Episode 25 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

نہ فکر فردانہ یاد ماضی
نہ چین دل کو نہ بے قراری
نہ وصل کی سرزشیں نظر میں
نہ بے بسی ہجر کے سمے کی
نہ حد سے گزرا ہوا جنوں وہ
نہ بے کلی وہ پہلے جیسی
بس اک اداسی ہے دھیمی دھیمی
بس اک خموشی ہے بے کراں سی
بس اک بے نام سی جلن ہے
بس اک بے درد سی تھکن ہے
جو زندگی کے ادھورے پن کو
حدوں سے آگے بڑھا رہی ہے
ائر فریشنر کی خوش بو میں تازہ پھولوں کی مہک مل کر فضا کو معطر کیے ہوئے تھی۔
بہت خوب صورت اسٹینڈز میں موم بتیاں روشن تھیں، جن سے ماحول بڑا فسوں خیز و رومانٹک تھا۔ میز پر ان کی پسندیدہ ڈشز موجود تھیں، کینڈل نائٹ ڈنر انہیں ہمیشہ سے پسند تھا اور خوش بوئیں یونہی انہیں اپنے سحر میں جکڑ لیا کرتی تھیں اور بے خود ہوکراس پیار کے ساگر میں ڈوب جاتی تھیں، خوشیاں ان کے انگ انگ سے چھلکتی تھیں۔

(جاری ہے)

اب بھی ماحول وہی سرمئی اندھیرا تھا، خوش بوئیں تھیں، چاہتیں تھیں۔

سامنے بیٹھا وہ شخص جو اس کا شریک حیات تھا محمور نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے انداز میں بھرپور استحقاق تھا۔ وہ اس سے اظہار محبت کررہا تھا۔ دن و رات کے ان گنت لمحوں میں وہ اپنی محبت کا اظہار بے شمار بار کرتا تھا شاید اس کو اس عمل سے خوشی ہوتی تھی یا وہ خود کو یقین دلانا تھا یا اس سے یقین حاصل کرنا چاہتا تھا۔
مگر وہ برف کا گلیشیر تھی۔
برف کی موٹی تہوں میں ہر جذبہ، احساس، محبت، اظہار سب دفن ہوچکا تھا۔ ان کی ذات برف میں چھپی مرقد بن چکی تھی۔
”مثنیٰ ! کیا میں وہ لمحے کبھی حاصل نہ کرسکوں گاجو فقط میرے لیے ہوں گے… جن میں صرف میری محبت کی خوش بو مہک رہی ہوگی… جہاں علاوہ میرے کسی اور کا عکس نہ ہوگا؟“وہ ان کے نرم و نازک خوب صورت ہاتھ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر گویا ہوئے۔
”ایک بات کہوں…؟“ انہوں نے بوجھل پلکیں اٹھاکر سوالیہ انداز میں کہا۔
”ایک بات نہیں، ہر وہ بات جو ہمیں قریب سے قریب تر کردے۔ “ صفدر کے دھیمے دھیمے لہجے میں گرم جوشی تھی۔
مثنیٰ کی نگاہیں ان کے چہرے پرر تھیں، لبوں پر ہلکی سی تمسخرانہ مسکراہٹ ابھری تھی۔
”نامعلوم کس قسم کی قربت چاہتے ہیں آپ، میں آپ کی بیوی ہوں، آپ کے بیٹے کی ماں ہوں ہمارے درمیان بے گانگی نہیں ہے۔
”مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ آپ میری بیوی ہیں، میرے بیٹے کی ماں ہیں، آپ نے مجھے وہ ساری خوشیاں دی ہیں جو ایک عورت دیتی ہے مگر…“
”مگر… کیا؟“ وہ مسکرائیں پھر یکلخت سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔”یہ ”مگر“ کسی آدم خور مگرمچھ کی مانند میری حیات کے لیے خطرہ بن گیا ہے، میں جتنا اس سے بچنا چاہتی ہوں یہ اتنا میرا تعاقب کرتا ہے۔
“انہوں نے ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے کہا۔
ان کے خوب صورت چہرے پر آزردگی پھیل گئی تھی، پر فسوں ماحول میں دھواں سا پھیلنے لگا تھا جس میں ان کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔
”ایسی بات نہیں ہے ڈئیر! میں آپ پر اعتبار کرتا ہوں، مجھے یہ بھی معلوم ہے آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں مگر… مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے آپ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی میرے پاس نہیں ہوتیں، آپ کی محبت اس پھول کی مانند ہے جو اپنی خوب صورتی میں ثانی نہیں رکھتا مگر خوش بو سے عاری ہوتا ہے۔
“ صفدر جمال کے دل کی خلش اکثر و بیش تر ان کے لہجے سے عیاں ہوجاتی تھی جس کو بیان کرنے کے لیے وہ موقع دیکھتے تھے نہ وقت۔ 
”بات ساری یہ ہے صفدر جمال صاحب!مرد ہمیشہ کم ظرف و کینہ پرور رہتا ہے۔ خود وہ کتنے بھی پہلووٴں میں وقت گزارے، کتنے ہی دامن تار تار کردے پھر بھی خود کو حق بجانب، نیک و پارسا ہی گردانتا ہے اگر بدقسمتی سے کوئی عورت کسی وجہ سے دوسرے مرد سے رشتہ وابستہ کرے تو وہ کبھی بھی قابل اعتماد نہیں رہتی، پوری سچائی، مکمل ایمان داری سے تعلق نبھانے کے باوجود بھی پہلے ”مرد “ کے حوالے سے اس پرسنگ باری جاری رہتی ہے“ مثنیٰ کے لہجے میں سسکتی ہوئی سچائی نے صفدر جمال کو شرمندہ کردیا تھا۔
”سوری ڈارلنگ! واپس آجاوٴ، کیو ں ماضی کے لیے ہم اپنی قربت خراب کریں۔“
###
دو دن سے طغرل کی طبیعت ناساز تھی۔ نزلہ، بخار و کھانسی متحد ہوکر اچانک ہی اس پر حملہ آور ہوئے تھے گو کہ فیاض صاحب نے فوراً ہی ڈاکٹر کو بلوالیا تھا۔ دوا اسے بیماری میں افاقہ تو ہوا تھا مگر بخار کی حرارت باقی تھی، دادی جان نے اس کو ان دنوں ہتھیلی کا چھالا بنالیا تھا، ان کا سارا وقت اس کے کمرے میں ہی گزرتا تھا اور ان سے بعید نہ تھا کہ وہ رات میں بھی اپنا بستر اس کے کمرے میں ہی لگوالیتیں اگر ان کا لاڈلہ انہیں منع نہ کرتا۔
دادی سے زیادہ اس کی صحت یابی کی دعائیں پری مانگ رہی تھی کہ اس کے بیمار پڑنے سے اس کی اصل شامت آگئی تھی۔ دادی پہلے ہی کیا کم اس پر جان دیتی تھیں مگر ان دنوں تو وہ اس پر کچھ اس طرح نثار تھیں کہ پری کو خوب ہلکان کرکے رکھ دیا تھا۔ اس کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے اسی کو دادی نے ڈیوٹی سونپی تھی کہ ملازماوٴں پر وہ اعتبار کرنے کی عادی نہ تھیں، صباحت، عادلہ و عائزہ ان کے معیار پر پوری نہ اترتی تھیں، ایک وہ ہی تھی جو ان کے مزاج و پسند سے بخوبی واقف تھی، وہ اس پر مکمل طور پر اعتماد کرتی تھیں یہ دوسری بات کہ ان کے اعتماد، نے اس کو گھن چکر بنادیا تھا۔
سوپ، دلیہ، کھچڑی، جوس ایک کے بعد ایک فرمائش ہوتی تھی اور سب کچھ صرف چکھا جاتا تھا۔ دو سے تیسرا چمچ اس کے منہ میں نہیں جاتا تھا۔ اب بھی دادی اس کو چکن دلیے کی ہدایت دے رہی تھیں۔ ساتھ میں چائنیز سوپ بنانے کا آرڈر بھی شامل تھا۔ دلیہ دیگچی میں رکھ کر وہ بوائل چکن کے ریشے کرنے لگی دادی بھی وہیں موجود تھیں متفکر سی۔
”کیا سوچ رہی ہیں دادی جان؟“ وہ بھی پریشان سی ہوگئی تھی۔
”میرے منہ میں خاک … کہیں میرے بچے کو وہ ”ڈھونگی“ تو نہیں ہوگیا ہے؟ بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا، دن بہ دن بچہ کمزور پڑتا جارہا ہے۔“ دادی کو نئی فکر ستائی تو وہ بول اٹھیں۔
”دادی جان! ڈھونگی نہیں ڈینگی کہتے ہیں۔“ اس نے تصحیح کی۔
”ہاں ہاں وہی ڈنگی نہ ہوگیا ہو میرے بچے کو…! ابھی لان میں مچھر دیکھے ہیں میں نے، تب سے ہی وہم آرہا ہے مجھے۔
”آپ کے لاڈلے میں اتنا زہر ہے کہ مچھر خون پی کر مرجائے گا۔“
”کیا بڑبڑارہی ہے، ذرا اونچا بول…“ دادی نے گھور کر کہا۔
”ہر جگہ اسپرے ہوتا ہے، مچھر کہاں سے آئیں گے البتہ تتلیاں ضرور آتی ہیں۔“
”آئے ہائے بنو ! اب میری نگاہیں اتنی بھی کمزور نہیں ہوئی ہیں کہ تتلیاں مجھے مچھر کے سائز کی دکھائی دینے لگیں۔“ وہ فوراً ڈپٹ کر گویا ہوئی تھیں۔
”یہ میں نے کب کہا دادی جان! میں تو یہ کہہ رہی تھی آپ طغرل صاحب کے ناز نخرے کم ہی اٹھائیں تو بہتر ہے ورنہ وہ کبھی تندرست نہ ہوں گے۔“
”ہیں…! یہ کیا بات کی تو نے؟“وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے بولیں۔
”جی ، ٹھیک کہہ رہی ہوں میں، جس طرح سے آپ نے ان کو سر پر بیٹھا رکھا ہے اس طرح بیماری بھاگنے کے بجائے چمٹ کر رہ جائے گی۔
”اچھا … مجھے تو اس بات کی عقل ہی نہیں ہے … ہوں!“ وہ بے حدبارعب انداز میں اس کو گھور کر گویا ہوئی تھیں۔
”کتنی مرتبہ سمجھایا ہے تجھے، میں تیری دادی ہوں تو میری دادی بننے کی کوشش نہ کیا کر … اپنے فضول مشورے اپنے پاس رکھا کر ضرورت نہیں ہے مجھے۔“
”آپ کو تو ہر بات بکواس لگتی ہے میری۔“
”بکواس ہوگی تو بکواس ہی لگے گی ناں!“
”آج سے چند ہفتے قبل تک تو ایسا کبھی نہیں ہوا کرتا تھا۔
”آج سے آنے والے بعد تک بھی سب ایسا ہی ہوسکتا ہے جیسے پہلے تھا، بس تم اپنا رویہ درست کر لو طغرل کے ساتھ تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔“
”میں نے کون سا ان کو سولی پر لٹکایا ہوا ہے؟“ اس نے پیالہ کاوٴنٹر پر رکھتے ہوئے جلے کٹے لہجے میں کہا۔
”تم نے غلطی کی اس پر الزام لگایا ہاتھ پکڑنے کا ، بچے نے بتادیا کہ اس سے انجانے میں ایسا ہوا اس کے باوجود بھی میں نے کسی محبت و رشتے کو خاطر میں لائے بنا کھری کھری سنا ڈالیں، وہ شرمندگی سے نگاہیں نہ اٹھا سکا، معذرت کرلی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی اور تم اکڑی اکڑی گھوم رہی ہو اور جانتی ہو نا تمہاری ماں چیل کی نگاہ رکھتی ہیں۔
“ ان کے آخری جملے پر اس کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑگئی۔
”مما نے کچھ کہا ہے دادی جان!“ وہ ان کے قریب آکر استفسار کرنے لگی۔
”مجھ سے کچھ کہنے کی ہمت اس میں نہیں ہے۔“
”پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ متجسس ہیں؟“
”میری عمر میں اتنا شعور آجاتا ہے کہ بندہ سامنے والے کو سمجھنے لگتا ہے۔ عادلہ بے حساب چکر لگاتی ہے طغرل کے پاس ، صباحت اور عائزہ بھی حاضری دیتی ہیں، ایک تم ہی ہو جو ایک دفعہ بھی اس کے پاس نہ گئیں۔
وہ تو سمجھیں گی نا، کوئی نہ کوئی بات ہوئی ہے جو تم اس سے کترارہی ہو۔“ وہ حسب عادت اس کو جھاڑ پلارہی تھیں۔
”آپ کیوں ایسا سوچتی ہیں؟ میرے جانے نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ وہ جھنجلا کر رہ گئی۔
”ہاں بھئی! من مانی کی تمہاری عادت پرانی ہے، کب مانو گی۔“ وہ ایک لٹھ سا مار کر وہاں سے چلی گئی۔
”کیسا منحوس شخص ہے، جب سے آیا ہے میری زندگی اجیرن کردی۔
کاش! میں تمہارے سوپ میں زہر ملا کر پلاسکتی۔“ وہ بڑبڑاتی ہوئی کاوٴنٹر کی طرف بڑھ گئی تھی، دادی خفگی بھرے انداز میں وہاں سے چلی گئی تھیں، جس کا مطلب تھا ان کے لاڈلے کی عیادت کیے بنا اور کوئی چارہ نہ تھا ورنہ ان کا موڈ درست ہونے والا نہ تھا۔ سوپ اور دلیہ تیار ہوا تو وہ دل نہ چاہنے کے باوجود ٹرالی سجا کر وہاں آگئی، اس جگہ جہاں اس کی مرضی کے بغیر کوئی اندر داخل نہیں ہوسکتا تھا اور آج وہ خود بے دخل کردی گئی تھی۔
وقت بھی شطرنج کی بساط کی مانند ہے اس کے احاطے میں ہر چال موجود ہے جس کو عموماً یہ بڑی چالاکی سے تو کبھی بے حد سفاکی سے چلتا ہے …
کبھی عروج کو زوال دیتا ہے
کبھی ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے
کسی کو شہرت کی بلندی عطا کرتا ہے
کسی کو گمنامی کی پستی میں دفن کردیتا ہے
جیسے آج وہ اپنے ہی کمرے کے دروازے پر کھڑی دستک دے رہی تھی۔
”آجاوٴ…“ اندر سے طغرل کی آواز آئی اور وہ لمبی سانس لے کر اندر داخل ہوگئی۔ کمرا معطر تھا، کوئی بے ترتیبی وہاں موجود نہ تھی۔ ٹرالی بیڈ کے پاس لاتے ہوئے اس کی نگاہیں غیر ارادی طور پر طغرل کی جانب اٹھیں بیڈ کے بیچوں بیچ وہ تکیوں کے سہارے نیم دراز تھا۔ وجیہہ چہرے پر نقاہت تھی۔ دو تین دن سے شیو نہ کرنے کی باعث خاصی شیو بڑھ گئی تھی، جس نے اس کی شخصیت کو پر وقار بنادیا تھا، بال بے ترتیبی سے کشادہ پیشانی کو چوم رہے تھے۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط