Episode 118 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 118 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

عائزہ کی رخصتی کے بعد گھر میں سناٹا چھا گیا تھا فیاض اپنے روم میں چلے گئے تھے اماں نے بھی ان کو روکنا مناسب نہ سمجھا تھا کہ وہ دیکھ چکی تھی فیاض کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی وہ نرم دل تھے عائزہ کے ساتھ جو رویہ انہوں نے اختیار کیا تھا وہ ان کی عادت کے برخلاف تھا۔ آئندہ کیلئے ایسے واقعات سے بچنے کیلئے ان کو ایسا سخت و بے لچک رویہ اختیار کرنا پڑا تھا لیکن اماں جانتی تھیں بیٹیوں کو بے حد چاہنے والے فیاض کیلئے یہ فیصلہ بے حد کٹھن تھا، وہ بھی بیٹے کے دکھ پر دکھی تھیں۔

دل پر بھاری بوجھ تھا یہ بوجھ آنسوؤں کے ذریعے ہی ہلکا ہو سکتا تھا، گھر میں پری ملازمہ کے ساتھ وہ بکھیڑا سمیٹ رہی تھی جو عموماً ایسے موقعوں پر تیاریوں میں پھیل جاتا ہے باہر لان میں طغرل اور معید دوسرے کزنز کے ہمراہ ڈیکوریٹرز کو سامان لے جانے میں مدد کر رہے تھے معاً صباحت کے بیڈ سے کوئی چیز چھناکے سے نیچے گری تھی پری کے ہاتھ بیڈ شیٹ درست کرتے ہوئے رک گئے، وہ ساکت نظروں سے سنہری چابیوں کے اس گچھے کو دیکھ رہی تھی جو دادی کی الماری کا تھا۔

(جاری ہے)

”ہا… ہائے بی بی جی! یہ چابیاں تو اماں جان کی الماری کی ہیں، آج کتنا ڈھونڈا ان کو اب دیکھیں بیگم صاحبہ کے بستر سے ملی ہیں، کمال ہے یہ یہاں کیسے آئیں؟“ خیرون نے صفائی چھوڑ کر جھک کر چابیاں اٹھاتے ہوئے حیرت سے کہا۔
”لاؤ یہ چابیاں مجھے دو، تم اپنا کام کرو۔ یہ چابیاں میں ہی یہاں بھول گئی تھی، تم کو دادی جان کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
“ وہ اس کے ہاتھ سے چابیاں لیتے ہوئے عام سے لہجے میں بولیں اور بے پروا انداز میں وہاں سے نکل آئی اس کو اس طرح مطمئن دیکھ کر خیرون کے چہرے پر چھائی حیرانی و تجسس از خود غائب ہو گیا تھا وہ پھر انہماک سے صفائی میں مصروف ہو گئی تھی۔ پری نے ملازمہ کو تو مطمئن کر دیا تھا مگر وہ اپنے ٹوٹے دل کو سنبھالے لاؤنج میں چلی آئی عجیب حالت ہو گئی تھی اس انکشاف سے الماری کی چابیاں صباحت نے خود نکالی تھیں اس بات کا یقین ہونے میں کوئی کسر نہ بچی تھی۔
آج صبح دادی کے کمرے سے ان کو بہت عجلت میں نکلتے ہوئے اس نے دیکھا تھا اور اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی، وہ کس مقصد کے انجام دہی کیلئے وہاں آئی تھیں۔ وہ صدموں کی زد میں سکتے کی کیفیت میں مبتلا تھی کہ نفرت و حسد کی انتہا تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھیں عائزہ کی شادی پر وہ خوبصورت ملبوس زیب تن کر سکے، نامعلوم وہ کس قسم کی احساس کمتری میں مبتلا تھیں؟
”پری! اس طرح کب تک اندر ہی اندر گھٹتی رہوگی جو دل کرتا ہے وہ کر گزرو صباحت کی زیادتیوں پر کب تک صبر کرو گی؟“ کچھ ٹائم گزرا تو آصفہ اس سے وہاں آکر مخاطب ہوئی تھیں ان کے لہجے میں نرمی و اپنائیت تھی، محبت سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”چھپانے کی ضرورت نہیں ہے تم کو کچھ بھی، خیرون مجھے بتا چکی ہے کہ وہ چابیاں صباحت کے روم سے ملی ہیں اور صباحت کے سوا یہ کام کون کر سکتا ہے، جلدی جلدی میں وہ چابیوں کو چھپانا بھول گئی ہو گی۔“
”پھوپو! ممی ایسا کیوں کریں گی بھلا؟“ اس نے شاید خود کو تسلی دی تھی۔
”ارے بس رہنے دو، کل تمہارا سوٹ اور جیولری دیکھ کر جو رنگ اس کے چہرے پر چھائے تھے میں تب ہی سمجھ گئی تھی وہ حاسد عورت جل گئی ہے مگر وہ ایسا کام دکھائے گی یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا خیر جلنے والوں کا تو منہ کالا ہی ہوتا ہے، دیکھا تم نے طغرل تمہارے لئے اس سے بھی بہترین سوٹ لے آیا تھا اور ماشاء اللہ پوری محفل میں تم ہی تم چھائی ہوئی تھیں، صباحت کا موڈ بگڑ کر رہ گیا تھا۔
”مجھے وہ سب اچھا نہیں لگا پھوپو جان! میں ممی کو پریشان نہیں دیکھ سکتی۔“ اس کے لہجے میں سچائی و آنکھوں میں نمی دیکھ کر آصفہ نے آگے بڑھ کر اس کو سینے سے لگاتے ہوئے لرزاں لہجے میں کہا۔
”میں جانتی ہوں میری جان! تم جس ماں کی بیٹی ہو اس عورت کی کوکھ سے تم جیسا ہیرا ہی جنم لے سکتا تھا، بدقسمتی تو ہماری ہے جو ہم مثنیٰ کی قدر نہ کر سکے اور صباحت جیسے پتھر کو اپنے بھائی کا نصیب بنا ڈالا۔
“ پری نے چونک کر آصفہ کی طرف دیکھا تھا۔
”ہم نے تمہارے ساتھ بھی بہت ظلم کیا ہے پری! تم کو کبھی بھی وہ پیار نہ دے سکے جو تمہارا حق تھا لیکن اب تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی میں وعدہ کرتی ہوں تم سے۔“
###
خواہشوں کے جس بھنور میں وہ پھنس گئی تھی حالات نے جن راستوں کا اس کو راہی بنا دیا تھا ان پر وہ چلنے کی عادی ہو چکی تھی۔
غفران احمر کی مہربانیاں اس پر بڑھتی جا رہی تھیں کیونکہ وہ اس کیلئے سونے کی چڑیا ثابت جو ہو رہی تھی اور اس کے الٹے سیدھے دھندوں کو سود مند بنا رہی تھی۔ اس پر سختی و پہرے داری ختم کر دی گئی تھی اس محل کی چار دیواری میں وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی گھوم سکتی تھی اس کی اس محدود آزادی نے بھی حاجرہ کو بے حد مسرور کر دیا تھا اس کی اور حاجرہ کی دوستی ہر دن کے ساتھ مضبوط ہوتی جا رہی تھی وہ اس کا بہنوں کی طرح خیال رکھتی تھی۔
وہ شام کے پہر گھاس پر حاجرہ کے سنگ ننگے پاؤں چہل قدمی کر رہی تھی، دھانی رنگ کے سوٹ پر سنہرے گوٹے سے دیدہ زیب کام کیا گیا تھا بھاری طلائی زیور میں وہ بہت حسین لگی رہی تھی، سیاہ بالوں کا آبشار اس کی پشت پر پھیلا ہوا تھا، مستزاداس کا مسکراتا چہرہ حاجرہ کی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں اور اٹھی رہ گئیں۔
”حاجرہ کیا ہوا… ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟“ ماہ رخ نے مسکرا کر پوچھا۔
”تم بہت حسین ہو ماہ رخ! بے حد حسین، یہ ملبوس، یہ زیورات، یہ روپ… تم تو بالکل شہزادی ہو، تم نے اپنی منزل پا لی ہے ماہ رخ! یہ سب پانے کیلئے ہی تو تم نے اتنی قربانیاں دی ہیں اور یہ سب تم کو مل گیا ہے۔ دولت، راحت عیش و آرام خوشیوں کی جس تتلی کے پیچھے بھاگتی ہوئی تم اس دیس سے اس دیس تک چلی آئی ہو تو کیا ہوا، وہ خواہشوں کی تتلی تمہاری مٹھی میں بند ہے آج۔
“ حاجرہ کے لہجے میں ناتمام حسرتوں کا دھواں تھا جو اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ نکلا تھا وہ یک ٹک ماہ رخ کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”مجھے دیکھو، میرے ماں و باپ تو بچپن میں ہی چچا چچی کے سہارے چھوڑ کر اس جہاں سے رخصت ہو گئے تھے، چچا و چچی پہلے ہی اپنے ڈھیروں بچوں کے ساتھ فاقے زدہ زندگی گزار رہے تھے میرا وجود تو ان کو گراں گزرتا ہی تھا ان کے ساتھ سسکتی بلکتی زندگی جس طرح گزاری اس چودہ سالہ زندگی کا ایک لمحہ بھی مجھے یاد کرنا گوارا نہیں ہے۔
”یہاں بیٹھو، بہت دکھی لگ رہی ہو تم کو ماضی یاد آ رہا ہے؟“ ماہ رخ جو اپنی سوچوں میں گم تھی حاجرہ کے بہتے آنسوؤں سے چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی اور ہاتھ پکڑ کر وہاں موجود حوض کے گرد رکھی کرسیوں میں سے ایک پربیٹھی اور دوسری پر حاجرہ کو بٹھا دیا۔
”تم نے مجھے کبھی بتایا نہیں تم دادو سے یہاں تک کس طرح آئیں؟“
”رخ! ماضی ہمیں اس لئے اچھا لگتا ہے کہ ماضی میں وہ تمام باتیں اچھی ہوتی ہیں وہ سارے اچھے لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں بھلائے نہیں بھولتے ہیں،جیسے تمہارا ماضی ہے اس میں ایسا کون سا رشتہ ہے جس نے تم سے محبت نہیں کی ہو، جس نے تم سے بے حد پیار نہ کیا ہو، تمہارے والدین، تمہارے چچا چچی اور وہ جس نے تمہاری ہر نفرت کا جواب محبت سے دیا تمہارا منگیتر گلفام! جس نے دل و جان سے تم کو چاہا۔
”حاجرہ! اپنی بات کرو، اپنے ماضی میں جھانکو خدارا!“ اپنوں کا نام سنتے ہی ایک ایک چہرا اس کی نگاہوں میں آنے لگا تھا اور وہ وحشت و درد کا شکار ہونے لگی تھی سو اس کی بات قطع کرکے گویا ہوئی۔
”میرے ماضی میں جھانکنے کیلئے کچھ نہیں ہے ماہ رخ!“ وہ کراہی تھی۔
”حسرت کی آگ میں ارمانوں کا جلتا ہوا دھواں دکھائی دیتا ہے، کوئی ایک چہرا، کوئی ایک بھی ایسا رشتہ یاد ہی نہیں آتا جس نے لمحے بھر کی مجھے خوشی دی ہو میں وہ بدنصیب ہوں، جو بچپن سے آج تک اپنے نصیبوں کی ستم ظریفی پر اندر ہی اندر گھٹتی رہی ہوں۔
“ ماہ رخ نے اس کا ہاتھ بڑی اپنائیت سے تھاما اور ہولے ہولے سہلانے لگی وہ دونوں غمزدہ تھیں اور دونوں ہی اپنے دکھوں میں ایک دوسرے کے قریب ہو گئی تھیں۔
”میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی ہے، جب ہم اللہ کی بنائی گئی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو پھر ہمارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی پھر ہم منہ کے بل گرتے ہیں اور گرتے ہی چلے جاتے ہیں۔“ ماہ رخ نے رنجیدگی سے کہا۔
”ہاں ہمارے ساتھ یہی ہونا تھا میں بھی چودہ سال کی عمر میں عین اس روز جب میری بارات دروازے پر کھڑی تھی، رفیق کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔“
”رفیق کون تھا کیا تم اس سے پیار کرتی تھیں؟“ اس نے چونک کر پوچھا۔
”پیار… ہاں میں ہی اس سے پیار کرتی تھی جس کا ادراک مجھے بعد میں ہوا۔ میں جس بنگلے میں کام کرنے جاتی تھی وہ وہاں صاحب کے پاس کاروبار کے سلسلے میں آتا جاتا تھا۔
“ وہ سرجھکائے گویا اعتراف گناہ کر رہی تھی ماہ رخ توجہ سے سن رہی تھی۔
”پھر تمہیں کس طرح پتا چلا اس کی محبت کا… کیا اس نے خود بتایا تھا؟“
”جب میری کچی عمر تھی کچی عمر اور کچی شراب ایک جیسی ہی ہوتی ہے، کب چڑھ جائے کب زہر بن جائے پتا ہی نہیں چلتا۔ رفیق کی میٹھی میٹھی نظروں کا خمار میرے پیار سے ترسے دل کو صحرا میں برسنے والی بارش کی طرح سیراب کرتا چلا گیا پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا اس کی اور میری حیثیت و عمر کا تضاد… کسی بھیڑ میں گم ہونے والے بچے کی طرح میں اس کی انگلی پکڑے چلتی گئی ایک ایسے راستے پر جس سے کبھی واپسی نہیں ہوتی۔
رفیق نے پہلے دن ہی مجھے فروخت کر ڈالا تھا ایک ایسے شخص کو جس کا وہ مقروض تھا اس آدمی نے کچھ دنوں تک مجھے اپنے ساتھ رکھا اور ایک شب وہ مجھے جوئے میں ہار گیا وہ آدمی کیپٹن قاسم تھا، قاسم کے ساتھ کئی مہینوں تک میں بحری جہاز میں سفر کرتی رہی اور پھر قاسم بھی مجھے عرب میں فروخت کر گیا اور یہ سفر اب اس دہلیز پر آکر رک گیا ہے جب بالوں میں مکمل سفیدی اتر آئی ہے۔
تم بڑھاپا آنے سے پہلے یہاں سے بھاگ جاؤ، ماہ رخ!“
###
دوسرے دن آصفہ اور عامرہ عائزہ کو سسرال سے گھر لے آئی تھیں کیونکہ اس کے ولیمے کا اہتمام پی سی ہوٹل میں محدود پیمانے پر تھا آصفہ اور عامرہ دوپہر کے کھانے کے بعد اپنی فیملیز کے ساتھ واپس چلی گئی تھیں، ان کا پروگرام اپنے گھروں سے ہوٹل جانے کا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہ دادی کے کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں عائزہ خلاف عادت دادی کے قریب بیٹھی تھی۔
فیروزی جھلملاتے سوٹ میں میک اپ اور جیولری میں اس پر دلہناپے کا رنگ تھا اس کے چہرے پر خوشی و دکھ کا تاثر نہیں تھا وہ نارمل موڈ میں بیٹھی تھی عادلہ وہاں موجود تھی اور دادی سے نگاہیں چرا کر شیری کو کال کر رہی تھی لیکن اس کی متواتر کوشش کے باوجود کوئی رسپورنس نہیں مل رہا تھا۔
پری کارپٹ پر بیٹھی پاندان صاف کرنے میں مصروف تھی اس کی نگاہیں گاہے بگاہے عائزہ کے چہرے کی جانب اٹھ رہی تھیں۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی لیکن آنکھیں کچھ اور ہی داستان سنا رہی تھیں عجیب سی سردمہری تھی ان آنکھوں میں کوئی انجانا سا احساس، پری کے دل میں وسوسے آنے لگے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اس کے احساس کو۔
”بہو تم تو کہہ رہی تھیں فاخرہ ولیمہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہیں، وہ حج سے واپسی پر بڑی دھوم دھام سے ولیمہ کریں گی پھر یہ اچانک کس طرح خیال آ گیا ولیمہ کرنے کا؟“ اماں نے صباحت سے پوچھا۔
”یہ ولیمہ تو فاخر کر رہے ہیں وہ اپنے خاص رشتہ داروں، دوستوں اور کولیگز وغیرہ کو انوائٹ کر چکے ہیں اور اپنی چند خاص فیملیز انوائٹ ہیں۔ فاخرہ بھابی تو حج سے واپسی پر بڑا ولیمہ کریں گی۔“ وہ عائزہ کو ملنے والے رونمائی کے طلائی سیٹ کو پسندیدگی سے دیکھتے ہوئے اپنے مخصوص فخریہ لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
”لو بھلا ایسا بھی کبھی سنا ہے ولیمہ تو ایک ہی بار ہوتا ہے تمہاری بھاوج دو ولیموں کی کوئی نئی ریت ڈالیں گی۔
“ اماں مسکرا کر بولیں صباحت کو ان کا انداز ناگوار گزرا وہ منہ بنا کر گویا ہوئیں۔
”اس میں بھلا ”ریت“ کی کیا بات ہے اماں! خوشیاں دو بار ہی کیا بار بار بھی منائی جا سکتی ہیں یہ کوئی عیب والی بات تو نہیں ہے۔“
”تمہاری یہی عادت خراب ہے تم بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی اور الٹا برا مان کر بیٹھ جاتی ہو، ارے پہلے سنتوں کو سمجھنے کی کوشش کرو، شوق پیدا کرو اپنے اندر پھر سب سمجھ آ جائے گا تم کو۔
”اب ایسی بھی بات نہیں ہے اماں جان دین کی سمجھ بوجھ مجھے بھی ہے میں سنتوں سے بھی آشنا ہوں بس مجھے بات چیت پر مذہبی طعنے برداشت نہیں ہوتے، ویسے بھی ہمارے معاشرے میں فرقہ پرستی، جماعت بندی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ کوئی بات منہ سے نکالتے ہوئے بھی دس بار سوچنا پڑتا ہے ایک بات کے سو مطلب نکال لئے جاتے ہیں۔“
”ہوں، بات تو تم نے اس وقت میرے دل کی کہی ہے صباحت! ہمارے خاندان میں سگے رشتے جماعتوں میں بٹ گئے ہیں گروہ بندیاں دن بہ بدن عروج پر ہیں مجھے خدشہ ہے آج ہم جو اپنے لوگوں کو بمشکل ایک خاندان میں سمیٹے بیٹھے ہیں کل ہماری ابدی نیند کے بعد یہی لوگ خونی تعلق کو توڑ کر گروہی تعلق کو اہمیت دیں گے۔
کل خون نہیں جماعت مضبوط تعلق ہو گی، چودہ سو سال قبل جو جہالت و گمراہی کا اندھیرا حق کو نگل کر باطل کو پھیلا رہا تھا وہ ہی اندھیرا آج پھر سے لوگوں کے دلوں میں بھرنے لگا ہے، جگہ جگہ طاقوں میں جو بت سجائے جاتے تھے وہ بت اب لوگوں کی پگڑیوں، جھنڈوں اور ملبوسات میں بدل گئے ہیں ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے فتوے جاری کر رہا ہے۔“ اماں نے ان کی بات پر اپنے دل کی بات بھی کہہ دی اور وہ ابھی کچھ مزید کہنے کا ارادہ رکھتی تھیں کہ صباحت حسب عادت اٹھ کھڑی ہوئی تھیں کیونکہ ان کو علم تھا یہ موضوع اماں کا پسندیدہ موضوع ہے جس پر وہ گھنٹوں ہی کیا ہفتوں نان اسٹاپ بول سکتی ہیں وہ مذہبی فطرت کی حامل تھیں خود بھی اپنے مذہبی فرائض شوق و پابندی سے ادا کرتی تھیں اور ان سب کی بھی درس و تدریس میں پیش پیش تھیں گو کہ صباحت ان کی سنگت میں نماز کی ادائیگی کی عادی ہو چکی تھیں لیکن وہ دین پرستی سے زیادہ دنیا میں مشغول رہتی تھیں سو وہ ایسی محفلوں سے دور بھاگتی تھیں۔
”دادی جان! چودہ سو سال پہلے لوگ جہالت و گمراہی کی راہ پر گامزن تھے آج الحمدللہ اسلام کا سورج پوری آب و تاب سے روشن ہے پھر بھلا لوگ کیوں بھٹک رہے ہی؟ اب کسی کے بھٹکنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔“ پری نے پاندان صاف کرکے ان کو تھماتے ہوئے کہا۔
”عقل کے اندھوں اور بے ہدایتوں کو صداقت کی روشنی نظر نہیں آتی۔“
”میں رات میں لے جانے کیلئے فروٹ اور مٹھائی کے ٹوکروں کا آرڈر دے دوں اور کچھ گفٹس بھی خرید لاؤں اب کوئی خالی مٹھائی و فروٹ تو نہیں لے کر جائیں گے نہ عائزہ کے ولیمے میں۔
“ ان سے دامن بچانے کیلئے صباحت نے کچھ زیادہ ہی عجلت دکھائی تھی اور وہاں سے جانے کو تیار تھیں۔
”مٹھائی اور فروٹ کا آرڈر دے دو، گفٹس میں نے بچا کر رکھے ہوئے ہیں وہ لے جانا۔“ انہوں نے ایک مشکل آسان کرنا چاہی تھی۔
”آپ نے کون سے گفٹس بچا کر رکھے ہوئے ہیں؟“ وہ متعجب ہوئیں۔
”جہیز میں میں نے ولیمے میں دینے کی نیت سے زیادہ سامان منگوایا تھا۔
”کوئی ایسا ویسا سامان تو نہیں ہے؟“ وہ بری طرح جزبز ہوئیں۔
”آپ رہنے دیں میں خرید کر لے آؤں گی، آپ تو جانتی ہیں فاخرہ بھابی برانڈ کونشس ہیں ایک بھی گفٹ ہلکا نکل آیا تو وہ ہر لحاظ بالائے طاق رکھ کر سب کے سامنے بے عزت کر دیں گی۔“
”کیسی باتیں کر رہی ہو صباحت! سارے جہیز میں کوئی ایک بھی شے تم کو یا فاخرہ کو کم قیمت و غیر معیاری لگی ہو تو بتاؤ؟‘ اماں کو ان کے انداز پر سخت تاؤ آ گیا تھا عادلہ ان کی اس بحث اور شیری کی طرف سے مسلسل سیل آف دیکھ کر چڑ کر وہاں سے نکل گئی تھی، عائزہ خاموشی سے وہیں لیٹ گئی تھی۔
”ایسی تو بات نہیں ہے اماں سارا سامان بہترین و منفرد تھا۔“ وہ مجبوراً پری کی لائی ہوئی چیزوں کی تعریف کرنے پر مجبور تھیں، پری ان کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے الماری کی طرف بڑھ گئی، وہ نہیں چاہتی تھی وہ اس کے سامنے سبکی محسوس کریں، اس لئے خوامخواہ کپڑوں کی ترتیب کو درست کرتے ہوئے ان سے لاعلمی ظاہر کرنے لگی۔
”پھر تم ایسی بے سروپا باتیں کیوں کر ہی ہو ایک نازک سا گولڈ کا سیٹ بھی ہے، تم بے فکری سے تیار کرو۔
“ معاً ان کی نگاہ الماری پر پڑی تو بولیں۔
”ارے یہ چابیاں کہاں سے ملیں؟ کل تو ہر جگہ چھان ماری تھی۔“ وہ حیرت بھرے انداز میں پری کی طرف متوجہ تھیں۔ عائزہ نے ماں کے چہرے پر گھبراہٹ اور اضطراب بخوبی محسوس کیا تھا۔
”دادی جان! شاید کسی بچے نے کھڑکی سے چابیوں کو باہر لان میں پھینک دیا تھا، رات میں صفائی کے دوران ملی ہیں۔“ پری نے مصروف انداز میں اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
صباحت نے گہرا سانس لیا اور عائزہ سے بولیں۔
”اپنے روم میں جا کر ریسٹ کرو، بھابی آئیں گی تم کو پارلر لے جانے کیلئے۔“
”میں یہیں ٹھیک ہوں اور دادی جان کے بستر پر مجھے سکون مل رہا ہے۔“ عائزہ نے کروٹ لیتے ہوئے کہا۔
”کیسی بات کر رہی ہو عائزہ! خود بھی بے سکون ہو گی اور اماں کو بھی کرو گی، چلو اپنے روم میں۔“ ان کے انداز میں ناپسندیدگی تھی۔
”ممی! آپ نے ہمیشہ ہم بہنوں کو دادی سے دور رکھا ہے اور اب تو میں سچ مچ دور ہو گئی ہوں یہ کچھ وقت دادی کے ساتھ گزارنے دیں۔“ اس کے انداز میں ڈھیروں شکوے تھے صباحت اس کی صاف گوئی پر کھسیانی ہو کر دھیمے لہجے میں بولیں۔
”لگتا ہے تھکاوٹ تم پر کچھ زیادہ ہی سوار ہو گئی ہے، سو جاؤ۔“ وہ کہہ کر چلی گئیں۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط