر احتجاج ‘ اپوزیشن تقسیم

تحریک انصاف مرکز ،پنجاب اور کے پی کے میں بر اجمان سند ھ میں پیپلز پارٹی کا دوبارہ یقینی اقتدار ‘ ایم کیوایم کو ساتھ رکھنے کا عندیہ

جمعرات 2 اگست 2018

parliment ke andar ya bahar ihtijaj opposition taqseem
اسرار بخاری
جب یہ سطور شائع ہوگی مگر اور صوبوں میں حکومت کے خد وخال واضح ہوچکے ہوں گے تا ہم ...... میں دھاند لی کے الزامات اور احتجاجی مظاہروں نے ایک تناؤ کی صورت پیدا کر رکھی ہے اس کا حل یہ ہے کہ جن حلقوں میں دھاندلی کا الزام ہے وہاں دوبارہ کنتٹی کر ادی جائے اور اگر کوئی واقعی مینڈ یٹ چرانے کا مر تکب ہوا ہے تو اس سزا دی جائے ورنہ مشکوک مینڈیٹ سے کسی کے لئے بھی اقتدار کا اخلاقی جواز پیدا نہیں ہوتا ۔

2013ء میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر دھر نوں سے ملک کا نقصان ہی ہوا تھا ۔یورپی یو نین کے مبصرین نے 25جولائی کے الیکشن کو 2013ء سے بد تر قرار دیا ہے اور کہا سب کو یکساں مواقع نہی ملے ۔میڈیا کو بھی کوریج میں ریکاو ٹیں ڈالی گئیں ۔

(جاری ہے)

تاہم پولنگ کے روز دھاندلی نہیں ہوئی ۔ ایسے بیان سے نئی حکومت کے لئے یورپ میں تجارتی معاشی معاملات میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں نگران وزیر خزانہ شمشا د اختر کے مطابق اندرونی و بیرونی قر ضے ساڑھے چوبیس ہزار ارب ڈالرکے ہیں جن میں 92ارب بیرون ملک واجب الاد اہیں معاشی ماہرین کے مطابق نئی حکومت کوفوری طور پر 10سے 15ارب روپے کی فور ی ضرورت پڑے گی ۔

تحریک انصاف س آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا اعلان کیا ہے اس کا خیر مقدم کیا جا نا چاہیے مگر اس سب کے لئے جو نئی معاشی پالیسی بنانی ہوگی ملک میں ہنگامہ آرائی کی صورت کیس بنے گی لہٰذاد ھاندلی کے الزامات پر سنجیدہ آج کی ضرورت ہے موجود صورتحال میں ملکی مفاد کا تقاضا ہے سیاسی مفادات اور اناؤں کو پس پشت ڈال کر سسٹم کو جاری رکھا جائے اور مل بیٹھ کر ایسا انتخابی نظام تشکیل دیا جائے جس سے دھاندلی اور بے ضا بطگیو ں کے دروازے ہمیشہ کے لئے
 بند ہوجائیں ۔

ورنہ قیامت تک ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات اور احتجاجی ومظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔عمرا ن خان کی سابق اہلیہ جما ئما گو لڈ سمتھ نے الیکشن میں کامیابی پر عمران خان کو مبارکباد کا جو پیغام بھیجا ہے اس میں کہا ہے ”عمران خان یہ چیلنج ذہن میں رکھیں وہ سیاست میں کیو ںآ ئے ہیں۔ 22سال کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد میرے بیٹو ں کا والد پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہیں “ اس جملے کے پہلے حصے سے منفی پہلو بھی ہیں لیکن فی الحال مثبت پہلو پر بات ہوگی وہ یہ کہ پاکستان اس وقت معاشی لحاظ سے اور داخلی و خارجی سطح پر جن حالات کا شکار ہے یہ یقینا آنے والی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے دوسرے کیا وہ موجود ہ حالات میں ان وعدوں ،دعوؤں اور علانا ت کو پورا کر سکیں گے جو ان کے سیاست میں آنے کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں ۔

25جولائی 2018ء کے انتخابات دہشت گردی کے چار واقعا ت اور فائرنگ کے ذریعہ انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کچھ کوششوں کے باوجود مجموعی طور پر پر امن ماحول میں ہوئے جس کااتمام تر کر یڈٹ پاک فوج کو نہ دینا زیادتی ہے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ اعلان دشمن قو توں کو ووٹ کے ذریعہ شکست دیں گے “ پوری قوم کے عزم کا اظہار ہے ۔پاک فوج کے تر جمان میجر جنرل آصف غفور کا یہ بیان ”شکریہ ہم وطنوں ،پاکستان پھر جیت گیا ،دنیا نے مسلح افواج کیلئے عوام کے دلوں میں محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ” پاکستان پھر جیت گیا “ کا مطلب کسی سیا سی جماعت کی جیت نہیں بلکہ یہ پاکستان میں انتخابات کے عمل کو سبو تاڑ کرنے والی قوتوں کے خلاف جیت کا اظہار ہے جن کی آخری بزدلانہ کوشش پولنگ کے دن پولنگ سٹیشن پر خود کش حملہ تھا جس میں 5پو لیس اہلکاروں سمیت 32افرد شہید ہوئے ۔

بلیدہ میں فائرنگ سے تین فوجی جوانوں سمیت چار افراد شہید ہوئے ۔تاہم یہ پہلے انتخابات ہیں کہ کم وبیش تمام جماعتوں کی جانب سے انتخابات سے قبل یہ الزامات عائد کئے جارہے تھے کہ ایک جماعت کیلئے راہموار کی جارہی ہے الیکشن کے بعد الزامات نے یہ شکل اختیار کی (ن) لیگ کر سر براہ میاں شہباز شریف نے کہا ”کروڑوں لوگوں کے مینڈیٹ کی توہین اور دھاندلی کی گئی ۔

پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا ۔فارم 45نہیں دئیے گئے ،ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا دھاندلی ہوئی اسے پی سی میں لائحہ عمل بنائیں گے ۔اے این پی کے رہنمامیاں افتخار حسین نے کہا ”بد ترین دھاندلی ہوئی ۔پیپلز پارٹی کے چےئر مین بلاول زراری نے کہا بد ترین دھاندلی ہوئی، جمہوری رائے کچلنے کے نتائج روکے گئے ۔ آصفہ زرداری ،رضا ربانی اور شیری رحمان نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ۔

پاک سر زمین پارٹی کے رضا ہارون اور فیصل سبز واری نے کہا سادہ کا غذ پر رزلٹ دیا جا رہا ہے متحدہ قو می موومنٹ کے فاروق ستار نے کہا پری پول دھاندلی کی گئی ۔تحریک لبیک یارسول اللہ کے علامہ خادم حسین رضوی نے کہا بد یا نتی کی انتہا کردی دھاندلی نہیں دھاندلا کیاگیا ہے ۔ان جماعتوں کی جانب سے الیکشن پر اعتراضات اور نتائج مسترد کرنے کا اعلان سنجیدہ فکر حلقوں کیلئے باعث تشویش ہوناچاہئے کیونکہ اگر یہ ان تمام جماعتوں کی جانب سے احتجاج اور دھر نوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا جیسا کہ بعض اعلا نات سے ظاہر ہو رہا ہے تو پھر ملک میں سیاسی استحکام بلا خوف تر دید سوالیہ نشان بن جائے گا جو تحریک انصاف کی امکانی بلکہ یقینی طور پر مخلوط حکومت کیلئے بڑا چیلنج بن جائے گا۔

لہٰذا اس سے بچنے کی واحد صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کوان کے اعتراضات بلا کر الزامات کے حوالے سے کس حد تک مطمئن کر پائے گا ۔موجود ہ دگر دگوں معاشی صورتحال میں سیاسی عدم استحکام کے خوفناک نتائج کا اندازہ لگانے کیلئے کسی اضافی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے ۔ایسانہ ہو کہ پہلے سو دن کے پروگرام کا اعلان جس طمطراق سے کیا گیا تھا ۔

اس کی ناکامی پر عمران خان مختلف جواز پیش کرتے نظر آئیں ۔کئی شہروں سے امید واروں کو ہی پو لنگ سٹیشنوں میں جانے سے روکنے کی شکایات کی گئیں ہیں ان دنوں اندرون سندھ میں ہوں ۔حیدر آباد میں پی ایس 62میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے سر براہ ڈاکٹر فاروق مگسی ،این اے 266میں متحدہ قو می موومنٹ کے امیدوار صابر حسین قائم خانی ،کرچی میں پیپلز پارٹی کے سعید غنی بھی جن میں شامل ہیں میں نے مقامی صحافی دوستوں کے ہمراہ حیدر آباد کے مختلف حلقو ں سمیت مٹیاری ،خیبر ،ٹنڈومحمد جان،ماتلی اور ٹنڈو جام سمیت کئی علاقوں میں پولنگ سٹیشنوں کا جائزہ لیا کالم کی تنگ دامنی ان کی تفصیلات کو نہیں سمیٹ سکتی ہے ہفت روز ہ ندائے ملت کے آئندہ شمارے میں آنکھوں دیکھا حال تفصیل سے دے سکوں گا بہر حال حیدر آباد میں قائم خانی ہاسٹل میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک آفیسر کو نشاندہی کی گئی جو ایک خاص پارٹی کو ووٹ ڈالونے کی کوشش کر رہا تھا ۔

یوسی 36,35میں پولنگ سٹیشن دھوبی گھاٹ مین ووٹ ڈالنے سے روکنے کی شکایت کرنے والی خواتین احتجاج کرتی نظر آئیں ۔لطیف آباد کے اکثر پولنگ سٹیشنوں پرسوکھے سٹمپ پیڈز کی شکایت کی گئی مخصوص سیاہی نہ ہونے کے باعث عملہ نے پانی ڈال کر مہریں لگوائیں ۔لیاقت کالونی رائٹ دے سکول میں بھی خواتین نے ووٹ ڈالنے سے روکنے کی شکایت کی ۔این اے 227پھیلی میں تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں میں جھگڑاہوگیا مگر سکیورٹی اہلکاروں نے بڑھنے نہ دیا ۔

الیکٹر انک اورپر نٹ میڈ یا کے ذمہ داروں کو حیدر آباد اور دیگر مقامات کی طرح کراچی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔روز نامہ امت حیدر آباد کے ریذیڈنٹ انڈیٹر عید الحفیظ عابد کو تصویر بنانے کی اجازت نہیں دی گئی اسی طرح لطیف آباد نمبر 7میں گرلز ہائی سکول کے پولنگ سٹیشن دد میں اخباری فوٹو گر افروں کی تصاویر بنانے سے روکا گیا ،سندھ کے مختلف شہروں کی طرح کراچی میں بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کوریج میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔

کئی مقامات پر تلخ کلامی اور بحث وتکرار کے باوجود کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔اس لئے ضرورت ہے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرے ۔سیکرٹری الیکشن کمیشن باہر یعقوب کے بیان سے ”جوکرنا ہے کر لو “کا تاثر ابھرتا ہے شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرکے مثبت قد اٹھایا ہے ۔تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے اپنی شکایات کے ازالے کیلئے آئینی وقا نونی راستے اختیار کریں۔

عمران کے حامیوں کو بھی جشن سے زیادہ اس چیلنج کی فکر کرنی چاہئے ۔معیشت کی بجائے آئی ایم ایف سے مزید توجہ ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور لوگوں کی روز مرہ زندگی پراس کے اثرات ،بیروز گاری ایک دم ختم نہیں کی جاسکتی ۔البتہ مہنگائی پر کنٹرول ،اگر عمران خان اس چیلنج سے نبر دآزمانہ ہوسکے تو پھر ان کے چاہنے والوں کا ”رومانس “سال ڈیڑھ سال سے زیادہ بر قرار نہیں رہ سکے گا ۔

عمران خان جیسی شخصیت کا خواجہ سعدر فیق کو680ووٹوں سے شکست دینا میرے نزدیک خواجہ سعدر فیق کی شکست فاتحانہ اور عمران کی فاتحانہ شکست ہے ۔پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو سلام جنہوں نے پر امن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا کراچی میں لوگ ایسے پر امن انتخابات کبھی نہیں ہوئے کہتے اور جوانوں کوپھول پیش کرتے پائے گئے ۔حتی ٰ کہ پاک فوج کابل فخر کارنامہ ہے کہ بیت اللہ محسود کے قبائلی علاقے میں برقع پوش خواتین نے ووت دیے ٹنڈ و محمد خان این اے 228سے پی ڈی اے کے امید وار علی نواز تالپور نے شہد اد پوراین اے 213سے.....خان وسان 45.....سے محمد بخش خاصخیلی لیگل ......ایڈووکیٹ غلام مصطفی سومر و ‘ پی ڈی اے سٹی کے صدر شیخ فتح کی قیادت میں خواتین پولنگ ایجنٹس کے ہمراہ علی چوک سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا جس سے حیدر آباد اور سجاول کی سمتون میں جانے والی دونوں طرف کی ٹریفک معطل ہوگئی ۔

مظاہرین نے پولیس اور پولنگ سٹشن پر تعینات عملہ پر دھاندلی کا الزام عائد کیا اور فوج کی نگرانی میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا اس طرح محراب پور اور دوسرے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے جبکہ کوٹر ی میں پی ڈی اے کی حامی سندھی خواتین کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا یادر ہے فہمیدہ مر زانے این اے 230بد ین سے پیپلز پارٹی کے حامی رسول بخش چانڈیو دی۔

بلو چستان اسمبلی میں احمد علی.... کی کا میا بی سے تحریک انصاف کو ایک نشست حاصل ہوئی مگر وہ چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھنے والی پارٹی بن گئی ہے ۔اسلام آباد میں منعقدہ سیاسی جماعتوں کی آل پار ٹیز کا نفرنس نتیجہ خیز نہیں رہی۔سندھ کے اپوزیشن سیاسی حلقوں میں مایوسی کا اظہار کیاگیا ہے ۔ان حلقوں کی رائے میں اگر (ن ) لیگ پیپلز پارٹی اسمبلیوں کا حلف اٹھانے سے انکار کردیں تو الیکشن کمین کے لئے دوبارہ الیکشن کرانے کے سواکوئی چارہ نہیں رہے گا لیکن آصف زرداری سندھ میں دوبارہ ہاتھ آنے والی حکومت سے کبھی دستبر دار نہیں ہوں گے اور خودان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور بعض ساتھیوں کے خلاف منی لانڈرنگ سمی دیگر مقدمات میں رعا ئت کے دروازے کھل سکتے ہیں اگر وہ موجودہ مقبولیت سے اتفاق کرلیں اور آصف زرداری وقت سے فائدہ کشیدکرنے کاہنر خوب جانتے ہیں ۔

اے پی سی میں شرکت کا پس منظر یہی ہے جبکہ بعض صحا فتی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ اب کسی کی بھی ہنر کاریاں رنگ نہیں لاسکیں گی اور سب کو بلاامتیاز احتساب کی چکی سے گزرنا پڑے گا ۔کے پی کے میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا قیام تو یقینی ہے پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے امکانات بڑھ رہے ہیں ۔2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے کے پی کے میں مرکزی اکثریت حاصل کی تھی مولانا فضل الرحمن کے اصرار کے با وود میاں نوازشریف نے (ن) لیگ کی مخلوط حکومت بنانے کی بجائے تحریک انصاف کی ....اکثریت کو تسلیم کیا جس نے آزاد امید واروں کے شیر پاؤکی پارٹی اور جماعت اسلامی کے اشتراک سے حکمت بنالی تھی ۔

عمران خان بھی 2018ء میں پنجاب میں .....اکثریت تھ مگر وہ ظاہر تھ مگر وہ ظاہر ہے شاہ محمود قریشی ‘ علیم خان ‘ اسحاق کاکوانی ‘ محمود الرشید اور فواد چودھری جیسے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مندوں سمیت اسد عمر ‘نعیم الحق ‘شیخ رشید جیس قربت رکھنے والوں کی آرزو سے ہٹ کر ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے غیر تصدیق شدہ خبر ہے(ن) لیگ کی طرف سے چودھری پر ویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی جارہی ہے اگر ایسا ہو اتو ہمالیہ سے بلند تحریک انصاف کی جانب پھینکے جانے والا جال بھی ہوسکتا ہے پنجاب میں (ن)لیگ کی حکومت کی راہ روکنے کے لئے آزاد امید وار تحریک انصاف کے لئے مطلوبہ تعدا د پوری نہ کرسکے و پھر چودھری پرویز الٰہی کے سر پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کاتاج دوبارہ دسجنے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم تحریک انصاف کی پہلی ثر جیح بلکہ بھر پور کوشش اپنا وزیر اعلیٰ لانے کی ہی ہو سکتی ہے چند روز میں صورت حال واضح ہوجائے گی ۔

!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

parliment ke andar ya bahar ihtijaj opposition taqseem is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.