Episode 133 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 133 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

وہ تغافل سے لگاتا ہے نئے زخم مگر
دل کے زخموں و وہ گہرا نہیں ہونے دیتا
میری آنکھوں میں سجا دیتا ہے سپنے لیکن
کوئی سپنا بھی وہ سچا نہیں ہونے دیتا
دکھ سانجھا تھا… تڑپ ایک تھی… دونوں کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی۔ دادی کی زندگی… دادی کی صحت یابی کی… دادی کی تندرستی کی۔
دل پر کسی بے حد چہیتی ہستی کیلئے جدائی کی ضربیں پڑھ رہی ہوں تو درد کی شدت حد سے سوا ہو جاتی ہے کسی کے درمیان کتنا ہی لڑائی جھگڑا ہو ایسے میں سارا غبار از خود ہی رفع ہو جاتا ہے اور درد انہیں قریب کر دیتا ہے ان دونوں کے درمیان بھی گھمسان کی سرد جنگ چل رہی تھی۔
دونوں میں سے کوئی بھی سرنڈر کرنے کو تیار نہ تھا لیکن… دادی کی حالت نے ان کو ایک کر دیا تھا وہ تمام ذاتی عناد و چپقلش بھلائے قریب بیٹھے تھے وہ اس کے شانے سے سر ٹکائے بے اختیار روئے جا رہی تھی۔

(جاری ہے)

”پارس… پلیز سنبھالو خود کو ،دادی جان کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے ،ہماری دعائیں انہیں کچھ نہیں ہونے دیں گی ،وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔“ اس نے پری کا چہرہ اپنے شانے سے ہٹایا تھا نہ ہی رخ اس کی طرف موڑا تھا مگر اس کے انداز میں کوئی ترشی و خفگی کا تاثر بالکل نہ تھا اس کی آواز میں بھی وہ ہی درد و تڑپ تھی ویسا ہی سوز و تفکر تھا جو پری کی آواز میں پنہاں تھا۔
فرق تھا تو صرف آنسوؤں کا جو پری کے چہرے پر رم جھم کی طرح پھیلے ہوئے تھے اور اس کے دل میں اس طرح برس رہے تھے جس طرح کوئی ویرانے میں برستی بارش سے بے خبر رہتا ہے۔
صباحت ،عادلہ اور عائزہ کسی تقریب میں گئی ہوئی تھیں اور فیاض کو طغرل نے کئی بار کال کی اور ہر بار ہی ان کا سیل آف مل رہا تھا ویسے بھی وہ بزنس کے سلسلے میں مصروف ہوتے تھے تو سیل فون آف رکھتے تھے ،وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا۔
دادی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں موت و زیست کے درمیان جھول رہی تھیں۔ نامعلوم ایسا کیا صدمہ پہنچا تھا کہ دل بے وفائی پر کمربستہ دکھائی دے رہا تھا۔ سانسیں تھمنے اور زندگی کی دوڑ کمزور پڑنے لگی تھی۔ اندر باہر آتے جاتے ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کے سپاٹ چہروں پر ان کیلئے فی الوقت حوصلہ افزائی والی کوئی بات نہ تھی ،پہلے پہل طغرل ڈاکٹرز سے دادی کی کنڈیشن پوچھتا رہا تھا اور اب وہ بھی ساکت بیٹھ گیا تھا۔
اس کے دھیمے ہلتے ہونٹ دعاؤں میں مشغول تھے۔ مشینوں میں جکڑی آکسیجن کے ذریعے سانس لیتی دنیا و مافیہا سے بے خبر دادی کو وہ دیکھ کر آیا تھا تب سے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔ ہنستی مسکراتی ،نڈرو بہادر دادی کی بے بسی و بے کسی دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا پھر دوبارہ وہ اس طرف نہیں گیا تھا۔
پری کی منت سماجت کے باوجود اسے دادی کو دیکھنے نہیں دیا تھا کہ اس کو ادراک تھا وہ انہیں اس حالت میں دیکھ نہ پائے گی۔
صباحت اور عادلہ ،عائزہ کو گھر میں خیرون سے خبر ملی تو وہ فوراً ہی چلی آئی تھیں اور ان کی آمد کے کچھ دیر بعد ہی پریشان سے فیاض بھی آ گئے تھے ،طغرل کی زبانی ہی ان کو معلوم ہوا تھا۔ صباحت نے فون کرکے عامرہ اور آصفہ کو بھی باخبر کر دیا تھا ،رات تک سب وہاں جمع تھے اذکار و نوافل کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر چہرہ پریشان و آنکھ نم تھی ،دعاؤں کیلئے ہونٹ ہل رہے تھے پری کے آنسو خشک نہیں ہو رہے تھے ،عادلہ اور عائزہ کو بھی دادی کی سیریس حالت نے متفکر و پریشان کر دیا تھا وہ بھی ان کی زندگی کیلئے دعائیں مانگ رہی تھیں۔
”پری… میری بچی! بس اب چپ ہو جاؤ ،سارا دن ہو گیا ہے تمہیں روتے ہوئے ،تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی ،تم فکر مت کرو انشاء اللہ اماں جلد ٹھیک ہو جائیں گی ،تمہارے پاس ہی ہوں گی اماں۔“ آصفہ نے چپکے چپکے آنسو بہاتی ہوئی پری کو گلے لگاتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا اور خود بھی اس کے ساتھ آنسو بہانے لگی تھیں۔
”آپی! تم پری کو دلاسہ دینے کے ساتھ خود بھی حوصلہ ہار بیٹھی ہو ،پری نے پہلے ہی کیا کم اپنی حالت رو رو کر خراب کرلی ہے جو اب تم بھی رونے میں اس کا ساتھ دینے لگی۔
“ عامرہ زبان کی تیز تھیں تو ان کا حوصلہ و اعتماد بھی بے حدمضبوط تھا۔ غم ہو یا خوشی وہ موقعہ پر خود کو بڑی دانش مندی سے سنبھالا کرتی تھیں ،اس وقت بھی بڑی بہن کو حوصلہ ہارتے دیکھ کر نرمی سے ان کو علیحدہ کرکے گویا ہوئیں۔
”پھوپھو جان! میں دادی جان کے بغیر نہیں جی پاؤں گی۔“ پری سسکتی ہوئی ان کی آغوش میں سما گئی تھی۔
”انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا اماں جان کو ،تم ان کو ہنستا مسکراتا ہسپتال سے لے کر جاؤ گی۔
اماں ہم کو شاید چھوڑ بھی دیں مگر یہ یقین ہے وہ تم سے بے وفائی نہیں کر سکتیں۔ تمہیں چھوڑ نہیں سکتیں ،اماں نے تمہیں اس وقت نہیں چھوڑا تھا جب بھائی جان تم کو رکھنا نہیں چاہتے تھے ،تمہاری مما کے ہمراہ بھیجنا چاہتے تھے اس وقت وہ اماں ہی تھیں جنہوں نے تمہیں سینے سے لگایا تھا اور پھر ہم نے دیکھا تھا اماں نے جتنی محبت تم سے کی جس قدر خیال تمہارا رکھا اتنا پیار انہوں نے ہم سے بھی نہیں کیا تھا۔
“ دھیرے دھیرے اس کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ اس کو سمجھا رہی تھیں۔ آنسو ان کے بھی بہہ رہے تھے لیکن وہ ضبط کر رہی تھیں وہاں موجود عائزہ اور عادلہ کی بھی آنکھیں برس رہی تھیں اگر ان میں کوئی اطمینان سے بیٹھا تھا تو صباحت بیگم تھیں جو اس پریشان کن حالات میں بھی پری کو اپنی مخصوص سوتیلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں ،جس نے نندوں کو بھی اپنا ہمدرد بنا لیا تھا جو ایک عرصے سے اس سے نفرت کرتی آئی تھیں اور اب…
”چچا جان!“ طغرل تیز تیز چلتا اس طرف آیا۔
”چچا جان… دادی جان کو ہوش آ گیا ہے۔ ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔“ وہ فرط مسرت سے فیاض سے لپٹ کر بولا۔
###
اعوان کو باہر نکلتے دیکھ کر اسے اپنی عبرت بھری بربادی دکھائی دینے لگی جب کہ وہ حاجرہ کو جانور کی طرح مار کھاتا دیکھ کر انسانی ہمدردی کے جذبے سے لبریز آگے بڑھ رہا تھا اور ابھی وہ برآمدہ عبور کر نہیں پایا تھا کہ ماہ رخ بھاگ کر اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔
”پلیز اعوان! باہر مت جاؤ ،وہ حاجرہ کو معاف کر دے گا لیکن ہمارا جو انجام ہو گا اس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔“ اس کے ملتجی لہجے میں خوف و دہشت تھی اعوان رک کر حیرانی سے بولا۔
”وہ حاجرہ کو مار دے گا ،تم کو اس کی فکر نہیں ہے؟“
”وہ حاجرہ کو مار دے گا اور ہمیں ایسی سزا دے گا جس سے زندگی بھی پناہ مانگتی ہے وہ ہمیں مارے گانہیں اور جینے بھی نہیں دے گا۔
“ ماہ رخ کے لہجے کی وحشت میں قدرے کمی واقع ہوئی تھی کیونکہ باہر سے غفران احمر چلا گیا تھا حاجرہ بے ہوش پڑی تھی۔
”اگر حاجرہ مر گئی تو تم کو اس کے مرنے کا دکھ نہیں ہوگا؟ بہت پیار کرتی ہے وہ تم سے ،یہ بات میں نے شدت سے نوٹ کی ہے۔“ وہ دونوں کھڑکی سے باہر خاصے فاصلے پر گھاس پر بے سدھ پڑی حاجرہ کو دیکھ رہے تھے حاجرہ کے سبز سوٹ پر جابجا سرخ خون کے نشانات دکھائی دے رہے تھے وہ گٹھڑی سی بنی ہوئی تھی۔
”حاجرہ مر جائے گی۔“ وہ کھڑکی سے ہٹ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے ہذیانی انداز میں مسکرا کر گویا ہوئی ،اعوان کھڑا ہی رہا وہ خاصا مضمحل تھا۔
”حاجرہ مر چکی ہے… وہ زندہ ہی کب تھی اس محل میں رہنے والی ہر وہ عورت مری ہے جو اپنی مرضی و اختیار سے بے دخل کر دی گئی ہیں جن کو غفران احمر جیسے ہوس پرست گدھ مردار کر چکے ہیں۔“ وہ اس وقت ہوش و حواس سے کسی حد تک بیگانہ لگ رہی تھی۔
”حاجرہ مر جائے گی تو زندگی کی تکلیف دہ قید سے نجات مل جائے گی دعا کرو ہاجرہ مر جائے… ہاجرہ مر جائے یہاں کی زندگی سے موت بہتر ہے۔“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”میں تم کو مرنے نہیں دوں گا رخ!“ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا اس کا چہرہ ہاتھ سے پکڑتے ہوئے جذباتی انداز میں گویا ہوا۔
”تم کچھ حوصلہ کرو میں تمام انتظامات کر چکا ہوں تم کو یہاں سے لے جانے کے ،میں تمہیں یہاں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔
”نہیں نہیں… ایسی کوئی حماقت مت کرنا ،تم چلے جاؤ یہاں سے۔“ وہ سراسیمہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے گویا ہوئی۔
”آج بلکہ ابھی چلے جاؤ خدارا یہاں سے چلے جاؤ۔“
”ہرگز نہیں ،میں تم کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔“ وہ قطعیت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”تم کو جانا ہوگا اعوان!“
”تمہارے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا۔“
”یہ ضد کا وقت نہیں ہے۔
”میں ضد نہیں کر رہا ہوں۔“
”یہ ضد ہی تو ہے بلکہ بے وقوفی ہے میرے ساتھ ساتھ اپنی زندگی بھی خطرے میں ڈال رہے ہو۔“
”ایک بار غلطی ہو گئی تھی مجھ سے جو میں تم کو ساحر کے سہارے چھوڑ گیا تھا وہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے جو میں مرتے دم تک نہیں بھولوں گا۔“ وہ آبدیدہ ہو گیا تھا۔
”یہ اب لاحاصل باتیں ہیں ،مجھے اپنی خواہشوں کو حد سے زیادہ بڑھانے ،سب کو دھوکہ دینے کی سزا اسی طرح ملنی تھی ،تمہارا کوئی قصور نہیں ہے میں ہی احسان فراموش تھی ،جھوٹی و مکار ،ناشکری و حاسد مجھے میرے کئے کی سزا ملی ہے۔
“ وہ آنسو صاف کرتی ہوئی گویا ہوئی۔
”تم چلے جاؤ اعوان! مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے اب۔“
”ان حالات نے تم کو رخ بہادر و بڑے دل کا بنا دیا ہے تم نے کتنی آسانی سے مجھے معاف کر دیا ہے مگر میں خود کو معاف نہ کر سکوں گا۔ میں اتنا اعلیٰ ظرف و حوصلہ مند نہیں ہوں میری وجہ سے تم اس جہنم میں آئی ہو اور…“
”بحث مت کرو ،یہ عالی شان محل باہر سے جتنا خوبصورت ہے اندر اس کے اتنی ہی بھیانک کہانیاں سچائی کے لبادے اوڑھے چھپی ہوئی ہیں۔
یہاں کی بنیادوں میں نامعلوم کتنے ایسے لوگوں کی قبریں ہیں جو زندہ دفن کر دیئے گئے ہیں ،جن کے نام و نشان تک مٹا دیئے گئے ہیں۔“ وہ اس کی بات قطع کرکے سمجھانے لگی تھی۔
”تم کچھ بھی کہو تم کو میرے ساتھ جانا ہوگا ورنہ میں موت کو گلے لگا لوں گا ابھی۔“ اس نے پرعزم لہجے میں کہا۔
###
مسز عابدی کی طبیعت اب پہلے سے قدرے بہتر تھی لیکن وہ اپنی سنبھلتی بگڑتی طبیعت سے انجانے خوف و وسوسوں کا شکار ہو گئی تھیں اور اس بار قطعیت بھرے انداز میں وہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ شہر یار کو شادی کیلئے راضی کرکے ہی سکون سے بیٹھیں گی گو کہ اپنی اس دیرینہ خواہش کا تذکرہ وہ بار بار شہریار سے کر چکی تھیں وہ بھی وقتی ور پر ان کی ہاں میں ہاں ملایا کرتا تھا مگر نامعلوم کیوں شادی کیلئے سنجیدہ نہ تھا اور نہ ہی رشتے کی بات کرنے دیتا تھا۔
مسز عابدی نے اس کا حل یہ نکالا بیٹیوں سے صلاح و مشورے کے بعد عابدی سے بات کرنے کی ٹھانی اور آج موقع ملتے ہی وہ شہریار کی شادی کا تذکرہ نکال بیٹھیں۔
”شیری کی شادی کرنا چاہ رہی ہیں آپ؟“ وہ مسکرا کر مطمئن لہجے میں بولے۔
”آف کورس عابدی! کیا اب بھی میری آرزو پوری نہیں ہو گی؟ میری روز روز کی بیماریوں نے مجھے اس خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ شاید میں شیری کی شادی کی خوشیاں دیکھے بنا ہی مر جاؤں گی۔
“ ان کے لہجے میں یاسیت و محرومی نمایاں تھی عابدی صاحب نے بے ساختہ ان کی طرف دیکھا اور آگے بڑھ کر ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئے۔
”یہ بے حد اسٹوپڈ بات کی ہے نور جہاں! موت تو برحق ہے لیکن موت سے پہلے موت کا خوف زندگی کی خوشیوں کو نگل لیتا ہے۔“
”میں موت سے نہیں ڈرتی ،مگر اس وقت سے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہوں اگر خدا نخواستہ شیری کی خوشیاں دیکھے بغیر یہ دنیا چھوڑنی پڑ گئی تو میری روح کو قبر میں بھی سکون نہیں ملے گا۔
”اللہ نہ کرے جو ایسا وقت آئے ان تمام فضول سوچوں کو دل سے نکال دو ،انشاء اللہ تم شیری کے بچوں کی خوشیاں بھی دیکھو گی ،انکے نازو نخرے اٹھاؤ گی۔“ وہ شوخ انداز میں مخاطب ہوئے تھے۔
”اللہ آپ کی زبان مبارک کرے عابدی! آپ خدارا بابا کو فورس کریں وہ شادی کیلئے سنجیدہ ہو جائے اب مجھ سے گھر کی ویرانی برداشت نہیں ہوتی ہے۔ بہو کے آنے سے گھر میں بہاریں رقصاں ہو جائیں گی۔
“ وہ ان سے علیحدہ ہوتے ہوئے ملتجی لہجے میں کہہ رہی تھیں۔
”ہوں… آپ کی بے قراری دیکھ کر شیری سے بات کرنا ہی پڑے گی ،مگر اس نے کوئی ایسی لڑکی پسند کر رکھی ہو جو آپ کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو پھر کیا ہوگا؟“ عابدی کے ذہن میں یہ خیال اچانک بجلی کی مانند چمکا تھا۔
”آفٹر آل وہ عمر کا اہم حصہ امریکہ جیسے ملک میں گزار کر آئے ہیں پھر میں فیل کرتا ہوں شیری کی طبیعت میں وہاں کے ماحول کی آزادی اور بے باکی قدرے حلول کر گئی ہے جس کو ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔
میرے کہنے کا مقصد یہ شیری کی پسند…“
”ارے چھوڑیئے آپ اس بلاوجہ کی لمبی چوڑی تمہید کو میں اس کی اماں ہوں اس کی پسند سے اچھی طرح آگاہی ہوں ،یہ میں آپ کو بتا دوں شیری نے کوئی میم شیم پسند نہیں کی ہے وہ لاکھ آزاد و بے باک سہی مگر دل سے وہ مشرقی مرد ہے اور مشرقی لڑکی ہی اس کی پسند ہے۔“ مسز عابدی نے ان کا کوٹ ہینگ کرتے ہوئے مسرور لہجے میں کہا۔
”واہ بھئی ،ماں اور بیٹے میں یہ تمام باتیں شیئر ہو گئی ہیں اور مجھے لاعلم رکھ کر کہا جا رہا ہے شیری کو شادی کیلئے راضی کروں ،واؤ امیزنگ۔ بیگم صاحبہ! آپ اس مشرقی لڑکی کا نام بتائیں گی جس پر ہمارے برخوردار کا دل آیا ہے۔“ وہ بھی خاصے خوش و پر اشتیاق تھے۔
”ابھی آپ کو انتظار کرنا ہوگا۔“ وہ چڑاتے ہوئے باہر نکل گئیں۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط