عشرت جہاں نے کمرے میں آتے ہوئے سرسری نگاہوں سے بیٹی کی طرف دیکھا تھا جو ہاتھ میں سیل فون پکڑے سوچوں میں گم تھی ان کے اندر ایک بے چینی سی سرائیت کر گئی۔
”مثنیٰ! خیریت تو ہے نا؟ کیا کہہ رہے تھے صفدر جمال!“ وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے فکر مندی سے استفسار کرنے لگیں۔
سعود نے ڈرنک لینی شروع کر دی ہے وہ ہر وقت نشے میں رہتا ہے اسے اپنے باپ کی بھی فکر نہیں ہے جو اس کی خاطر دو ماہ سے وہاں رہ رہے ہیں۔
“ انہوں نے آہستگی سے بتایا۔
”ہا… اس دور کا ایک بڑا امتحان اولاد ہے نہ ہو تو پریشانی اور پیدا ہو کر صالح نہ نکلے تو سب سے بڑی پریشانی ہے اس سعود نے تو سب سے زیادہ دکھ دیئے ہیں اللہ اس کو ہدایت دے صفدر سے کہو اسے پاکستان لے آئیں یہاں اپنوں میں رہے گا تو اس کا دل بہلے گا اچھے اور برے کی تمیز آئے گی۔
(جاری ہے)
“
”ممی! وہ کوئی چند سال کا بچہ نہیں ہے جس کو بہلا پھسلا کر گود میں بھر کر لایا جا سکتا ہے 26-25 سال کا باشعور اور جوان لڑکا ہے۔
جو خود کو ضرورت سے زیادہ ہی عقل مند سمجھتا ہے۔“ مثنیٰ کا لہجہ شکایتی و برہمی لئے ہوئے تھا۔
”جن بچوں کو شروع سے اپنی چلانے اپنی منوانے کی عادت ہو وہ پھر اسی طرح کسی کو بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے اور اس کے بگڑنے میں زیادہ ذمے دار صفدر جمال ہیں۔“
”یہ میرے لئے سزا ہے ممی!“ وہ مضطرب انداز میں بولیں۔
”میں نے پری کے حقوق سلب کئے اس عمر میں اسے چھوڑ کر آ گئی تھی جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
“
”کیوں ہر بار خود کو الزام دیتی ہو مثنیٰ! اس کو اس کی دادی اور باپ نے تم سے چھین لیا تھا ایک عرصے تک ملنے نہیں دیا تھا۔“
”کچھ بھی کہیں ممی! سارا قصور ان کا نہیں تھا کچھ میرا بھی تھا اگر فیاض ماں اور بہنوں کی حمایت میں مجھ سے لڑتے تھے تو مجھے ہی کچھ برداشت سے کام لینا چاہئے تھا اور شروع شروع میں میں نے ایسا ہی کیا تھا مگر جب ہر وقت عامرہ اور آصفہ آپا نے بات بات پر لڑائی جھگڑے شروع کئے اور فیاض کو میرے خلاف کرکے ورغلانے لگیں اور فیاض ان کی سکھائی جھوٹی باتوں میں آکر مجھ سے بدظن رہنے لگے تو میں بھی زبان کھولنے پر مجبور ہو گئی۔
وہ اضطرابی انداز میں ٹہلتے ہوئے اعتراف کر رہی تھیں۔
”کیوں ماضی کی راکھ کو کریدتی ہو بیٹی! جو رشتہ رہا ہی نہیں ہے اس کو یاد کرکے سوائے دکھوں کے کچھ اور نہیں ملے گا۔“
”یہ جو ٹوٹے ہوئے رشتے ہوئے ہیں ممی! یہ ٹوٹ کر بھی کسی نہ کسی طرح قائم رہتے ہیں کہیں نفرت کی دھول بن جاتے ہیں کہیں پچھتاوے بن کر سانپوں کی طرح ڈرتے رہتے ہیں اور کبھی زخم بن کر درد میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔
“
”آپ ایسا کریں پری کو کال کرکے بلوا لیں وہ یہاں ہمارے پاس ہو گی تو آپ کا دل بہل جائے گا ہم کسی بہترین جگہ پر چلتے ہیں پکنک کیلئے۔“ وہ اسے کسی بچوں کی طرح بہلانے لگی تھیں۔
”وہ ابھی آنا نہیں چاہ رہی ہے کال کی تھی میں نے اسے۔“
”کیوں آنا نہیں چاہ رہی ہے معلوم تو کرتیں پری سے۔“
”پوچھا تھا میں نے مگر وہ کہاں بتاتی ہے کوئی بات ہے۔
“
###
ثریا ٹرنک کھولے کپڑوں کا معائنہ کر رہی تھیں اس میں کپڑوں کے علاوہ دیگر وہ سامان بھی موجود تھا جو وقتاً فوقتاً اپنی بہو کی بری کیلئے جمع کرتی رہی تھیں بہت احتیاط سے وہ سامان انہوں نے اپنے بیڈ پر رکھ کر دیکھنا شروع کیا تھا تب ہی گلفام اندر آیا تھا اور سلام کرنے کے بعد ماں سے پوچھنے لگا۔
”یہ پرانے کپڑوں کا ڈھیر کیوں نکالا ہے امی!“ وہ بیڈ پر ہی بیٹھ گیا تھا اسی دم فاطمہ اندر آئی تھیں گلفام کی بات پر مسکرا کر گویا ہوئی تھیں۔
”یہ پرانے نہیں بلکہ وہ کپڑے ہیں جو میں اور ثریا مارکیٹ سے لاکر جمع کرتے رہے ہیں تاکہ تسلی کے ساتھ سلائی ہوتی رہے اور ابھی تو یہ تمام سوٹ کڑھائی اور زری کے کام ہونے کیلئے جائیں گے پھر سلائی ہو گی۔“
”میں تو زیادہ تر کامدانی ورک کرواؤں گی آپا! پھر دبکے اور سلمیٰ ستاروں کا کام کرواؤں گی شادی کے شرارے اور ولیمے کے غرارے سوٹوں پر سچے موتیوں اور سونے چاندی کے تاروں سے کام کرواؤں گی۔
“ ثریا کی آنکھوں میں اکلوتے بیٹے کی شادی کے ارمان سجے تھے۔
”ہاں ہاں جیسا تمہارا دل چاہے ویسا کام کروا لو ہمارے اکلوتے بچوں کی شادی ہے ہم دل بھر کر ارمان نکالیں گے۔“
”گوٹے کرن کا کام ہم اپنے ہاتھوں سے کریں گے اس کام میں وہ جو دیدہ زیبی اور مہارت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ کسی کے ہاتھوں میں نہیں دیکھی میں نے اب تک۔“
”امی خالہ! پہلے آپ رخ کو یہ سب کپڑے دکھا دیں اگر وہ پسند کرتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی پسند سے ہر چیز دوبارہ خریدیں تو بہتر ہے۔
“ وہ سنجیدگی سے بولا۔
”ارے کیسی باتیں کر رہے ہو گلفام بیٹے! یہ سارے جاپانی کپڑے کے سوٹ ہیں بہت دکانیں چھاننے کے بعد خریدے ہیں۔ رخ کو پسند آئیں گے ان میں ناپسند کرنے کی بات ہی نہیں ہے۔“
”آپا! گلفام ٹھیک ہی کہہ رہا ہے میرا بھی خیال ہے ایک بار رخ کو دکھا کر رائے لینے میں کیا حرج ہے؟
”اب میں کیا کہوں چلو پوچھ لو اس سے بھی۔
“
###
”آبرو کی ٹیچر کی کال آئی تھی وہ بتا رہی تھیں آبرو گھر کو مس کر رہی ہے وہ گھر آنا چاہتی ہے اور اسپیشلی وہ پری کو مس کر رہی ہے ٹیچر کہہ رہی تھیں تم کو کال کی تھی انہوں نے اور تم نے کہا آبرو ہاسٹل میں ہی رہے گی۔“ فیاض صاحب صباحت سے مخاطب تھے۔
”جی ہاں آئی تھی ٹیچر کی کال اور میں نے منع کیا تھا آبرو کو گھر بلوانے سے اور کہا تھا وہ تمام چھٹیاں ہاسٹل میں ہی گزارے گی گھر نہیں آئے گی۔
“
”پر کیوں؟ تم کون ہوتی ہو یہ فیصلہ کرنے والی؟“
”میں ماں ہوں اس کی بھول گئے کیا آپ؟“
”نہیں یہ کیسے بھول سکتا ہوں میں؟“ وہ گھور کر طنزیہ انداز میں بولے۔
”یہ فیصلہ کرنے کی تمہیں ضرورت ہی کیا پیش آئی ہے؟“
”نہیں چاہتی میں میری بیٹی کی تربیت گمراہ لوگوں کے ہاتھوں سے ہو میں اپنی بچی کا اچھا مستقبل چاہتی ہوں۔
“
”گمراہ لوگ…؟“ وہ حیرت سے بڑبڑائے تھے۔
”کون ہیں وہ گمراہ لوگ جن کی تم بات کر رہی ہو؟ جو بھی کہنا ہوا کرے تمہیں سیدھے طریقے سے کہا کرو۔“
”فی الحال میں بات بڑھانا نہیں چاہتی بہتر یہی ہوگا کہ آپ آبرو کو گھر نہ بلوائیں۔“
”بات تم نے شروع کی ہے اس لئے تم اس کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتیں بتاؤ مجھے گمراہ کن لوگوں سے تمہیں اپنی بیٹی کو بچانا ہے؟ کون ہے وہ…؟“ فیاض صاحب کا غصہ بڑھنے میں وقت نہیں لگا وہ تیز لہجے میں بولے تھے اور آواز سن کر وہاں سے گزرنے والی عادلہ اور عائزہ کھڑکی سے سننے لگیں تھیں۔
”سننے کا حوصلہ ہے آپ میں سچ…؟“
”تم جیسی عورت کو بھگت رہا ہوں ابھی بھی تم کو میرے حوصلوں پر شک ہے؟“ وہ دوبدو گویا ہوئے تھے۔
”مجھ جیسی عورت آپ کو دوسری مل بھی نہیں سکتی ہے جو آپ کی ساری بے گانگی و لاتعلقی کے باوجود آپ کے ساتھ ہے آپ کو چھوڑ کر نہیں گئی ہے۔“
”مجھے ان فضول اور بے معنی باتوں میں الجھانے کی سعی مت کرو صباحت جو کہنا ہے وہ کہو۔
“
”پلیز عائزہ! ممی کو روکو کسی طرح سے مجھے لگتا ہے وہ پاپا کو پری کے متعلق سب بتانے والی ہیں۔“ کھڑکی کے قریب کھڑی عادلہ بے قراری سے گویا ہوئی تھی۔
”تمہیں کیوں درد ہو رہا ہے؟ اچھا ہے پاپا کو بھی تو معلوم ہو ان کی لاڈلی کی اصلیت جس کو وہ بہت نیک و پارسا سمجھتے ہیں۔“ وہ سرگوشی میں منہ بنا کر گویا ہوئی تھی۔
”پلیز ایسا مت کرو ابھی بھی مجھے آس باقی ہے طغرل کے لوٹ آنے کی پاپا کو معلوم ہوا تو سب کچھ ہی ختم ہو جائے گا۔
“
”وہ تمہاری طرف آیا ہی کب تھا جو تمہیں آس باقی ہے؟“ عائزہ اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں گویا ہوئی تھی پھر عادلہ کی صورت دیکھ کر وہ مسکرائی تھی اور دوسرے لمحے کھڑکی کے پاس سے چند قدم آگے بڑھ کر وہ زور دار آواز سے گری تھی اور یہ سب چند لمحوں میں ہوا تھا عائزہ گرتے ہوئے چیخی تھی ساتھ عادلہ نے بھی چیخ کی صورت میں دیا تھا جس کا نتیجہ ان کی حسب توقع نکلا تھا۔
کمرے میں موجودہ صباحت اور فیاض گھبرا کر باہر نکلے تھے۔
”کیا ہوا بیٹا!“ وہ گری ہوئی عائزہ کو دیکھ کر اپنا غصہ بھول کر اس کی طرف بڑھے تھے عادلہ کے ساتھ خود بھی اسے اٹھنے میں مدد دینے لگے تھے۔
”کس طرح گر گئیں… زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟“ صباحت بھی قریب آ گئی تھیں۔
”پاؤں سلپ ہو گیا تھا ممی!“ وہ تکلیف زدہ لہجے میں بولی۔
”فیاض! دیکھیں ذرا کہیں فریکچر نہ ہو گیا ہو؟“
”پاؤں دکھائیں بیٹا!“ فیاض اس کے پاؤں کا معائنہ کرنے لگے۔
”فریکچر تو نہیں ہے پھر بھی ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے۔“
”ڈونٹ ویری پاپا! میں پین گلر لے لیتی ہوں کچھ ریسٹ کروں گی تو درد ٹھیک ہو جائے گا۔“ وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے کترا رہی تھی اس نے عادلہ کو اشارہ کیا وہ اسے کمرے میں لے جائے۔
”ٹھیک کہہ رہی ہے عائزہ پاپا! معمولی سی چوٹ ہے جو ٹیبلٹ سے ٹھیک ہو جائے گی ڈاکٹر بھی ایکسرے وغیرہ کے چکر میں سارا ٹائم ویسٹ کریں گے۔“
”اوکے میں تو چاہ رہا تھا ڈاکٹر کے ہاں چلیں تو بہتر ہے۔“
”جب وہ خود مطمئن ہے تو آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں آپ کمرے میں چلیں میں چائے لاتی ہوں۔“ عادلہ عائزہ کو سہارا دے کر اس کے کمرے میں لے گئی تو صباحت فیاض سے گویا ہوئی تھیں۔
”ہوں اماں کو چائے دے کر آنا۔“
”ہونہہ… ہر قت اس بڑھیا کا ہی خیال رہتا ہے کبھی میری فکر تو ہوتی ہی نہیں ہے مجھے کیا پسند ہے اور کیا نہیں آج تک اس آدمی نے جاننے کی سعی نہ کی۔“