صباحت سٹنگ روم میں آنے سے قبل عادلہ کو کہہ آئی تھی کہ وہ تیار ہو کر آ جائے، عائزہ کا موڈ خراب تھا اس کو انہوں نے کہا بھی نہیں البتہ ملازمہ کو وہ بیکری سے لوازمات لانے کیلئے رقم دے آئی تھیں، پری کو کافی بنانے کا آرڈر بھی ملازمہ سے بھیج چکی تھیں کچھ دیر بعد عادلہ ٹرالی میں کافی اور لوازمات لئے آ گئی تھی۔
”بہت ہی سگھڑ اور سلیقہ شعار ہیں میری بیٹیاں۔
“ وہ رسمی تعارف کے بعد مسکرا کر گویا ہوئی تھیں۔
”اس دور میں لڑکیاں کچن میں جانا پسند نہیں کرتی ہیں اور یہ دونوں بہنیں ہیں کہ ان کو نت نئی ڈشیں بنانے سے فرصت نہیں ہے اور میری عادلہ کو تو کوکنگ اور بیکنگ کا اتنا کریز ہے کہ یہ تمام چیزیں خود ہی بیک کی ہیں اس نے۔“ مختلف اسنیکس سے اس کی پلیٹ بھرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
(جاری ہے)
عادلہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے شیری کا جائزہ لے رہی تھی۔
”بہت ذائقہ ہے اس کے ہاتھ میں۔ آپ کیوں اتنی محنت کرنی دیتی ہیں عادلہ صاحبہ کو، آج کل گرلز کو اپنی ہابیز سے فرصت نہیں ملتی ہے پھر جب ہر شے ریڈی میڈ ملتی ہو تو کیوں اتنی اسٹرگل کرتی ہیں؟ یہ سارے کام تو سرونٹ کے کرنے کے ہوتے ہیں میری سسٹرز کو تو کچن کاراستہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے اور میں تو بالکل بھی گھر کی خواتین کا کچن میں کام کرنا پسند نہیں کرتا۔
“ وہ عادلہ کو اچٹتی سی نگاہ دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
”صباحت کی سمجھ نہیں آیا وہ کسی طرح اپنے جھوٹ کو سچ کا پیراہن دے۔ مسز عابدی نے اس دن پری کے کھانے بے حد پسندکئے تھے اس کا کچن میں کام کرنا ان کو اس کا گرویدہ کر گیا تھا۔
وہ سوچ رہی تھیں بیٹا بھی ماں کی جیسی چوائس رکھتا ہو گا مگر…
”خیر یہ سب ممی کی بات ہے جو وہ ایسا کہہ رہی ہیں، اصل بات تو یہ ہے مجھے کچن سے الرجی ہے، یہ سب تو ہمیں دادی جان کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے وہ پسند کرتی ہیں یہ سب۔
“ عادلہ کو بھی اس سے مل کر خوشی ہوئی تھی جلد ہی وہ بے تکلفی سے کافی پی رہے تھے صباحت سے حد خوش تھیں۔
”عادلہ سے مل کر کیسا لگا آپ کو شیری بیٹا۔“
”بہت اچھا۔“ وہ چونک کر گویا ہوا کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے اس کی نگاہیں عادلہ کے چہرے پر تھیں۔
”میری بیٹیاں بہت خوبصورت، لائق اور حسین ہیں کوئی میری بیٹیوں کو ناپسند نہیں کرتا اور کرے بھی کیوں میں نے ان کی تربیت ہی ایسی شاندار کی ہے اس دن پری سے ملے تھے نا آپ؟“ ان کیلئے آج میدان صاف تھا وہ چھکے پر چھکے لگا رہی تھیں۔
”جی آنٹی! کہاں ہیں وہ؟“ اس نے انجان بن کے پوچھا۔
”آرام کر رہی ہو گی اور کیا کرے گی، کہہ کر بھی آئی تھی شیری بیٹا آیا ہے آکر سلام کر لو مگر وہ ہی بات سوتیلی بیٹی ہے، میری بات کیوں ماننے لگی، یہ تو میری بیٹی ہے جو ایک آواز میں یہاں چلی آئی ہے۔“ وہ کہتے ہوئے شیری کے تاثرات نہیں دیکھ رہی تھی۔
###
”کیسا لگا شیری؟ ہینڈسم اینڈ گڈ لکنگ ہے نا؟“ شہریار کے جانے کے بعد صباحت عادلہ سے مسرور لہجے میں گویا ہوئیں۔
”جی ممی! بلکہ شیری تو جلد فری ہونے والے ہیں۔“
”اور بھی بہت ساری خوبیاں ہیں اس میں، سب سے بڑی خوبی تو یہ ہے کہ وہ بڑی جائیداد کا اکلوتا وارث ہے۔ اب تم طغرل کو بھول جاؤ اور شیری کو قابو کرنے کی سعی کرو، ویسے بھی شیری طغرل سے زیادہ اسمارٹ و خوبصورت ہے۔“ طغرل کے نام پر وہ منہ بنا کر گویا ہوئی تھیں۔
”آہ… یہ سچ نہیں ہے ممی! طغرل کی طرح وہ خوبصورت نہیں ہے، طغرل جیسی سحر انگیزی کسی کسی مرد میں ہوتی ہے۔
“ اس کے مدھم لہجے میں حسرتوں کی تپش تھی۔
”عادلہ! مرد کی خوبصورتی کون دیکھتا ہے بیٹا! مرد کی خوبصورتی سے زیادہ اس کا بینک بیلنس دیکھا جاتا ہے، دولت مند مرد کی بدصورتی بھی خوبروئی میں بدل جاتی ہے پھر شیری طغرل جیسا وجیہہ نہ سہی مگر دولت مند تو ہے۔“ وہ باتیں کرتی لاؤنج کی سمت آ گئی تھیں جہاں فیاض روم سے نکل کر آئے تھے انہیں دیکھ کر وہ استفسار کرنے لگے۔
”میں نے تم سے کہا تھا کچھ دیر شیری کو کمپنی دو اور تم یہاں موجود ہو؟“ وہ قریب آ کر گویا ہوئے۔
”شیری جا چکا ہے میں اس کو رخصت کرکے ادھر آئی ہوں۔“
”اتنی جلدی کیوں چلا گیا ہے وہ؟“ وہ حیران ہوئے۔
”اس کے کسی دوست کی کال آ گئی تھی وہ تو اسی وقت جا رہا تھا میں نے زبردستی روک کر خاطر مدارت کی ہے آپ نے باتھ لینے میں اتنا ٹائم لگا دیا، معذرت کرکے گیا ہے وہ آپ سے۔
“
”چائے ملے گی یا نہیں؟“ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
”میں چائے لاتی ہوں ڈیڈی۔“ عادلہ نے کہا اور چلی گئی۔
”آپ کو بھی عادت ہے بات گھما پھرا کر کہنے کی، صاف کہہ دیں چائے پینی ہے آپ کو۔“
”سیدھی بات آپ کی سمجھ ہی کہاں آتی ہے۔“ ان کے لہجے میں شگفتگی تھی جب کہ صباحت کے تیور بگڑ گئے تھے۔
”میں تو آپ کی نظر میں پہلے دن سے ہی کوڑھ مغز ہوں۔
“
”تمہارے سینس آف ہیومر کا لیول اتنا گرا ہوا کیوں ہے؟ کبھی اپنے انداز کو بدلنے کی سعی بھی کیا کرو۔“ حتیٰ المقدور انہوں نے اپنے لہجے کو نرم ہی رکھا تھا۔
”سینس آف ہیومر ان لوگوں میں زندہ رہتا ہے جن کو کوئی دل سے چاہتا ہے، ہر خوشی ہر آسائش جن کے قدموں میں ڈھیر ہوتی ہیں اور مجھے ملا ہی کیا ہے؟“ ان کے لہجے میں شکوے و شکایات کی جگہ بے زاری و حرص تھی۔
”خوش رہنا اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا بھی ایک وصف ہوتی ہے جو شاید بہت خاص لوگوں میں ہوتی ہے اور میرے خیال میں یہ ایک عطیہ خداوندی ہے جو اپنے مقرب بندوں کو ہی عطا کرتا ہے، ایسے لوگ جو فاقے کرنے کے باوجود ہر ضرورت کو ترستے ہوئے بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، خوش رہتے ہیں۔“
”آپ کی نظروں میں تو میں گری ہوئی ہوں، اب اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے بھی مجھے گرا دیں آپ۔
“
”میں تو بہت گناہ گار بندہ ہوں میری ایسی مجال کہاں۔“
”آپ کا بس نہیں چلتا ورنہ آپ تو…“ وہ بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئیں۔
فیاض گہرا سانس لیتے ہوئے انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں ماضی کی دھند پھیلنے لگی تھی۔
اسکائی بلو بنارسی ساڑھی میں نازک سی جیولری پہنے بنامیک اپ کے ہی وہ جاذب نظر لگ رہی تھی اس کو ویسے بھی عام لڑکیوں کی طرح سجنے سنورنے کا شوق نہیں تھا۔
بالوں میں برش پھیر کر اس نے طائرانہ نگاہ خود پر ڈالی تھی۔ دودھیائی رنگ ڈراک براؤن ہیروں کی چمک لئے آنکھیں، گلابی بھرسے بھرے ہونٹ۔ اس کی آرائش قدرت کی طرف سے تھی تو اس کو پھر خود کو سنوارنے کی ضرورت نہ تھی وہ برش رکھ کر آگے بڑھی تو جوس کا گلاس تھامے فیاض نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”کچھ دیر میرے پاس تو بیٹھو میں آیا ہوں آفس سے۔“
”آصفہ آپی انتظار کر رہی ہیں ان کے ساتھ جانا ہے مجھے۔
“ وہ مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔
”یہاں بیٹھو میرے پاس تم۔“ اس نے بازو کے حصار میں لے کر بٹھا لیا۔
”میں اماں کے پاس ہی آ رہا ہوں، آپا تو ابھی تیار بھی نہیں ہیں، اماں کے پاس بیٹھیں اپنے سسرالیوں کے گناہ بخشوا رہی ہیں۔“
”گناہ بخشوا رہی ہیں… کیا مطلب ہے تمہارا فیاض؟“ وہ حیرانی سے اس کی جانب دیکھتی استفسار کر بیٹھیں۔
”ارے یار! برائیاں کر رہی ہیں ان لوگوں کی۔“
”اوہ مائی گاڈ۔“ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔
”یونہی ہنستی رہا کرو، اپنی اس ہنسی کو کبھی چڑچڑاہٹ میں تبدیل نہ ہونے دینا مثنیٰ! وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبا کر گویا ہوئے اس کے ہر انداز میں محبت تھی۔
”لڑتی، جھگڑتی، چڑچڑی عورت، چڑیل لگتی ہے مجھے اور تم کبھی…“ وہ جذباتی ہو رہا تھا اور اس کے ہاتھ سے جوس چھلک گیا۔
”اوہ…!“ تیزی سے پھیلتے جوس کو دیکھ کر وہ فوراً کھڑی ہو گئی۔
”سوری یار! میں نے تمہاری ساڑھی خراب کر دی۔“
”ڈونٹ وری، ساڑھی ہے یہ زندگی نہیں۔ میں چینج کرکے آتی ہوں۔“ اس کو شرمندہ دیکھ کر وہ مسکرا کر بولی اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی، فیاض اٹھ کر اماں کی طرف چلا گیا۔
”ہائے ہائے، یہ کیا پہن کر چلی آئی ہو بنو تم؟“ وہ آف وہائٹ ریشمی کڑھائی والا سوٹ زیب تن کئے وہاں گئی تو اس کو دیکھتے ہی آصفہ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”شادی کو ابھی تمہاری پورے دو ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں، نئی نویلی دلہن ہو تم، میرے سسرال میں پہلی بار جا رہی ہو کیا سوچیں گے وہ لوگ؟ ایسے مردہ کلر تو آج کل بیوائیں بھی نہیں پہنتی ہیں۔“ آصفہ کی زبان کی کاٹ دار روانی ہواؤں کے دوش پر تھی۔ مثنیٰ ہکا بکا کھڑی اپنے خوبصورت لباس کو دیکھ رہی تھی۔ اماں جان خاموشی سے پاندان کھولے چھالیہ کترنے میں مصروف تھیں، ان کے انداز میں بیگانگی تھی، فیاض خاموشی سے بہن کو گرجتا دیکھ رہا تھا۔
”ارے بی بی! تمہاری ماں نے کچھ ڈھنگ نہیں سکھائے؟ اس طرح سرجھاڑ، منہ پھاڑ گھر سے نکلتے ہیں؟ یہ پیاز کے سے چھلکے کانوں میں اور گلے میں لٹکا کر آ گئی ہو اور ہاتھوں میں یہ دو دو چوڑیاں کیوں ہیں؟ تمہاری ماں نے جو تمہیں منوں کے حساب سے سونے کے زیورات دیئے ہیں وہ کہاں چھپا رکھے ہیں؟ کیا تمہاری ماں نے دکھانے کیلئے دیئے تھے واپس کر آئی ہو سب کچھ؟“
”آپی! وہ زیورات مثنیٰ اماں جان کے پاس رکھ چکی ہے اس کو عادت نہیں ہے بھاری زیورات پہننے کی، پھر اس لباس میں کیا خرابی ہے۔
“ فیاض کے لہجے میں ادب و لحاظ تھا مگر آصفہ کو پتنگے لگ گئے۔
”تم تو حمایت ہی لو گے، آخر کو جورو کے غلام جو ہوئے۔ مگر ہم سے یہ توقع مت رکھنا کہ ہم بھی تمہاری جورو کی غلامی کریں گے۔ اس کو تم اپنی پسند سے لے کر آئے اور ہم نے برداشت کیا یہ احسان مانو ہمارا، ہم اس کی یا اس کے باپ کی دولت کے رعب میں نہیں آئیں گے۔“ وہ مثنیٰ کو قہر آلود نظروں سے گھورتی ہوئی کہہ رہی تھیں۔
”کیسی باتیں کر رہی ہیں آپی آپ؟ میں نے شادی اماں کی اجازت سے کی ہے، نامعلوم کیا ہو گیا ہے آپ کو کیسے ورڈزیوز کر ہی ہیں؟“ فیاض خاصا پریشان ہو گیا تھا ان کے رویئے سے۔
”ہاں بھائی! اب تو ہماری باتیں بھی بری لگیں گی۔“
”ارے آصفہ! چپ ہو جاؤ کیوں کلیجہ جلاتی ہو آہ… اب اس گھر میں یہی ہوگا، لوگ بیٹیاں رخصت کرتے ہیں اور ہم نے بیٹا وداع کر دیا، تم دونوں بھی جاؤ یہاں سے کوئی نہیں جا رہا آصفہ کے سسرال۔
“ اماں نے سخت کبیدہ انداز میں کہا۔
###
سندر سپنا میرا تھا
اس میں عکس وہ تیرا تھا
غم کی کالی رات کٹی
اس کے بعد سویرا تھا
پیارا پیارا مکھڑا اس کا
روپ بھی اس کا سنہرا تھا
جذبے دلوں کے سچے تھے
پیار کا رنگ بھی گہرا تھا
ایئر پورٹ سے باہر ان کیلئے ایک شاندار کار کھڑی تھی باوردی ڈرائیور نے بے حد ادب سے انہیں سلام کیا تھا اور دروازے سے وا کئے تھے، ان کے بیٹھنے کے بعد دروازے بند کرکے وہ اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا تھا، کار کشادہ سڑک پر روانی سے دوڑنے لگی تھی، وہ پر اشتیاق نظروں سے عرب کے ان صحرائی راستوں کو دیکھ رہی تھی جہاں سورج کی روشنی میں ریت کے ذرات سونے کی مانند چمک رہے تھے بلند و بالا پہاڑوں کا طویل سلسلہ تھا۔
ہوا بگولوں کی صورت میں چل رہی تھی بہت خاموش و گرم موسم تھا۔
”کیسا لگ رہا ہے رخ!“ خاصی دیر بعد ساحر نے پوچھا۔
”مجھے اچھا لگ رہا ہے بہت سکون مل رہا ہے یہاں۔“ اس نے ساحر کی طرف دیکھتے ہوئے بے حد خوشی سے کہا۔
”ہوں… گھر والے یاد تو نہیں آ رہے ہیں تمہیں؟“ اس کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی س استفسار کیا۔
”نہیں… میں نے تم سے محبت کی ہے اور محبت میں قربانی دی جاتی ہے میں نے گھر والوں کو قربان کر دیا ہے تمہاری محبت میں۔
“ ملال کا کوئی رنگ، پچھتاوے کا کوئی احساس اس کی ذات سے جھلکتا نہ تھا اسے احساس تو صرف یہ کہ اس نے خواہشوں کے آکاش پر اڑان شروع کر دی تھی اس کو ابھی آگے جانا تھا۔
”بہت اونچائی پر… بے حد بلندی پر…
”ڈیٹس ویری گڈ۔“ وہ مسکراتا ہوا بولا، رخ محسوس کر رہی تھی، وہ جب سے کار میں بیٹھے تھے وہ اس سے فاصلہ کئے بیٹھا تھا۔ یہ فاصلہ ان کے درمیان اوّل روز سے قائم تھا، نکاح کے بعد بھی وہ اس سے محتاط انداز میں ملتا رہا تھا، ذرا بھی اس نے حق جتانے کی سعی نہ کی تھی البتہ وہ اکثر بے تکلفی سے ہاتھ تھام لیتا، شانے پر ہاتھ رکھ دیتا اور کبھی محبت سے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا تھا اور اب کار میں بیٹھنے کے بعد وہ اس کے انداز میں بہت محتاط روی دیکھ رہی تھی چند لمحے وہ اس کے انداز کو سمجھ نہ سکی پھر اسے خیال آیا شاید وہ ڈرائیور کی موجودگی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے یہ سوچتے ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی تھی۔
”یہ ڈرائیور تمہارا ہے؟“
”کوئی شک ہے تمہیں؟“
”مگر مجھے محسوس ہو رہا ہے وہ تمہارا باس ہے، تم اس کے باس نہیں ہو۔“
”کیا مطلب…؟“ ساحر از حد سنجیدہ تھا۔
”یہ ڈرائیور بے چارہ کسی روبوٹ کی طرح ادھر ادھر دیکھے بغیر گاڑی چلا رہا ہے اور تم اتنے محتاط بیٹھے ہو گویا اس کے سامنے تم نے میرا ہاتھ بھی پکڑ لیا تو گناہ ہو گا۔
“ اس نے بھی سنجیدگی سے احساسات شیئر کئے تھے۔
تھینکس گاڈ! یہ شوفر ہماری لینگوئج سے ناواقف ہے ورنہ تم نے میری عزت کا جنازہ ہی نکال دیا تھا۔“ وہ شوخ لہجے میں گویا ہوا تھا۔
”ایسی بھی کیا جلدی ہے ہم اب آزاد ہیں، کون ہے جو ہمیں ہماری آرزوؤں سے دور رکھ سکے گا۔“ اس نے تسلی دی۔
دن کی روشنی رات کی تاریکی میں بدلنے لگی تھی سفر تھا کہ تمام ہی نہ ہو کر دے رہا تھا، کئی گھنٹوں پر محیط اس سفر میں کئی مرتبہ سوئی اور جاگی تھی۔
”ساحر! یہ سفر کب ختم ہوگا آخر؟“ وہ اکتا کر گویا ہوئی تھی۔
”بس کچھ دیر صبر کرو میری جان! منزل بہت قریب ہے۔“