کیا ” نئے پاکستان “ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا ؟

قوم نے انتخابات میں صو بائیت اور لسا نیت کو مستر د کر دیا وزارت عظمی کی حلف بر داری کے بعد ” آپر یشن “ دو بارہ سندھ کا رخ کرے گا۔

بدھ 1 اگست 2018

kaya naye Pakistan ka khawab sharminda tabeer hosakay ga
2018ء کے عام انتخابات جن میں تحریک انصاف اکثر یتی جماعت کے طور پر ابھری ہے کو تبدیلی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ باقی تمام سیاسی لیبرل اور مذہبی جماعتوں نے ان انتخابات میں دھا ندلی کے الزامات لگائے ہیں ۔یہ کس حد تک صحیح یا غلط ہیں اس کا کا پردہ بھی جلد فاش ہو جائے گا لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ ان انتخابات میں جہاں بڑے بڑے برج الٹے ہیں وہیں پاکستانی سیاست کا وہ بد تر ین حربہ جو لسا نیت اور صو بائیت کی شکل میں استعمال کیا جاتا تھا قوم نے بری طرح مستر د کر دیا ہے ۔

اس لحاظ سے 2018ء کے عام انتخابات ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے ۔کے پی کے سے لیکر بلو چستان اور سندھ کے شہری علاقوں تک لوگوں نے صو بائیت یا لسا نیت کی بجائے پاکستا نیت کو ووٹ دیا ہے ۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ ایسی سیا سی جو نکیں جو پاکستانی سیا ست سے تقریباچالیس برس سے چیکی ہوئی تھیں قوم کو اس مر تبہ ان سے نجات حاصل ہوئی ہے ۔ اسفند ریار ولی ،محمود خان اچکزئی ،فضل الرحمن ،اکرم خان درانی ،سراج الحق ،غلام احمد بلور ،فیصل صالح حیات ،رانا ثنا ء اللہ ،طلال چوہدری ،ڈاکٹر فاروق ،ستار ،آفتاب احمد شیر پاؤ اور جانے کتنے مانے ہوئے نام ان انتخابات میں گمنام ہوگئے ۔

کیا کوئی کبھی سوچ سکتا تھاکہ پیپلز پارٹی لیاری سے بھی سیٹ ہار سکتی ہے ۔لیکن پی پی کو یہاں سے عبرت ناک شکست کا سامنا کر نا پڑا ۔کہا جاتا ہے کہ بلاول نے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ جس دن پیپلز پارٹی لیاری سے ہارگئی تو سمجھ لینا پیپلز پارٹی ختم ہو گی ۔لیکن اس جگہ ہم اختلاف کریں گے کیونکہ پیپلز پارٹی اسی روز ختم ہوگئی تھی جب محتر مہ بینظیر بھٹو کو قتل کیاگیا تھا اور زرداری  نے ایک نام نہاد وصیت کی بنیاد پر خود کو شریک چےئر مین منوالیا تھا ۔

بلاول زرداری شکر کریں کہ انہوں نے لاڑکانہ سے الیکشن جیت لیا ۔ان انتخابات میں ان تمام جماعتوں نے اربوں روپیہ نتخابی مہم میں لگا دیا کیونکہ انتخابات میں جیت ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی تھی ۔
اس سارے معاملے میں حضرت فضل الرحمن کا کھیل سب سے زیادہ عبر تناک ثابت ہوا ہے ۔وہ کتنی دہائیوں سے حکومتی کشمیر کمیٹی کے چےئر مین تھے ۔

اس مرتبہ یہ چیر مینی بھی نہیں رہنی اور انہیں منسٹر ز انکلیو سے اپنی قیام گاہ ختم کرنا پڑے گی کیونکہ کشمیر کمیٹی کے چےئر مین کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہو تا ہے ۔دوسری جانب تحریک آزادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی اطمینان کا سانس لیں گی کیونکہ حکو مت پاکستان کی جانب سے کشمیر کی اہم ترین فائل مو لانا کے وزن تلے دبی ہوئی تھی جسے وہ کسی صورت نکالنے کے لئے تیار نہ تھا ۔

اس سارے معاملے پر زیادہ حیر انگی جماعت اسلامی پر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو مسئلہ کشمیر سے جڑے رہنے کا دعویٰ کرتی ہے کہ ایم ایم اے کے نام پر وہ ایسے اتحاد میں موجود تھی جس کی سر براہی مسئلہ کشمیر سے بیزار ایک شخص کے ہاتھوں میں تھی ۔اب رہا ایم ایم اے کا مستقبل تو اس کے بارے میں ہم گذشتہ ہفتے کے تجزئیے میں انتخابات سے پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اس مرتبہ یہ مذہبی اتحاد اپنی سابقہ پو زیشن بھی کھو دے گا اور ایسا ہی ہوا ۔

اس میں جماعت اسلامی زیادہ خسارے میں رہی امیر جماعت اسلامی سراج الحق نہ صرف اپنی آبائی نشست سے محروم ہوگئے بلکہ پی ٹی آئی کے ساتھ شامل ہوکر جو تھوڑی بہت سیاسی عزت محفوظ تھی وہ بھی گئی ۔یقینا اس حوالے سے جماعت اسلامی کے اصحاب فکر کو سو چنا چاہئے ۔
وہ منظر بھی اپنی جگہ باقابل یقین تھا جب پی ٹی آئی کے ارکان نے انتخابی فتح کی صور ت میں ایم کیو ایم کے گڑھ نائن زیرو میں بڑا جلوس نکالا ۔

کسی دور میں تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یہاں ایم کیوں ایم کے علاوہ کوئی اور جماعت پر بھی مارسکتی ہے ۔اوپر بیان کر دہ حقائق کی روشنی میں اس بات کو تسلیم کرناپڑے گا
 کہ ”تبدیلی “ حقیقت میں آچکی ہے عوام نے نہ صرف پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی تباہ کن سیاست کو مستر د کیا ہے بلکہ اسلام کے نام پر اور صوبائیت اور لسانیت کے نام پر قوم کو بے وقوف بنا نے والے سیاسی نو سر بازوں کو بھی سختی سے مستر د کر دیا ہے ۔

سیاسی جوڑ توڑ اور نمبر گیم کی اس کشمکش کے دوران ایک انتہائی دلچسپ واقعہ رونما ہو تا ہے اچانک نیوز چینلوں کی سکر ینوں پریہ ٹکر چلنا شروع ہو گیا کہ پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ کے لئے اپنا امید وار بھی نامزد کرنے والی ہے ۔ایسے وقت میں جب عمران خان کا وزیر اعظم بننا صاف نظر آرہا ہو اور پنجاب میں حکومت سازی کے لئے آزادارکان بشمول قاف لیگ کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہوں اچانک ایسی خبر سے کان کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

کیونکہ جس وقت پیپلز پارٹی کا وفد لاہور میں ایاز صادق کی سر براہی میں نون لیگ سے مذاکرات میں مشغول تھا عین اس وقت بنی گا لا میں چند آزاد امید واروں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد نون لیگ کی پنجاب میں عددی بر تری ختم کردی تھی ۔جس کے بعد پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی اورقو می اسمبلیوں میں کالی پٹیاں باندھ کر حلف اٹھا یاجائے گا ۔

اس بات کی تو ثیق بعدمیں نون لیگ کے پارلیمانی اجلاس میں بھی کردی گئی ۔اب صورتحال یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ کوسب سے زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ احتجاجی تحریک کیوں نہیں چلی ۔۔۔ ذرائع بتا رہے ہیں کہ وہ الیکشن کے بائیکاٹ پر مصر ہیں جبکہ شہباز شریف ایسا نہیں چاہتے۔بعد میں پتا چلا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے امید وار کا شوشہ بھی مریم نواز نے چھوڑا تھا غالباان کا خیال ہے کہ عمران اور شہباز شریف کو وزیر اعظم کیوں نہ بنا نا پڑے ۔

بعد میں اسے پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف کے خلاف نئی حکمت عملی بھی کہا جانے لگا کہ تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بنالی جائے ۔یہ بھی سننے میں آیا کہ فضل الرحمن بھی اس تجویز پرخوش تھے کیونکہ کم سے کم کشمیر کمیٹی کی چیر مینی اس طرح بچتی
 نظر آئی تھی ۔لیکن دوسری جانب اگر شہباز شریف قومی اسمبلی پہنچ جاتے ہیں تو انہوں نے کہنا ہے کہ میں قائد حزب اختلاف ہوں اس صورت میں پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہوگی جبکہ سینٹ میں بھی نمبر گیم میں تبدیلی کی وجہ سے وہاں شیری رحمن بھی قائد حزب اختلاف نہیں رہیں گی بلکہ ان کی جگہ نون لیگ کا کوئی رکن اس منصب کو سنبھا لے گا ۔

جہاں تک پنجاب میں حکومت سازی کا معاملہ ہے پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی صورت بنتی نظر نہیں آرہی ۔لیکن سب سے زیادہ مشکل سندھ میں ایم کیوایم کو ہے ۔تادم تحریر انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف جائے یا پیپلز پارٹی کی جانب ،لیکن ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا جورویہ رہاہے اس سے صاف انداز ہ لگا یا جاسکتا ہے کہ ایم کیوایم ریٹ بڑھو ا کر آخر میں پی ٹی آئی اور ڈی جی اے کے ساتھ ہی جائے گی ۔

کیونکہ کراچی آپریشن کی دوبارہ تیاری ہے او ر اس مرتبہ یہ پہلے بھی زیادہ سخت ہوگا ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جس وقت فضل الرحمن نے اے پی سی کی کال دی اور پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے علاوہ باقی جماعتوں کے ہارے ہوئے ارکان نے اس میں شرکت کی توڈاکٹر فاروق ستار کراچی سے اسلام آباد پہنچ گئے تھے لیکن انہیں اس وقت سخت خفت کا سامنا کر نا پڑا تھا جب ایم کیوایم نے ان کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور خود کو اے پی سی سے الگ رہنے کا اعادہ کیا ۔

جہاں تک پنجاب کے حوالے سے بات ہے یہاں پی ٹی آئی ہی حکو مت بنائے گی چاہے اس کے لئے وزارت اعلیٰ قاف لیگ کو ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیا سیاست کا سارا کھیل پنجاب کے سر ہی تو کھیلا جاتا ہے ۔اگر کوئی جماعت صرف پنجاب سے ہی سادہ اکثریت حاصل کرلے تو اس وفاق میں حکومت بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی اسی بنا پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر نون لیگ نے وفاق کی سیا ست کو دفن کرنے کی کوشش کی اور اپنے اپنے صوبے سنبھال کر
 خوب لوٹ مار مچائی جبکہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے یہ نعرہ رہا ہے کہ یہ جماعت چاروں صوبوں کی زنجیر ہے لیکن اب یہ سندھ کی شہری آبادی سے بھی نکل کر صرف اندرون سندھ کی جماعت بن چکی ہے ۔

اس لئے جو گذشتہ دس برسوں میں ہوتا رہا اب ایسا نہیں ہونے جارہا ۔ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی قوم نے صو بائیت اور لسانیت کو پہلی مرتبہ اتنی بری طرح مسترد کیا ہے ۔اب جمہوریت کے ساتھ ساتھ احتساب بھی چلے گا اور سخت احتساب ۔مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والی مذہبی جماعتوں کے بہت سے اہم ارکان بھی احتساب کی زد میں آنے والے ہیں اس کے علاوہ جن ہارے ہوئے افراد نے دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواستیں دی ہیں انہیں نمٹا نے کے بعد جو ارکان اسمبلی اور اسمبلی سے باہر سیاستدان ہوں گے ان کے اثا ثوں کی پڑ تال شروع ہوجائے گی ۔

کیونکہ ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ سپر یم کورٹ کا حلف نامہ در حقیقت قدرت کا قہر بن کر لوٹ مارکرنے والے سیاستدان پر ٹوٹے گا ۔دوسری جانب آپریشن سندھ میں شروع کیا گیا تھا اس کے بعد ایک خاص حکمت عملی کے تحت یہ آپریشن سندھ میں روک کر پنجاب کی طرف لایا گیا تھا اور اب شنید ہے کہ وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کے بعد اسے دوبارہ سندھ میں لایا جارہاہے ۔

ان تمام معاملات کو سمجھتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھاجائے کہ معاملہ صرف کرپشن کا نہیں ہے خاص طور پر سندھ میں بلکہ یہاں بڑے پیمانے پرقتل غارت کر وائی گئی ہے ۔سیاسی مخالفین کو ماراگیا ہے ،سروں سے فٹبال کھیلی گئی ہے۔۔۔عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی خو فناک انکشافات پر مبنی ہے ۔رہی سہی کسر حسین لوائی نے پوری کردی ہے ۔ دبئی، لندن، ترکی ، اسپین اور دنیا کے دیگر حصوں میں جواربوں ڈالر کی جا ئدادیں لوٹی ہو ئی دولت کی شکل میں ہیں ان کا مسئلہ حل کر نا ہے۔

سندھ میں تیزی کے ساتھ صفایا پھیرنے کے بعد یہ آپریشن کے پی کے اور دوبارہ پنجاب کارخ کرے گا اس موقع پر ماڈل ٹاؤن کی فائل بھی کھلے گئی اور دیگر معاملات بھی ۔۔۔۔
اس تمام صورتحال کے بعد اب پاکستان کو مضبوط خارجہ پالیسی اور دنیا کاسفارتی سطح پر سامنا کر نے کی ضرورت ہے نواز شریف کی ضد نے اس ملک کی خارجہ پالیسی کابیڑا غرق کر دیا تھا ۔

اس لئے ایسے وقت میں ایسے صاحب فکر رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو امریکہ سے لیکر چین تک قوم کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرسکے ۔اس لئے نئی حکومت کو چاہئے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی سیاسی بنیادوں پر سفیر تعینات کئے گئے ہیں انہیں فورافارغ کرے اور ان کی جگہ تجربہ کار کیرئیر سفارتکاروں کومتعین کیاجائے ۔خاص طور پر بیجنگ ،واشنگٹن ،لندن ،ماسکو اور دہلی کے پاکستانی سفارتخانوں میں ،جہاں مکمل طور پر پاکستان کی بات کی جاسکے ۔اس وقت دنیا جوہری تبدیلیوں کے دہانے پرہے ۔معاشی طور پرمضبوط قومیں ہی بقاکی صحیح جنگ لڑ سکیں گی ۔پانی کامسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے ا س سلسلے میں بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے رہنما کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kaya naye Pakistan ka khawab sharminda tabeer hosakay ga is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.