”جو موضوع تم نے شروع کیا وہ اب اتنی آسانی سے بند نہیں ہوگا“وردہ کے لہجے میں اجنبیت بھری سنجیدگی تھی۔ رجاء نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”تم جانتی ہو، میں نے کبھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی “
”وہ ایسے ہی تو تمہارا دیوانہ نہیں بن گیا، کوئی راستہ ہے جو اس کو تم تک لے آتا ہے ورنہ سنی جیسے خوب رو اور حسین امیرزادے کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں “
”میں…ایسی لڑکی نہیں ہوں“وہ اکیڈمی میں داخل ہوچکی تھیں۔
”وہ بھی ایسا لڑکا نہیں ہے جو فلرٹ کرتے ہیں ، فراڈ کرتے ہیں “
”میں بے حد عام سی لڑکی ہوں، مجھ میں ایسا کچھ نہیں جو میری تمنا کرے کوئی “کلاسوں سے آگے برآمدے میں کئی پیپل کے درخت لگے تھے۔ وہ دونوں ایک درخت کے نیچے رک گئی تھیں۔
”ڈیئر! تم کو یہی تو نہیں معلوم کہ تم کیا ہو؟دراصل ہیرا کبھی بھی اپنی اصل قدرت و قیمت جان ہی نہیں سکاہے، پتھروں میں پڑا وہ خود کو پتھر ہی سمجھتا ہے۔
(جاری ہے)
وہ جب جوہری کے ہاتھ میں آتا ہے تو پھر اسے اپنی قیمت معلوم ہوتی ہے۔ سلمان سے پوچھو، اس کے دل و جذبوں سے پوچھو، اپنی قدروقیمت“
###
جب سے بہو اور لاڈلے پوتے کی آمد کی خبر ملی تھی تب سے اماں جان کے جسم و جاں میں جیسے کسی نے نئی طاقت بھردی تھی، وہ اپنے ہر وقت ہونے والے جوڑوں کے درد کو بھول چکی تھیں، کھانسی فرار ہوگئی تھی تو آنکھوں سے بھی انہیں کوئی شکایت نہ رہی تھی، وہ خراماں خراماں ادھر اُدھر چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔
اب بھی وہ پری سے کویا ہوئی تھیں۔
”اپنا سارا سامان میرے کمرے میں رکھ دو، تمہاری یاد داشت ویسے بھی بہت کمزور ہے۔ کبھی کچھ بھول گئیں تو اس بچے کو رات بے رات تنگ کرو گی۔“ وہ چھوٹی بہن آبرو کی پونیاں باندھ رہی تھی کہ منہ بنا کر بولی۔
”دادی جان! ابھی آپہ کے لاڈلے آئے نہیں ہیں، ب وہ آئیں گے میں اپنا کمرا ان کو ”خیرات“ میں دے دوں گی اور اپناسامان نکال لوں گی۔
“ اس نے لفظ ”خیرات“ دانت بھینچ کر کہا تھا جو دادی نے سنا نہیں مگر آبرو نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
”یہ تم کیوں زعفران کا کھیت بن گئی ہو چھوٹی!“
”دادی جان! آپ نے سنا نہیں، آپی نے کیا کہا ہے؟“
”سب سنتی ہوں، کوئی بہری نہیں ہوئی ہوں، چل جا کر عادلہ سے چائے بنوا کرلا۔ کب سے کہا ہوا ہے مگر ایسی باتیں وہ سنتی نہیں ہے، ہڈحرام۔
“ وہ اس وقت نہ معلوم کن خیالوں میں تھیں جو آبرو کی بات پر غور نہ کر سکیں جب کہ ان سے نگاہ بچا کر وہ آبرو کو ایک تھپڑ جڑ چکی تھی۔ ”اسی ہفتے آنے والا ہے طغرل! تم کمرا چمکا دو اچھی طرح سے۔“
”آپ کو معلوم ہے دادی جان! یہ ہدایت آپ مجھے ان چند دنوں میں ہزاروں بار دے چکی ہیں۔“
”اچھا! مگر تم پر ایک بار بھی اثر نہیں ہوا میرے کہنے کا۔
“
”کمرے کی نئے سرے سے تزئین کر دی ہے۔ نئے نئے گلدان بھی لے آئی ہوں جس دن وہ نواب صاحب آئیں گے تب ان میں پھول لگا کر سجادوں گی اور ہم رنگ بیڈ شیٹ بھی بچھادوں گی۔‘ُ‘ اس نے ایک ہی سانس میں پوری تفصیل بتا دی۔
”اتنا کرنے کے بعد بھی تم نے کمرا خالی نہیں کیا ہے پری !“
”کیا مطلب ہے دادی جان! میں کیوں ابھی سے اپنا کمرا خالی کردوں؟“ وہ لمحے بھر میں جذباتی ہوگئی تھی۔
”میرا مطلب ہے جس کا سامان ہے، وہ ہی پہلے استعمال کرے تو اچھا ہے۔ وہ چلا جائے گا تو تجھے ہی برتنا ہے دل کیوں چھوٹا کرتی ہے۔“
”واہ بھئی! میں کوئی بھکارن ہوں جو کسی کا استعمال شدہ سامان استعمال کروں گی؟ میں ایسا نہیں کر سکتی ہوں۔ ہاں!“
”جب سے طغرل کے آے کا سنا ہے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی ہے۔“
”بڑے اچھے تعلقات رہے ہیں میرے آپ کے لاڈلے کے ساتھ، جو میں ان کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجاؤں؟“ خوب جلے کٹے انداز میں وہ گویا ہوئی تھی۔
دادی کو سخت غصہ آیا۔دادی نے کہا ”وہ بچپن کی باتیں تھیں جو لڑئی جھگڑوں میں گزر گئیں۔ وہ تو کب کا ان باتوں کو بھول گیا ہو گا اور تم ہو کہ ابھی تک دل سے لگائے بیٹھی ہو۔“
”رہنے دیں دادی جان! ابھی بھی وہ آسٹریلیا سے فون کر کے آپ کے اور میرے درمیان لڑائیاں کرواتا رہا ہے۔ اس کے فون کے بعد کوئی ایسا کام اور کوئی ایسا اختلافات نہیں ہوتا تھا جو ہم دونوں کے درمیان نہ ہو۔
“
”تو بہ………تو بہ! کیسا اونٹ کا سا کینہ چھپائے بیٹھی ہے تو دل میں ………وہ بھلا میرے کان اتنی دور سے کیوں بھرے گا؟ غلطیاں خود کرتی ہے، نام اس کا لگا رہی ہے۔ نہ شرم، نہ مروت کس طرح دادی سے سوال و جواب کر رہی ہے۔ زبان دراز!“ ان کا شاہانہ جا ہ وجلال عود کر آیا وہ اسے جھاڑپلا کر وہاں چلی گئیں۔ وہ گھٹنوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی۔ عجیب سر پھری طبیعت ہو گئی تھی۔
چڑچڑاپن اور اداسی کا آسیب اسے چمٹ کر رہ گیا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ دادی سے الجھنے لگی تھی وگرنہ وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی۔ خود سے بڑھ کر ان کا خیال رکھتی تھی اور دادی بھی اسے ہاتھ کا چھالا بنائے رکھتی تھیں۔ دونوں میں ناراضی کم ہوا کرتی ئتھی مگر جب سے طغرل کے آنے کی خبر ملی تھی دادی بالکل بدل گئی تھیں۔ وہ اب نہ اس کی فکر کیا کرتی تھیں نہ ہی اس کی پروارہی تھی۔
طغرل دور ہو کر بھی ان کے قریب تھا اور وہ قریب ہو کر بھی قریب نہ تھی اور کوئی اسے یاد نہ رکھے، سب بھول جائیں اسے پروانہ تھی۔ مگر دادی کی بے التفاتی اس کو ذرا بھی پسند نہ تھی اور ابھی جو کچھ دیر قبل دادی نے بے گانگی کا مظاہرہ جس سنگ دلی سے کیا تھا وہ اسے بے حد تنہا کر گیا تھا وہ بے اختیار ہو کر رونے لگی تھی۔
###
طغرل ، عمائدہ آپی اور طیب بھائی سے چھوٹا تھا۔
بے حد نٹ کھٹ، شرارتی، کھلنڈرا۔سب ہی اس سے محبت کرتے تھے اور خصوصا دادی کا بے حد لاڈلا تھا وہ۔ پری اور طغرل کے ستارے ہمیشہ مخالف سمت میں محو سفر رہتے، ان کی کبھی بنی نہیں تھی، وجہ دادی اماں کا پُر نورو جود رہا تھا۔ وہ دونوں ان کو ذاتی ملکیت سمجھتے تھے۔ پری کی خواہش تھی کہ دادی طغرل کی طرف دیکھیں بھی ناں اور طغرل کی آرزو کہ دادی صرف اسی سے محبت کریں پری کو قریب بھی نہ آنے دیں اور دادی کے حصول کی لگن میں ان کے درمیان بڑے زبردست معر کے ہوتے تھے، جن میں وہ بڑی بے دردی سے اس کے گھنگھریالے بال کھینچ لیا کرتا تھا اور وہ ناخنوں سے اس کا چہرہ نوچ کر نشان ڈال دیتی تھی البتہ تاؤ اس سے بڑی محبت کرتے تھے۔
اکثر وہ اس کی وجہ سے سزاپاتا تھا۔ ایک دفع ایسی ہی لڑائی کے دوران طغرل نے اسے تھپڑ مار کر دھکا دے دیا تھا۔ اس کی پیشانی پتھر سے ٹکرائی تھی، خون بہنے لگا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ ہوش میں آنے کے بعد اسے معلوم ہو اتاؤ نے طغرل کی پٹائی کی تھی اور اسٹورروم میں بند کر دیا تھا۔ دادای کی وجہ سے وہ اس قید سے آزاد ہوا تھا۔ تب بہت انوکھی بات ہوئی تھی طغرل نے اس سے معافی مانگی تھی اور اپنی پسندیدہ چاکلیٹس اس کو گفٹ کی تھیں مگر اس دن وہ پری کو سب سے زیادہ بُرا لگا تھا، جس کی وجہ سے اسے بے حد تکلیف اُٹھانی پڑی تھی۔
”اب ہم بہت اچھے دوست ہیں، کبھی لڑائی نہیں ہو تی۔“ اس نے چاکلیٹس اس کے قریب رکھتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر کہا۔
”میں تم سے دوستی نہیں کر سکتی، نہ گفٹ لوں گی۔ تم بُرے لڑکے ہو۔“ اس نے چاکلیٹس کا ڈبا دور پھنکتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔
”موٹی لڑکی! اچھا ہوا تم کو چوٹ لگی، آئندہ جھگڑا کرنے سے پہلے اپنا زخم دیکھ لینا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں زخم مندمل ہو جائے گا مگر نشان کبھی نہیں جائے گا، ہاہاہاہاہا۔
“ سماعتوں میں ماضی کے قہقہے گونج رہے تھے۔ بے ساختہ اس کا ہاتھ پیشانی پر گیا تھا۔ ڈھیروں سال گزرنے کے بعد بھی دائیں جانب جنشان موجود تھا۔ چھوٹی عمر میں بھی اس کا قیاس درست تھا۔ اس کی خوب صورت پیشانی پر دائیں طرف سرخ باریک سی لکیر تھی، ہزاروں جتن کرنے کے باوجود وہ نشان ختم نہ ہوا تھا جو اس بندے کو بھولنے ہی نہیں دیتا تھا۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ہی تاؤ اپنی فیملی کو لے کر آسٹریلیا شفٹ ہو گئے تھے۔
تائی کی فیملی بہت عرصہ قبل وہاں شفٹ ہو چکی تھی اور یہ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ تاؤ کو وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی جاب بھی مل تئی تھی اور رہائش بھی……تب وہاں چلے گئے تھے۔ اسے کچھ عرصہ تو تاؤ کی جدائی کا خیال پریشان واداس کرتا رہا مگر پھر دادی کی محبت وتوجہ جواب ساری کی ساری اس کے لیے ہی تھی۔ وہ بہل گئی تھی اب دادی پر حاکمیت جتانے والا کوئی نہ رہا تھا، وہ بلا شرکت غیران کی مالک تھی۔
گھر میں عادلہ اور عائلہ بھی تھیں لیکن وہ اپنی مماسے قریب اور دادی سے دور رہتی تھیں۔ آبروبہت عرصے بعد اس گھر میں پیدا ہونے وال بچی تھی۔مما کو بیٹے کی بہت چاہ تھی مگر ان کے نصیب میں بیٹانہ تھا۔ طغرل کے حوالے سے اس کو کوئی اچھی بات یاد نہ تھی۔
بے تحاشا آنسو بہا کر وہ اٹھی تھی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نشان کو دیکھنے لگی جو بہت واضح تھا۔
کتنا بے قرار رہتا تھا وہ اس نشان کے بارے میں جاننے کے لیے۔ جب بھی اس کی کال آتی دادی کہتیں طغرل تمہارے نشان کا پوچھ رہا تھا کہ ختم ہوا یا نہیں؟ وہ فورتھ اسینڈر سے کالج میں جا پہنچی تھی تب تک وہ دادی سے معلوم کرتا رہا تھا اور جواباً دادی نہ معلوم کیا کیا جو از ”نہیں“ کے ساتھ پیش کرتی رہیں۔ پھر اس نے چڑ کر دادی کو منع کر دیا کہ وہ طغرل کی بات اس سے نہ کیا کریں اور اس کو بھی منع کر دیں کہ وہ اس کے متعلق معلوم نہ کیا کرے اور دادی سادگی میں کہہ گئیں کہ وہ اس کے متعلق نہیں اس کے زخم کے متعلق پوچھتا ہے۔
پھر نا معلوم دادی نے اسے منع کیا یا نہیں لیکن اسے پھر کچھ نہ بتایا اور اب کس طرح وہ اس کا سامنا کرے گی؟ بے شک عمر کے اس لاابالی دور سے وہ باہر نکل چکے تھے۔ پھر بھی دل کے کسی گوشے میں وہ وقت وہ لمحہ ساکت ہو کر رہ گیا تھا۔ جب اس نے بڑے تضحیک آمز لہجے میں کہا تھا۔
”یہ نشان تمہیں کبھی مجھے بولنے نہ دے گا۔“
کس طرح وہ اس کی آنکھوں میں اپنی تضحیک کے رنگ دیکھے گی؟ کس طرح اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ برداشت کرے گی ، اب وہ نانو کے ہاں بھی نہیں جا سکتی تھی۔
ہمیشہ یہی ہوتا تھا وہ اس کی آمد کا کاسن کر یہاں سے فرار ہو جاتی تھی۔ اس بار دادی نے سختی سے کہہ دیا تھا کہ ہر بار کی طرح اس بار نانو کے گھر نہیں جائے گی۔ اس دفعہ تائی جان طویل عرصے کے بعد آرہی تھیں اور ان سے ملنے والے مہمانوں اور رشتے داروں کی تعداد بھی ان گنت ہو گئی اور ممانے پہلے ہی سنانا شروع کر دیا تھا کہ وہ اتنی طاقت نہیں رکھتیں اکیلے کچن سنبھالنے کی۔