Episode 119 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 119 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

پری خیرون کے ہمراہ کچن میں چائے بنانے کے ساتھ دوسرے لوازمات تیار کرنے میں مصروف تھی فاخرہ عائشہ کے ہمراہ عائزہ کو ساتھ لے جانے کیلئے آئی تھیں، وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے، پری آداب میزبانی کے خیال سے کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھ آئی تھی کہ ویسے تو ہر مہمان کیلئے ہی خاطر و تواضع کا اہتمام کرنا پڑتا ہے اور فاخرہ و عائشہ کیلئے خصوصی اہتمام اس لئے تھا کہ وہ شادی کے بعد پہلی مرتبہ اپنی بہو کو میکے سے لینے آئی تھیں۔

دادی کی ہدایت پر وہ چکن سے مختلف اسنیکس تیار کرکے فریزر میں رکھ چکی تھی جن کو اب آئل میں فرائی کر رہی تھی، بیکری کا سامان چوکیدار لینے گیا ہوا تھا تقریباً ہر چیز تیار ہو چکی تھی وہ نگٹس براؤن کرکے ڈش میں نکالتے ہوئے چائے تیار کرتی خیرون سے گویا ہوئی۔

(جاری ہے)

”تم جا کر ٹیبل پر برتن سیٹ کرو، میں ٹرالی میں سامان رکھ رہی ہوں۔“ خیرون گردن ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی تب ہی طغرل اندر داخل ہوا تھا۔
”واچ میں گیٹ پر نہیں ہے، کہاں گیا ہے وہ؟“ اس کا انداز خلاف معمول سنجیدہ تھا پری نے چونک کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”واچ مین نزدیک ہی مارکیٹ سے سامان لینے گیا ہے، آپ کیوں پوچھ رہے ہیں، کچھ ہوا ہے کیا؟“
”نہیں، ہوا تو کچھ نہیں ہے لیکن حالات کا تقاضا ہے الرٹ رہنا چاہئے، چور و ڈاکو تو موقع کی تاک میں ہی ہوتے ہیں، وہ موصوف گیٹ بھی لاک کرکے نہیں گئے ہیں میرے پش کرنے سے کھل گیا ہے۔
”اوہ یہ تو بہت خطرناک بات ہے آج کل ایسی وارداتیں تو عام ہو گئی ہیں، کوئی اور بھی آ سکتا تھا۔“ وہ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی خوف سے کانپ اٹھی تھی۔
”ڈونٹ وری! ہمارا سب سے بڑا نگہبان تو رب ہے ہم سب سے زیادہ بھروسہ اس پر ہی کرتے ہیں پھر یہ سب محض دنیا داری ہے یا اس کو سکیورٹی بھی کہہ سکتے ہیں میں تو محض فرائض کی ادائیگی کے خیال سے کہہ رہا تھا۔
“ وہ خوف سے اس کی رنگت اڑتے دیکھ کر مسکرا کر بولا۔
”میں یہ کہہ رہا تھا واچ مین کو اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے انجام دینی چاہئے۔“
”اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں ہے طغرل بھائی، وہ ایک ساتھ کئی کام انجام دے رہا ہے، وہ چوکیداری بھی کر رہا ہے، مالی کا کام بھی اس کے ذمہ ہے اور عموماً مارکیٹ سے کبھی سامان منگوانا ہو تو بھی اس کو ہی جانا پڑتاہے پلیز آپ دادی جان سے اس کی شکایت مت کیجئے گا میں خود سمجھا دوں گی، اگلی دفعہ وہ اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کرے گا۔
“ وہ ڈشیں ٹرالی میں رکھتی ہوئی پر اعتماد لہجے میں بولی تھی۔
”ہوں، سفارش کر رہی ہو یا حکم دے رہی ہو؟“ وہ ٹرالی سے چپس اٹھا کر منہ میں رکھتا ہوا شوخی سے بولا۔
”میں صرف آپ کو سمجھا رہی ہوں، آپ ڈائننگ روم میں چلیں سب لوگ وہیں موجود ہیں۔“ وہ اس کی شوخی نظر انداز کرکے کہنے لگی۔
”نو… میرا موڈ نہیں ہے کچھ کھانے کا لنچ لیٹ کیا ہے میں آج ولیمے میں نہ جا سکوں گا، تم کو آج کیلئے شاپنگ کرنی ہو تو ابھی چلو میرے ساتھ پھر میں لیٹ نائٹ ہی گھر آؤں گا۔
“ اس کے انداز میں اپنائیت و ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سا دل کو چھوتا ہوا مہکتا احساس تھا ایک ایسی فکر جو کسی چاہنے والے کے دل سے ہی پھوٹتی ہے ایک ایسی انسیت تھی جو روح کی پاکیزگی سے ابھرتی ہے۔ نمود سے پاک، ریا کاری و غرض سے مبرا، چاندنی کی طرح ٹھنڈی اور روشن بے اختیار اس کا دھڑکا تھا۔ بہت ہی انوکھا احساس ہوا تھا۔
”مجھے شاپنگ نہیں کرنی میں ممی کے پاس جاؤں گی ولیمے میں نہیں۔
“ وہ نگاہیں جھکاتی ہوئی آہستگی سے گویا ہوئی۔
”آنٹی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ تم جاؤ یا نہ جاؤ، تم بس اسی طرح خدمتیں کر کرکے ان کو باور کراتی رہو کہ تمہاری حیثیت صرف ملازمہ کی ہے، اسی لئے وہ تمہیں کوئی امپورٹنس دینے کو تیار نہیں ہیں۔“ اس کے مسکراتے لہجے میں یک دم ہی طیش ابھرا تھا۔
”آپ اس طرح باتیں مت کیا کریں، آپ کو کیا معلوم حقیقت کیا ہے؟“
”اوکے… پلیز ڈونٹ ویپ۔
“ وہ اس کی بھرآنے والی آواز پر گڑبڑا گیا۔
”میں تم کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، میں اپنے ورڈز واپس لیتا ہوں۔“ اس نے ایک لمحہ اس کو دیکھا اور کچن سے چلا گیا۔
###
حاجرہ نے اس کو وہاں سے بھاگنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ خود ساٹھ سالہ زندگی میں ایک بار بھی وہاں سے بھاگنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی پھر وہ بھلا ڈیڑھ سال کی مختصر مدت میں فرار کی راہ کس طرح تلاش کر سکتی تھی۔
”میں دیکھتا ہوں تم جب بھی مجھ سے دور جاتی ہو، بہت اداس و خاموش رہتی ہو ماہ رخ! تم مجھ سے دوری برداشت نہیں کر سکتیں؟“ وہ غفران احمر کے ساتھ آج پھر ایک مہم پر روانہ تھی، بروکیڈ اور شہنیل کے سوٹ میں اس نے ہلکی جیولری پہنی تھی، میک اپ بھی لائٹ تھا، البتہ ہونٹوں پر گہری سرخ رنگ کی لپ اسٹک اس کی سفید رنگت پر خوب کھل رہی تھی خوبصورت جوڑے میں اس کی صراحی نما گردن نمایاں تھی۔
اس کے برابر میں براجمان اس کے مخروطی ہاتھ تھامے غفران احمر سیاہ تھری پیس سوٹ میں بڑے کروفر سے بیٹھا اس سے لگاوٹ بھرے انداز میں پوچھ رہا تھا اس کی مکار معصومیت پر ماہ رخ کے دل میں نفرت و کراہیت کی شدید لہر اٹھی تھی اور دل چاہا تھا کہ اس کے بالوں سے بے نیاز گنجے سر پر سینڈل اتار کر مارتی چلی جائے اس کی چھوٹی چھوٹی سانپ جیسی آنکھوں کو پھوڑ دے۔
اس کو بتائے کس طرح اس جیسے ہوس پرست مردوں نے اس کی عزت آبرو، خود داری و نسوانی انا چھین لی ہے اس کو فاحشہ بنا کر کس بے دردی سے ذلت و اذیت کے بحر میں دھکا دے دیا ہے مگر یہ سب اتنا آسان کہاں تھا جو وہ اس سے کہہ پاتی؟ یہ سب محض سوچوں تک ہی ممکن تھا حقیقت تک رسائی ناممکن تھی اگر اس کی سوچوں کی سن گن بھی غفران احمر کو مل جاتی تو وہ اسے مارتا تو نہیں لیکن جینا بھی محال کر دیتا وہ فطرتاً ایک سخت گیر، بے رحم و لالچی شخص تھا۔
”شکر ہے آپ کو میرے دل کی حالت کا احساس تو ہوا، میرے جذبوں کی کشش آپ تک پہنچی۔“ وہ اٹھلا کر کچھ رنجیدگی کا ڈھونگ رچا کر بولی۔
”ماہ رخ! تم تو وہ شمع ہو جو ہر وقت ہمارے دل میں جلتی رہتی ہو۔“ غفران احمر اس کے چہرے کے حسین نقوش کو دیکھتا ہوا گھائل لہجے میں بولا اس کی اندر کو دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں ماہ رخ کے چہرے کو اس طرح محویت سے تک رہی تھیں گویا وہ پہلی بار اس کو دیکھ رہا ہو۔
”تب ہی آپ اس شمع کو دوسرے کے دل روشن کرنے کیلئے…“
”نہیں نہیں… ایسا مت کہو ماہ رخ!“ اس کے انداز میں اچانک ہی اضطراب اتر آیا وہ بے قراری سے گویا ہوا۔
”بخدا! میں کچھ عرصے سے اپنا دل تمہاری طرف کھینچتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں، تم کسی کے پہلو میں ہوتی ہو یہ سوچ کر میرے بستر میں کانٹے ابھر آتے ہیں اور میں سو نہیں پاتا۔
”اچھا پھر آپ مجھے کیوں کسی کے حوالہ کرنے جا رہے ہیں؟“ وہ اس کی طرف دیکھ کر تیکھے لہجے میں گویا ہوئی۔
”آخری بار ہاں میں نے فیصلہ کر لیا ہے آخری بار تم جا رہی ہو پھر میں تم کو خود سے خواب میں بھی جدا نہیں کروں گا۔ تم میرے محل کی رانی تو پہلے ہی ہو، اب میرے دل کی رانی بن کر رہو گی۔“
”خبیث بڈھے! ہر گاہک کے پاس چھوڑنے سے پہلے تو ایسی ہی چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے اور مطلب پورا ہونے کے بعد کسی چڑیا کی مانند اپنے اس سونے کے پنجرے میں بند کرکے نئے شکاری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔
“ذ وہ مسکراتے ہوئے نفرت سے سوچ رہی تھی۔
###
پری کے مثنیٰ کے پاس جانے پر صباحت نے سکھ کا سانس لیا تھا کیونکہ وہ اس کو عادلہ کی راہ کی رکاوٹ سمجھتی تھیں۔ شیری کا پری میں انٹرسٹ ان سے چھپا نہیں تھا گو کہ عادلہ پوری پلاننگ سے شیری کے دل میں پری کیلئے شک کا بیج بو چکی تھی اور شیری کسی حد تک عادلہ کو امپورٹنس دینے لگا تھا مگر یہ بھی وہ جان چکی تھیں کہ شیری کے دل میں ابھی بھی پری کیلئے نرم گوشہ موجود ہے۔
وہ اسی خیال سے اماں کی الماری کی چابیاں نکال کر لے آئی تھیں کہ وہ کل کو عام سا سوٹ پہن کر تیار ہو اور عادلہ کے مقابلے میں ذرا اچھی نہ لگے مگر قسمت نے پری کا ساتھ دیا اور وہ ان کی سوچ سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی، ہر نگاہ اس کو سراہ رہی تھی اور خصوصاً طغرل کی محتاط محبت بھری نظریں، شیری کی نگاہوں میں بھری دیوانگی و جنون خیزی نے انہیں پری سے سخت بے زاری میں مبتلا کر دیا تھا اور آج پری کو نانی کے ہاں جانے کی اجازت انہوں نے خود اماں سے دلوائی تھی اور اس کے جانے کے بعد انہوں نے مسز عابدی سے ولیمے میں شرکت کا اصرار کیا اور شہر یار بھی ان کے پرزور اصرار پر شرکت کرنے پر راضی ہو گیا تھا۔
عادلہ نے خوش ہو کر ماں کو گال چوما اور بولی۔
”آپ بہت اچھی ہیں مما! کمال کر دیا آپ نے، شیری کو راضی کر ہی لیا ورنہ مجھے تو وہ بہت نخرے دکھا رہا تھا، بہانے تراش رہا تھا نہ آنے کے۔“
”تم اپنی ممی کو جانتی نہیں ہو میری جان! میں جو چاہتی ہوں وہ حاصل کرکے ہی رہتی ہوں۔“ وہ بے حد خوش تھیں عادلہ کی طرف دیکھتے ہوئے بے حد نازاں انداز میں گردن اکڑا کر گویا ہوئیں۔
”ان اکڑے ہوئے مردوں کی گردنیں ٹھکانے پر لانا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔“
”ممی! پھر یہ گٹس مجھے بھی سکھائیں نا۔“
”ہوں ہوں، کیوں نہیں، میرا ہنر میری بیٹیوں کیلئے ہی ہے۔ ابھی تو تم بھی پارلر جاؤ گی اور میں بھی، بعد میں آہستہ آہستہ سب سمجھا دوں گی، تم نے دیکھا فاخر نے عائزہ کو کتنا قیمتی طلائی سیٹ رونمائی میں دیا ہے کم از کم پانچ تولے کا تو ہو گا، اپنی بچی کی طرف سے میں جتنی فکر مند تھی، وہ اتنی ہی خوش نصیب نکلی ہے۔
“ وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔
”گولڈ جیولری ہے ممی! فاخر بھائی چاہتے تو ڈائمنڈ جیولری دے سکتے تھے، اتنی ہائی لیول پوسٹ ہے پھر سیلری کتنی زبردست ہو گی۔“
”ہاں کہہ تو ٹھیک رہی ہو تم، ڈائمنڈز کی تو بات ہی الگ ہے، لوگوں کو بتانے میں بھی کتنا مزہ آتا ہے شاید فاخر کو یاد نہیں رہا ہوگا۔“
”ممی! ممانی جان نے منع کر دیا ہوگا وہ ابھی تک ان کو اپنے قابو میں کئے ہوئے ہیں اور پھر فاخر تو مجھے کچھ کنجوس ہی لگے ہیں۔
“ عادلہ نے آخری جملہ قدرے منہ بنا کر کہا۔
”ارے نہیں بھئی فاخر کنجوس ہرگز نہیں، ہاں بھابی جان نے منع کر دیا ہوگا ایک نمبر کی کنجوس و مکار عورت ہیں۔“
”چلیں اب تو ان سے جان چھوٹ رہی ہے فاخر بھائی عائزہ کی مٹھی میں ہوں گے، میں تو ان کے پیچھے ہی اسلام آباد روانہ ہو جاؤں گی وہاں سے پھر مری، بھوربن، نتھیا گلی وغیرہ کے وزٹ پر۔
”ہاں بھئی سب دل کے ارمان نکالیں گے، فاخر تو اب ماں کو بھول ہی جائے گا، عائزہ کو دیکھنا کیسے گر سکھاتی ہوں اس کو قابو کرنے کے۔“
###
”مما کس قدر کمزور ہو گئی ہیں آپ، کب سے بیمار ہیں اور آپ نے مجھے کال تک نہیں کی؟“ وہ ان سے لپٹ کر رو دی تھی۔
”ارے، اسی لئے آپ کو نہیں بلا رہی تھی تم پریشان ہو جاؤ گی، ہلکا سا بخار ہی تو ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا۔
“ مثنیٰ نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔
”نانو آپ نے بھی کال نہیں کی مجھے؟“
”کال کی تھی میں نے کسی ملازمہ نے بتایا وہاں شادی ہے اور آپ شاپنگ کیلئے گئی ہوئی تھیں اس خیال سے کہ آپ ڈسٹرب ہوں گی، میں نے کال نہیں کی، آج مثنیٰ کی طبیعت زیادہ ہی گھبرائی تو کال کی آپ کو، کس کی شادی ہوئی ہے وہاں؟“ عشرت جہاں اس کے قریب بیٹھ کر استفسار کرنے لگیں۔
”عائزہ کی شادی ہوئی تھی کل نانو! آج ولیمہ ہے۔“
”کل شادی ہوئی ہے لیکن آپ کے کسی بھی انداز سے نہیں لگ رہا آپ شادی والے گھر سے آئی ہیں‘ اتنی سادہ کہ ہاتھوں میں مہندی تک نہیں لگی ہوئی ہے آپ کے۔“ عشرت جہاں کے لہجے میں خاصی حیرانی و تعجب تھا، مثنیٰ بھی بیٹی کے چہرے سے مترشخ ہونے والی بے چینی سے کچھ اخذ کرنے لگی تھیں اور پری سچ و جھوٹ کے دوراہے پر کھڑی اس تذبذب کا شکار تھی کہ کوئی ایسی سبیل نکل آئے جس سے اس کو جھوٹ بھی نہ بولنا پڑے اور پورا سچ بھی ان کو بتانا نہ پڑے اور بات بھی بن جائے۔
”فیاض کے خاندان میں تو بہت دھوم دھام سے شادی کرنے کا رواج ہے اور پھر جس خاندان سے ان کی دوسری بیوی تعلق رکھتی ہے، وہاں تو شوبازی کو بڑی اہمیت حاصل ہے پھر شادی اتنی سادگی سے کیوں ہوئی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی؟“
”ممی اتنی سادگی سے بھی شادی نہیں ہوئی ہو گی، جتنا آپ سمجھ رہی ہیں سب ہی رسمیں ادا کی گئی ہوں گی۔“
”اچھا… مگر آپ پری کو دیکھ رہی ہیں ان کے مہندی تک نہیں لگی ہے ہاتھوں میں، ان کی تو بہن کی شادی تھی۔
”شادی ایک ہفتے کے اندر بالکل اچانک ہی ہوئی ہے نانو! وہ دراصل فاخر بھائی کی پوسٹنگ اسلام آباد ہو گئی ہے اور ان کو فیملی کے ساتھ جانا تھا پھر اتفاق یہ ہوا کے ان کی ممی پپا کا ویزہ لگ گیا وہ کئی ممالک کے وزٹ کے بعد حج کی ادائیگی کے بعد پاکستان آئیں گے انہوں نے پاپا سے بات کی اور پاپا بھی راضی ہو گئے، چند دنوں کے بعد وہ لوگ اسلام آباد شفٹ ہو جائیں گے۔
“ اس نے بے حد سوچ کر نانو کو تفصیل بتائی تھی، وہ بے حد غیور اور خود دار تھی۔
اس نے یہاں اور وہاں ایک توازن رکھا تھا یہاں کی کوئی بات وہاں کسی سے شیئر نہ کرتی تھی، وہاں کی بات بھی وہ کسی سے نہیں کہتی تھی۔ فیاض کی مخدوش مالی حالت، سوتیلی ماں اور بہنوں کے ناروا سلوک اور عائزہ کی وہ تمام رسوا کن حرکتیں وہ اپنے سینے دفن کئے ہوئے تھی اس کی رسوائی اسے اپنی رسوائی اپنے پاپا کی رسوائی لگتی تھی جس کا بھید وہ اپنی سگی ماں کو بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔
”اچھی بات ہے ان کی زندگی میں خوشیاں اسی طرح آئیں گی۔ ہراساں کرنے والی… تھکا دینے والی۔ وہ خوشی کو بھی خوشی کی طرح نہیں منا سکیں گے، پہلے اس گھر میں دلہن بننے کا حق میری بیٹی کا تھا پری اس گھر کی بڑی بیٹی ہے۔“مثنیٰ کے کمزور ناتواں لہجے میں ماؤں والا غم و غصہ در آیا تھا۔
”پلیز مما! اس طرح مت کہیں۔“ وہ آہستگی سے گویا ہوئی۔
”کیوں نہ کہوں پری! آپ کے پاپا کو ہی آپ کا خیال نہیں ہے پھر بھلا کسی اور سے شکایت کیوں کی جائے؟ بہت جلد میں آپ کی شادی کروں گی اور فیاض کو بتاؤں گی، پری کی ماں ابھی زندہ ہے اس کو بیٹی کا خیال نہیں ہے تو نہ ہو میں آپ کی شادی…“
”آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میں شادی کرنا چاہتی ہوں ممی؟“ وہ ان کی بات کاٹ کر سرد مہری سے گویا ہوئی۔
”کیا مطلب؟“ مثنیٰ کے ساتھ عشرت جہاں بھی چونک گئی تھیں۔
”میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی، یہ میرا فیصلہ ہے۔“ اس کے انداز میں اتنی قطیعت و بے نیازی تھی کہ چند لمحے وہ کچھ کہہ ہی نہ سکیں پھر کچھ توقف کے بعد عشرت جہاں گویا ہوئیں۔
”یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ بیٹا! شادی تو ہر لڑکی کو کرنا پڑتی ہے، تنہا رہ کر زندگی کس طرح گزاری جا سکتی ہے، ہزار طرح کی مشکلات ہوتی ہیں زندگی میں، آپ اس سوچ کو دل سے نکال دیں پری! جیون ساتھی کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔
”بہت ساری خوشیوں کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے نانو! مجھے ادھوری زندگی گزارنے کی عادت ہو چکی ہے آپ میری فکر مت کریں، یہ بتائیں ڈنر میں کیا بنوایا ہے آپ نے؟“ اس نے خوبصورتی سے موضوع بدلا تھا۔
”گرین کڑاہی اور موتی پلاؤ تیار کروایا ہے اور چکن اسٹیم ہو رہا ہے، خوبانی کا میٹھا اور آئس کریم ہے سویٹ ڈش میں۔ آج ہم تینوں بھی آپ کے ساتھ پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے۔“ عشرت جہاں نے بیٹی اور نواسی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط