Episode 81 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 81 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

وہ دوازہ تھا…
اس کیلئے وہ دروازہ ایک دھماکے سے کھلنا گویا صور اسرافیل پھونکنے کے مترادف تھا۔ وہ بے ساختہ چیختی ہوئی بیڈ پر چڑھ گئی تھی۔ کیونکہ دو بلیاں خونخوار انداز میں لڑتی ہوئی عین اس کے دروازے پر گری تھی اور ان کے بوجھ سے دروازہ زور دار آواز میں وا ہوا تھا۔ بلیاں اٹھ کر بھاگ چکی تھیں اور وہ بری طرح دھڑکتے ہوئے دل کو پکڑے کئی لمحوں تک کھلے دروازہ کو دیکھتی رہی تھی۔
خاصی دیر وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی رہی، چند لمحوں قبل جو کچھ بھی ہوا وہ اسے خوف سے ادھ موا کر چکا تھا۔ خوف نے اس کی قوت ہی سلب کر لی تھی۔ وہ سمجھی تھی گلفام آ گیا ہے۔
گلفام آتا تو پھر کچھ نہیں بچتا اس کے چہرے کی سیاہی کالک بن کر اس کے مقدر پر چھا جاتی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے وہ رانی سے نوکرانی بن کر رہ جاتی اپنی ماں اور چچی کی طرح اسی بوسیدہ گھر میں قید ہو جاتی اور خواب صرف خواب ہی بن جاتے کبھی تعبیر نا پانے کیلئے۔

(جاری ہے)

”افوہ کیا مصیبت ہے یہ آج سوچیں مجھے کیوں اتنا جکڑ رہی ہیں۔ مجھے ان کے قریب میں نہیں آنا ان ساری زنجیروں کو توڑ کر جانا ہے۔“ وہ سر جھٹک کر اٹھی تھی۔
سینڈل پہن کر چندری دوپٹے کورسی کی طرح شانے پر ڈالا اور بہت پرسکون انداز میں وہ قدم بہ قدم اس گھر سے دور ہوتی چلی گئی پھر بھی اس کا دل نہ تڑپا تھا۔
جس گھر میں اس کو بے تحاشا پیار ملا تھا… جہاں وہ اپنی اپنی من مانی کرتی تھی، اس کو کچھ بھی ملا نہ تھا۔
کوئی رشتہ، کوئی محبت لمحے بھر کو بھی اس کے پاؤں نہ ڈگمگا سکی تھی وہ زمین پر نہیں گویا اس کے دلوں پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھتی چلی گئی، بڑھتی چلی گئی۔ سڑک پر ساحر کار لئے کھڑا تھا اسے دیکھ کر قریب آکر گویا ہوا۔
”تم آ گئیں۔“ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چاہت سے گویا ہوا۔
”ہاں، ہمیشہ کیلئے آ گئی ہوں سب کو چھوڑ کر۔“
###
”ڈیڈی کی طبیعت کیسی ہے بھابی؟“ پری تمام گفٹس لے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
جب لاؤنج سے آتی طغرل کی پریشانی کن آواز سن کر ٹھٹک کر کھڑکی سے قریب ہی رک گئی تھی۔
”ڈونٹ وری آپ پریشان مت ہوں۔ مما اور میں آ رہے ہیں ڈاکٹرز سے میں خود بات کر لوں گا آپ پریشان نہ ہو میں آ رہا ہوں۔“ چند لمحوں تک وہ بھائی کو تسلی و دلاسہ دیتا رہا تھا۔
”یا اللہ تاؤ جان کو کیا ہوا ہے؟“ طغرل کی آواز سے لگ رہا تھا وہ بے حد پریشان ہے اس کے دل میں عجیب عجیب وسوسے جنم لینے لگے اس نے ہاتھوں میں پکڑے گفٹس، قریبی ایک کارنر پر رکھے تھے اور اندر گئی تھی۔
”طغرل بھائی، تاؤ کو کیا ہوا ہے؟“ وہ اس کی لرزتی ہوئی آواز سن کر دیکھنے لگا تھا۔ اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ نامعلوم ضبط سے تھیں یا نیند کی کمی کے باعث سرخ و اداس آنکھیں جن میں کچھ کچھ نمی سی چمک رہی تھی۔ اس کے خوبصورت بال بے ترتیب تھے۔ شیو بھی بڑھی ہوئی تھی۔ وائٹ کرتا سوٹ میں اس کی حالت بہت رنجیدہ بکھری بکھری سی تھی۔
”طغرل بھائی! بتائیں نا پلیز تاؤ کو کیا ہوا ہے؟“ وہ پہلی دفعہ اس کے قریب بیٹھی تھی اور شانے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
”ہاں، آں… کچھ نہیں… کچھ بھی تو نہیں ہوا ڈیڈی کو۔“ وہ جو سب کو سوتا ہوا سمجھ کر بھائی کو کال کرنے بیٹھ گیا تھا اب سامنے پری کو دیکھ کر اس کو دھچکا لگا تھا بڑی مشکل سے خود کو سنبھال پایا تھا۔
”جھوٹ مت بولیں طغرل بھائی میں نے سب سن لیا ہے۔
“ وہ کسی بھی لمحے رونے والی تھی۔
”پلیز بتائیں نا، خاموش کیوں ہیں کیا ہوا ہے تاؤ کو؟“
”میں تم پر اعتماد کر سکتا ہوں پارس! اس حادثے کی خبر میں نے یہاں کسی کو بھی نہیں دی ہے ڈیڈی بے حد دور ہیں اور اس کی خبر سب کو ہو گئی تو یہ فاصلے دلوں پر بہت گراں گزریں گے۔“ وہ بے حد بدلا ہوا تھا۔
لہجہ بہت دھیما تھا گہری سنجیدگی تھی اس کے انداز میں اس کی یہی سنجیدگی اور دگرگوں حالت اس کو متوحش کر رہی تھی۔
”تاؤ ٹھیک ہیں کیا ہوا ہے انہیں، کہاں ہیں وہ؟“ آنسو تیزی سے اس کے رخساروں پر بہنے لگے تھے۔ طغرل کے شانے پر رکھے اس کے ہاتھ میں لرزش بڑھ گئی تھی۔
”ریلیکس پارس! ڈیڈی ٹھیک ہیں ان کا معمولی نوعیت کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا ہے چند دن قبل وہ اب بہتر ہیں۔“
پری کو بتاتے وقت اس نے اپنے لہجے کو نارمل رکھنے کی سعی کی تھی تاکہ وہ پریشان نہ ہوں لیکن وہ احساسات سے بنی لڑکی تھی دوسروں کا دکھ محسوس کرنے والی تھی، پھر یہ تو اس کے تایا تھے جنہوں نے دل و جان سے اس سے محبت کی تھی۔
فیاض نے اب کچھ کچھ اس کے سر پردست شفقت رکھا تھا اور تاؤ نے بچپن سے اس کو باپ کی طرح محبت دی تھی ان کی تکلیف وہ اپنے دل میں محسوس کرنے لگی تھی۔
”وہ بہتر نہیں ہیں طغرل بھائی، میرا دل کہتا ہے وہ بہتر نہیں ہیں۔“ اس نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونا شروع کر دیا تھا۔
”خود کو سنبھالو پارس! تم اس طرح روتی رہیں تو باہر آواز جائے گی اور سب کو معلوم ہو جائے گا جو میں نہیں چاہتا۔
وہ اس کو اس طرح سے روتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گیا تھا مگر وہ تو گویا سماعت سے عاری ہو گئی تھی کچھ سنائی دے رہا تھا نہ دکھائی اس کی نگاہیں ان مناظر پر دوڑ رہی تھیں۔ جن میں تاؤ اپنی پروقار و شفیق شخصیت کے ساتھ موجود تھے۔ بے شمار مناظر تھے جن میں وہ اسے پیار کر رہے تھے۔ ٹافیاں دے رہے تھے وہ ان کی گود میں تھی تو کہیں شانوں پر، کہیں آئسکریم کھاتے ہوئے تو کہیں فٹ بال کھیلتے ہوئے تیزی سے مناظر بدل رہے تھے۔
وہ گاہے بگاہے آتے رہتے تھے اور ہر بار ہی ان کی محبت اس کیلئے بڑھی ہوئی ہوتی تھی پچھلے سال وہ آئے تھے۔ ہمیشہ کی طرح وہ ان کی آمد پر خوش اور جانے پر رنجیدہ تھی۔
”پارس پلیز، مت روؤ تم نے یہ سب کو بتا دیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ فیملی میں ٹینشن پھیل جائے گی۔“
وہ چہرے سے اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا نرمی سے گویا ہوا تھا۔
”تم یہاں سب کو پریشان ہوتا ہوا دیکھ سکتی ہو؟“
”پریشان بھی تو اپنوں کیلئے ہوا جاتا ہے جو پریشان ہوتے ہیں وہ دعائیں بھی تو کرتے ہیں۔
دوا کے ساتھ دعا کی بھی تو ضرورت ہے طغرل بھائی۔“ وہ بھیگے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں مانتا ہوں ان باتوں کو دعا پر دوا سے زیادہ یقین بھی ہے مجھ کو لیکن کچھ لوگ ہمیں اتنے عزیز ہوتے ہیں کہ ہم ان کو رتی بھر بھی دکھ دینا نہیں چاہتے۔ دادی کی حالت دیکھی ہے تم نے؟ وہ کس طرح یہ دکھ برداشت کر سکیں گی، فیاض انکل کو نامعلوم دن بہ دن کیا ہوتا جا رہا ہے۔
وہ کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ میں ان سے بھی یہ شیئر نہیں کر سکتا وہاں جا کر ڈیڈی کی حالت بہتر ہوتے ہی انکل کو انفارم کر دوں گا۔“
خوشیاں شاید کبھی ایک دوسرے کو قریب کرنے کا باعث نہیں بنتی ہوں۔ دکھ ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب کر دیتا ہے۔ کل تک وہ اس شخص کی پرچھائیں سے بھی نالاں تھی اور آج وہ اس کے قریب بیٹھی تھی۔ رو رہی تھی۔
اس کا دکھ اسے اپنا دکھ محسوس ہو رہا تھا۔
اس کے آنسو رخساروں پر بہہ رہے تھے اور طغرل کے آنسوؤں سے دل جل تھل ہو رہا تھا۔ مرد اور عورت کے آنسوؤں میں یہی فرق ہوتا ہے وہ رونا بھی چاہے تو آنسو آنکھوں میں جم جاتے ہیں۔
”وعدہ کرو مجھ سے میرے جانے کے بعد کسی کو نہیں بتاؤ گی، کسی کو ذرا بھی محسوس نہیں ہونے دو گی ڈیڈی کے ایکسیڈنٹ کے بارے میں۔
”یہ کس طرح ممکن ہے؟“ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے گویا ہوئی۔
”ممکن ہے پارس! تم اسے ممکن بنا سکتی ہو، تم ڈیڈی کیلئے دعا کر سکتی ہو، تمہاری دعائیں ان کو زندگی کی طرف سے آئیں گی۔ وہ خود یہاں آئیں گے تمہارے پاس سب کے پاس بس تم ہمت سے کام لینا۔“
اس کا لہجہ نرم نرم گرتی پھوار کی مانند تھا وہ اس کے قریب بیٹھا تھا اور اس کے ملبوس سے پھوٹتی پرفیوم کی مہک اس کا احاطہ کئے ہوئے تھی اور اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
اگر احساس تھا تو اس دکھ کا جو ان دونوں کا مشترکہ تھا فراز کو ان دونوں سے یکساں محبت تھی۔
###
صباحت نے عادلہ کی طرف دیکھا تھا وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی اس نے ان کی موجودگی کو گویا محسوس ہی نہیں کیا تھا اور صباحت فکر مندی سے اس سے گویا ہوئی تھیں۔
”عادلہ میں نوٹ کر رہی ہوں کچھ دنوں سے تم بہت بجھی بجھی سی رہتی ہو کوئی پرابلم ہے کیا میری جان؟“
”پرابلم۔
“ اس نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا۔
”مما! آپ عائزہ کی شادی جتنی جلد ہو سکے کر دیں۔“
”عائزہ کی شادی، تمہیں کیوں بیٹھے بٹھائے عائزہ کی شادی کی فکر ستانے لگی؟ کیوں پھر تم دونوں کا جھگڑا ہوا ہے کیا؟“
”میں چاہتی ہوں اس کی جلد از جلد شادی ہو جائے۔“
”تمہارے چاہنے سے کیا ہو گا بیٹا؟ شادی باتوں سے نہیں ہوتی ہے نوٹوں سے ہوتی ہے جو تمہارے پاپا کے پاس نہیں ہیں۔
وہ حسب عادت بے پروائی سے گویا ہوئی تھیں ہمیشہ کی طرح انہوں نے بات کی گہرائی کو سمجھنے کی سعی نہ کی تھی کہ عادلہ اچانک کیوں عائزہ کی شادی کا ذکر کر رہی ہے اس کا اتنا سنجیدہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے اس کی بے پروا و غیر محتاط طبیعت کے باعث عائزہ ان کی ناک کے نیچے عشق کا کھیل کھیل رہی تھی اور وہ ایک بار اتنا بڑا دھوکا کھا کر بھی حواسوں میں نہ لوٹی تھی۔
”آپ کوشش تو کریں مما!“
”خاک کوشش کروں؟ مجھے معلوم ہے فیاض کسی طور نہ مانیں گے۔ انہوں نے تو ابھی تک فاخر کو منگنی کی انگوٹھی نہیں پہنائی ہے تو وہ شادی کیلئے خاک پیسہ دیں گے۔ عجیب کنجوس آدمی سے واسطہ پڑا ہے میرا۔“ وہ حسب عادت اپنے دکھڑے رونے بیٹھ گئی تھیں۔
”ساری محبت اور ساری دولت وہ اس منحوس مثنیٰ پر ہی لٹا چکے ہیں میرے نصیب میں تو کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے ان کی نفرت و بے زاری کے جو بے حساب ہے میرے لئے۔“
”پاپا آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں پھر بھی آپ کو ان سے شکایت رہتی ہے ان کی محبت کو سمجھنے کی کوشش تو کریں آپ۔“
”ارے طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری کس قسم کی باتیں کر رہی ہو چلو آرام کرو مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط