Episode 142 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 142 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”ارے رو کیوں رہی ہو؟‘’‘ یہ تو خوش ہونے کا مقام ہے گھر بیٹھے پرابلم سولو ہو گئی ہے اس مصیبت سے جان چھڑانے کیلئے میں اور زینب کتنے خوار ہوئے ہیں کل بھی سارا دن ہم دونوں بہنیں لیڈی ڈاکٹرز کو دیکھتے پھر رہے تھے مگر مجال ہے ایک بھی ایسی ملی ہو جو ہمارے خاندان سے واقف نہ ہو کوئی ایک مڈ وائف تک ایسی نہ ملی جو ہمارا شجرہ نسب نہ جانتی ہو۔“ وہ کمبل میں منہ چھپائے روتی ہوئی عادلہ سے مخاطب ہوئیں جو حقیقت جاننے کے بعد روئے جا رہی تھی کل رات سے آج دوسرے دن تک اس کے سوگ میں کمی نہ آئی تھی صباحت نے زچ ہو کر زینب سے کہا۔

”بھئی زینی! تم ہی سمجھاؤ اس ضدی لڑکی کو میرا دماغ خراب ہو گیا ہے یہ سمجھ کر نہیں دے رہی ہے عجیب کوڑھ مغز لڑکی ہے یہ۔“
”عادلہ کیا بی ہیویئر ہے رات کس قدر پریشانی میں گزاری ہے ہم نے کچھ اس کا ہی احساس کرو کیوں ہمارے لئے پرابلمز کری ایکٹ کر رہی ہو؟“ زینب کے سرد انداز پر عادلہ نے کمبل سے چہرہ باہر نکالا اور بولی۔

(جاری ہے)

”اس بچے کے تھرو میں شیری کو شادی کرنے پر راضی کر سکتی تھی۔
کس طرح وہ مجھ سے شادی پر راضی ہو گا؟“
”میری بات غور سے سنو عادلہ!“ زینب بے حد سنجیدگی سے اس کے قریب بیٹھ کر گویا ہوئی صباحت بھی قریب ہی موجود تھیں۔
”شیری کو تم سے شادی کرنا ہوتی تو وہ شادی سے پہلے تم سے ایسے تعلقات قائم نہ کرتا تم کو اس حال میں تنہا نہ چھوڑتا پھر تم اب کن خوش فہمیوں کی دنیا میں گم ہو؟“
”یہ بات نہیں ہے آنٹی! شیری سیریس ہو رہا ہے اس نے سوچنے کیلئے ٹائم مانگا ہے اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔
”یہ یقین تو تمہارے اپنے لہجے میں نہیں ہے تم ہم کو کس طرح یقین دلاؤ گی؟ جس نے یہ کرنے سے پہلے نہیں سوچا وہ اب سوچے گا۔“
”یہی سمجھ تو مجھے نہیں آتی ہے اوپر سے یہ لڑکی میرا دماغ خراب کر رہی ہے وہاں اماں جان کو شک نہ ہو جائے۔ پہلے اس کی گھر سے دوری اب میں بھی کل سے یہاں رکی ہوں وہ سوچ تو ضرور رہی ہوں گی ایسی کیا بات ہے؟“ صباحت عادلہ کو گھورتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔
”یہ بات تو ہے آپ جائیں کہیں ایسا نہ ہو وہ صورت حال جاننے کیلئے یہاں پہنچ جائیں گے…!“ زینب دانستہ چپ ہو گئیں۔
”جب تک عادلہ مکمل تندرست نہیں ہوتی ہے تب تک تم اس کو کراچی سے باہر لے جاؤ۔ مجھے اماں جان اور فیاض سے بے حد خطرہ ہے۔“
”میں بھی یہی سوچ رہی ہوں آپی عادلہ کا میرے گھر رہنا خطرناک ہے۔ اماں جان کی نیچر کو میں بھی جانتی ہوں وہ چند دن مزید عادلہ کو گھر سے دور دیکھ کر برداشت نہیں کریں گی اور یہاں آ جائیں گی اور پھر ان کو فیس کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہوگا۔
”تم مری جانا چاہتی تھیں نا ایسا کرو مری چلی جاؤ عادلہ کو لے کر میں کہہ دوں گی تم سنو فال دیکھنے کیلئے مری گئی ہو ساتھ عادلہ کو بھی لے گئی۔“ صباحت نے جھٹ پٹ پروگرام ترتیب دے دیا تھا۔
”میں کہیں نہیں جاؤں گی مجھے کہیں نہیں جانا ہے۔“
”دیکھتی ہوں کیسے نہیں جاؤ گی؟ زیادہ میرا دماغ خراب کیا تو تمہارے سارے کرتوت اماں جان اور فیاض کو بتا دوں گی پھر دیکھتی ہوں؟“
###
”مسز عابدی نے رسٹ واچ دیکھتے ہوئے قریب کھڑے رجب سے کہا۔
”رجب بابا شیری کو جگائیں جا کر وہ ابھی تک اٹھے نہیں ہیں۔ آفس سے لیٹ ہو رہے ہیں وہ یہ ان سے ضرور پوچھئے گا ناشتے میں کیا لیں گے۔“
”جی بیگم صاحبہ ابھی جگاتا ہوں۔ بابا صاحب کو۔“ذ وہ کہہ کر چلا گیا پہلی ہی دستک پر اس کو اندر آنے کی اجازت مل گئی۔
”بابا صاحب! بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں آفس جانے کی دیر ہو رہی ہے۔“ وہ شیری کی طرف دیکھنے سے گریز ہی کرتا تھا اور جب سے اس نے تھپڑ کھایا تھا تب سے کچھ زیادہ احتیاط سے اس سے مخاطب ہوتا تھا۔
”ان سے کہہ دو آفس ہمارے ڈیڈ کا ہے ہم کبھی بھی جائیں مرضی ہے ہماری کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا مجھ کو۔“ اس کا لہجہ شوخ تھا مگر بے چارہ ملازم اس حد تک اس کے رعب میں رہتا تھا کہ شوخی تو کیا محسوس کرتا الٹا کانپتے لہجے میں بولا۔
”جی… جی… صاحب میں کہہ دیتا ہوں۔ آپ… آپ ناشتے میں کیا لیں گے بیگم صاحبہ پوچھ رہی ہیں؟“
”کافی… کافی لیں گے… صرف کافی۔
”جی بابا صاحب میں ابھی تیار کرتا ہوں۔“ وہ واپس چلا گیا۔ وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس ابھی بھی بستر پر نیم دراز تھا۔ اس کی خمار آلود آنکھوں میں عجیب سی شکاریوں والی چمک تھی۔ وہ وحشی انداز میں مسکرا رہا تھا۔
کل کا سارا منظر اس کے ذہن کی اسکرین پر روشن تھا اس نے ہی عادلہ کو سی سائیڈ بلایا تھا وہاں اس کا ذاتی ہٹ تھا وہ پہلے بھی وہاں کئی دفعہ ٹائم اسپنڈ کر چکے تھے مگر کل وہ الجھے معاملے کو سنبھالنے کیلئے عادلہ کو لے گیا تھا لیکن عادلہ اس کی توقع سے بڑھ کر چالاک ثابت ہوئی تھی وہ کسی بھی طرح بھی اس معاملے کو کلین کرنے پر راضی نہ ہوئی تھی وہ اپنی پریگنینسی کو بلینک چیک کی طرح اپنی مرضی سے کیش کرانے کی پلاننگ کئے بیٹھی تھی۔
شیری اس سے کسی قیمت پر بھی شادی کرنے پر تیار نہ تھا اور سچائی تو یہ تھی کہ وہ بھی ان لمحات سے شرمسار نہ تھا جو اس کو جذبات کی اس انتہاؤں پر لے گئے جہاں سے واپسی گٹھن ہوتی ہے یہ راہیں اس کیلئے اجنبی نہیں تھیں مگر عادلہ اس کا ہدف ہرگز نہ تھی مگر یہاں قصور عادلہ کی پیش قدمی کا تھا اس کی رضا مندی کا تھا۔
”میں نے بہت ٹرائی کی تم کسی طرح راضی ہو جاؤ لیکن عادلہ! تم تو ایک پلاننگ کرکے میرے پاس آئی تھیں۔
تم نے الٹی چال چلی لوگ بچے کیلئے شادی کرتے ہیں اور تم نے شادی کیلئے بچہ کا سپورٹ لینا چاہا اور دیکھو میں نے وہ سہارا ختم کر دیا تمہارا۔“ اس کی کاٹ اور مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی وہ تصور میں عادلہ سے مخاطب تھا اس کی آواز برتری و کامیابی کے غرور سے بلند ہو گئی تھی۔
”اوہ مائی پور گرل! تمہاری ہٹ دھرمی اور مکاری دیکھ کر میں سمجھ گیا تم میری بات نہیں مانو گی تم ٹیبلٹس نہیں کھاؤ گی سو مائی ڈیئر! تمہیں بتائے بغیر وہ ٹیبلٹس میں نے تمہاری کافی میں ایڈ کر دی تھیں ہا ہا ہا… اب تک تم کو معلوم ہو گیا ہوگا میری ڈگری جعلی نہیں ہے۔
“ وہ اپنی جیت کے جشن میں ہنس رہا تھا۔
”اس کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ مسز عابدی جو اس سے ناشتہ کا پوچھنے آئی تھیں۔ اس کی ایک ایک بات سن چکی تھیں اور سکتے کے عالم میں بے ہوش ہو کر کارپٹ پر ڈھیر ہو گئیں۔
###
”پری محبت بار بار دستک نہیں دیتی تم تو بہت خوش نصیب ہو جو طغرل بھائی تمہاری ہر زیادتی کے بعد بھی تم سے بددل نہیں ہیں وہ اب بھی تم سے محبت کرتے ہیں اور تم ہو ایک نمبر کی کٹھور ان کی طبیعت پوچھنا تو درکنار بات تک نہیں کر رہی ان سے۔
“ عائزہ نے موقع پاتے ہی اس کو سمجھانے کی سعی کی۔
”بات کر تو رہی ہوں اور کس طرح بات کروں ان سے؟“
”وہ تو دادی کے سامنے اکا دکا بات کر لیتی ہو۔“
”میں اسی طرح بات کرتی ہوں خیر اس ٹاپک کو چھوڑ یہ بتاؤ تم کب تک اس طرح یہاں رہو گی؟ فاخر بھائی کو تم نے بالکل چھوٹ دے دی ہے اگر ان کو تم سے تمہاری نادانیوں کا بدلہ ہی لینا تھا تو وہ دوسری شادی کرکے لے چکے ہیں۔
اب ان کو تمہارا قصور معاف کر دینا چاہئے۔ تم کو اسلام آباد بلا لینا چاہئے۔“
”کیوں… کیا تم لوگ میرا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہے ہو؟ کسی نے کچھ کہا ہے میرے بارے میں؟“ وہ ڈسٹرب ہو گئی تھی۔
”کسی نے زبان سے کچھ نہیں کہا لیکن میں محسوس کر رہی ہوں پاپا تم سے بات نہیں کرتے مگر میں ان کی آنکھوں میں فکر دیکھتی ہوں دادی تو اکثر یہی کہتی ہیں اللہ جانے کیا معاملہ ہے جو فاخر لینے نہیں آیا۔
“ عائزہ کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا تھا۔
”وہ کسی کی کال ہی ریسیو نہیں کر رہے… وہ بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔“
”ہوں ڈونٹ وری میں بھی کیا بات لے کر بیٹھ گئی ہوں پلیز تم اداس مت ہو کبھی نہ کبھی فاخر بھائی کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہو جائے گا۔“ عائزہ کو اداس دیکھ کر پری کو شدید دکھ کا احساس ہوا تھا۔
”معلوم نہیں مگر میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے میرا رب جو فیصلہ کرے گا وہ مجھے قبول ہوگا۔
“ وہ دھیمے سے مسکرا کر بولی۔
”اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔“
”ارے ہاں پری تمہاری نانو اور مما کب آ رہی ہیں عمرے سے؟“ وہ یاد آنے پر چونک کر گویا ہوئی تھی۔
”اسی ہفتہ میں آ جائیں گی رات کو مما کی کال آئی تھی۔“
”تم شاپنگ پر جانے کا کہہ رہی تھیں پھر چلتے ہیں نا۔“
”اوہو… ابھی نہیں کل چلیں گے دادی سے اجازت نہیں لی نا۔
”دادی سے اجازت لینے میں کیا ٹائم لگتا ہے پری میں پوچھ کر آتی ہوں۔ تم اسی طرح بہانے بناتی رہنا شاپنگ کا شوق نہیں ہے تمہیں۔“
”اور تم کو کریز ہے شاپنگ کا صرف موقع ملنا چاہئے۔“
”کون جا رہا ہے شاپنگ؟“ کوریڈور سے نمودار ہوتے رسٹ واچ باندھتے ہوئے طغرل نے پوچھا۔
”ان میڈم کو جانا ہے مگر ان کو شاپنگ کرنا اچھا نہیں لگتا۔
“ وہ پری کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی جبکہ پری طغرل کو دیکھ کر کنفیوژ ہو گئی تھی وہ ہنی کلر پینٹ کوٹ میں خوشبوؤں میں بسا خاصا اسمارٹ لگ رہا تھا اور کنکھیوں سے پری کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
”کچھ لوگوں کو اچھی چیزوں کی عادت نہیں ہوتی ہے نا۔“
”ارے طغرل بھائی! آپ یہ ان ڈائریکٹ بات کیوں کر رہے ہیں؟ ڈائریکٹلی بات کریں کیا خوفزدہ ہیں آپ پری سے؟“ عائزہ قدرے سر جھکائے بیٹھی گھبرائی گھبرائی پری کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی۔
”خوفزدہ لوگوں سے… بھلا میں کیوں خوفزدہ ہونے لگا؟“ اس نے مسکراتے ہوئے شانے اچکائے۔
”یہ طغرل بھائی کے آتے ہی تم کہاں جا رہی ہو؟“ وہ ہاتھ پکڑ کر بولی۔
”دادی جان کی میڈیسن کا ٹائم ہو گیا ہے ہاتھ چھوڑو میرا۔“ وہ اس سے ہاتھ چھڑاتی ہوئی گویا ہوئی۔
”میں دے دیتی ہوں دادی کو میڈیسن تم یہاں بیٹھ کر طغرل بھائی سے باتیں کرو دادی کی خدمت کا موقع ہم کو بھی دیا کرو کبھی۔
”تم کو نہیں معلوم کونسی میڈیسن اس ٹائم دینی ہے۔“ وہ طغرل کی تپتی نگاہوں کی حدت اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی۔ وہ کوشش کے باوجود اس کی موجودگی میں خود کو سنبھال نہ پا رہی تھی۔
”میں نے بھی تمہاری طرح ماسٹر کیا ہے کچھ انگلش مجھے بھی آتی ہے میں دیکھ لوں گی۔ اس ٹائم دادی جان کو کون سی میڈیسن دینی ہے۔“ وہ کہہ کر سرعت سے وہاں سے چلی گئی۔
”عائزہ… عائزہ… میری بات سنو… پلیز۔“ وہ اسے پکارتی رہ گئی اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ وہ جاتے جاتے رک گئی راستے میں طغرل ایستاد تھا۔ دونوں بازوؤں کو سینے پر باندھے بے حد سنجیدگی سے اس کو دیکھ رہا تھا۔
”کیا چاہتی ہو تم… کتنا مجھے میری نگاہوں سے گراؤ گی؟ شاید تم مجھے زندہ دیکھنا ہی نہیں چاہتی ہو پارس۔“ وہ اسے دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بھاری لہجے میں بولا۔
”میں… میں نے کیا کہا ہے آپ کو اب؟“
”ہر بات زبان سے بھی نہیں کہی جاتی۔ ہمارا رویہ اور برتاؤ ہماری محبت ہماری نفرت و بے گانگی کو ظاہر کر دیتا ہے۔“
”آپ کیوں میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں طغرل بھائی! میں وہ لڑکی نہیں ہو جو آپ کی زندگی میں شامل ہو کر آپ کو بہتر زندگی کا سکون دے۔“ وہ اس کی طرف دیکھے بنا رو دی تھی۔
”میں تم سے صرف اقرار چاہتا ہوں پارس تم کو صرف میری بننا ہے کسی دوسرے کا نام بھی میں تمہارے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا یہ سن لو تم۔
“ اس کے چہرے پر غصے کی حدت سرخی بن کر چھانے لگی تھی پری نے لمحے بھر کو اس کی تپتی نگاہوں میں دیکھا تھا۔ اس کی روشن براؤن آنکھوں میں اسے اپنا عکس بہت واضح و مکمل دکھائی دیا تھا۔
”ایک بار میری محبت پر بھروسہ کر لو پارس تمہیں زندگی سے عشق کرنا سکھا دوں گا تمہارے تمام گلے شکوے جو زندگی سے ہیں وہ سب بھلا دوں گا۔“ وہ اس کے قریب آ گیا تھا اس کی آواز میں کانوں میں رس گھولنے والی گمبیھرتا تھی۔
ایک درد تھا ایک سوز تھا۔ پری کے دل کی دھڑکنیں ایک نئے و انوکھے سروں میں دھڑکنے لگی تھیں۔ ایک البیلا سا سرور تھا جو کسی نشے کی طرح اس کی رگ رگ میں اترنے لگا تھا۔
”تم خاموش کیوں ہو پارس کچھ تو کہو کوئی بات کرو مگر کوئی ایسی بات نہیں کرنا جو میں برداشت نہ کر پاؤں پلیز ٹیل می؟“ وہ جذبات کی رو میں بہت آگے نکل گیا تھا پری کی مستقل خاموشی نے اس کو چونک کر واپس آنے پر مجبور کر دیا تھا۔
”میں تم سے بات کر رہا ہوں ”ہواؤں سے نہیں یار۔“
”یہ اچھی زبردستی ہے کوئی محبت کا اقرار بھی اس طرح کرواتا ہے۔“ وہ دھیمے سے مسکرا کر گویا ہوئی طغرل نے اس کے بدلتے ہوئے لب و لہجے پر چونک کر اس کی طرف دیکھا اس کے خوبصورت چہرے پر اقرار محبت کی لالی پھیلی ہوئی اس کے سندر مکھڑے کو مزید دلکش کر گئی تھی طغرل اس کا ہاتھ تھامنا ہی چاہتا تھا کہ وہ تیزی سے اندر کی طرف بھاگ گئی اور پیچھے طغرل کا بڑا جاندار قہقہہ گونجتا سنا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط