Episode 138 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 138 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ عادلہ ایسا کس طرح کر سکتی ہے؟ وہ اتنی آزاد کس طرح سے ہو گئی جو اس نے عزت کا بھی ذرا خیال نہیں کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی؟“ زینب کو سخت دھچکہ لگا تھا صباحت سے سب سن کر۔
”جب شیطان کا وار چل جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔“ وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوئیں۔
”میری عقل کام نہیں کر رہی ہے آپی،عادلہ کو کچھ تو سوچنا سمجھنا چاہئے تھا۔
وہ کس گھر کی بیٹی ہے کس غیور و غیرت مند بات کی اولاد ہے آپ کے سسرال میں تو کسی معمولی سی بے حیائی کا تصور تک محال ہے وہ اور کس طرح بن بیاہی ماں بن بیٹھی ہے۔“ زینب کے حواس اڑے ہوئے تھے۔
”میں تو پہلے ہی پریشان ہوں اور تم مت کرو مجھ سے ایسے سوال کہ میں مزید پریشان ہوں… جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ کیوں اور کیسے ہوا یہ سوال اہمیت نہیں رکھتا ہے اب تو یہ بتاؤ،یہ معاملہ کس طرح صاف کرنا ہے میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے کس طرح اس معاملے کو ختم کروایا جائے۔

(جاری ہے)

فیاض کے تعلقات تمام بہترین ڈاکٹرز سے ہیں میں کسی سے ایسی بات کر بھی نہیں سکتی۔“ ان کے انداز میں جھنجلاہٹ تھی زینب بہن کی طرف دیکھ کر رہ گئی۔
”دیکھی ہوں آپی،فی الوقت تو ایسی کوئی گائنالوجسٹ میری نظر میں نہیں ہے آپ شہریار سے بات کریں اور اس کو کہیں وہ سیدھے طریقے سے عادلہ سے نکاح پڑھوائے وہ اس طرح کیسے صاف بچ سکتا ہے۔“
”یہ تو بعد کی باتیں ہیں ابھی تو عادلہ کی بے وقوفی نے مجھے چپ رہنے پر مجبور کر دیا ہے بھاگنے میں اس کو نہیں دوں گی۔
”گھر میں عائزہ کے علاوہ کسی کو خبر نہیں ہو گی عادلہ کی حالت کی؟“
”عائزہ کو بھی خبر نہیں ہونے دی ہے میں نے شادی کے بعد وہ بھی دادی کی زبان بولنے لگی ہے ہر بات میں اس کو میری نقص نظر آتا ہے شادی کے بعد وہ میرے سر پر بیٹھی ہے اور تم اس ماں کے غلام سے معلوم تو کرو وہ کب تک عائزہ کو یہاں بیٹھا کر رکھے گا؟“
”آج کال آئی تھی اس کی،وہ شادی کر رہا ہے۔
“ زینب کے دھیمے لہجے میں کی گئی بات اس کے سر پر بم کی طرح بلاسٹ ہوئی تھی وہ حق دق اس دیکھے گئیں سن دماغ کے ساتھ۔
”میں آپ کی طرف ہی آنے والی تھی۔“ زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس کی بہن کی ناعاقبت اندیشی خود سری و من مانی کرنے کی عادت ان کے اور بیٹیوں کیلئے سخت کڑی سزا بن گئی تھی کہ پے در پے صدموں کے وار ان پر ہو رہے تھے۔
”یہ کن ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے ہم کو؟ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کس پر ستم ڈھائے ہیں؟“ شدید ترین صدمے نے انہیں دہلا کر رکھ دیا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئیں۔
”میری عائزہ کو خبر ملے گی تو اس کے دل پر کیا گزرے گی شادی کے چند ہفتوں بعد ہی اس مردار نے اس پر سوکن لا بٹھائی ہے۔“
”میں نے تو بہت سمجھانے کی کوشش کی فاخرہ کو مگر اس پر تو گویا بدلہ لینے کا بھوت سوار ہو چکا ہے وہ عائزہ سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔“
”یا میرے اللہ،میں کن پریشانیوں میں مبتلا ہو گئی ہوں؟ ایک کے بعد ایک آفت مجھ پر ٹوٹ رہی ہے میں کیا کروں؟“ وہ رو پڑیں۔
###
وہ دادی کے کمرے سے نکل کر سیدھا اپنے کمرے میں آیا… اس کا تنفس بے حد تیز ہو رہا تھا۔ رگ و پے میں انگارے سے دہک رہے تھے موسم میں خاصی خنکی تھی اور اس خنکی میں بھی اس کی کنپٹیوں و پیشانی پر پسینہ بہہ رہا تھا۔ پارس کی ناپسندیدگی وہ ہزار ہا گستاخیوں کے باوجود بھی اس کا دل اس کی محبت سے دستبردار ہونے کو راضی نہ تھا۔ پارس کا نام اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ لیا جائے وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا وہ نامعلوم کب تک ٹہلتے ہوئے اپنے جذبوں و حمیت میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
سوچتا رہا پری کو کس طرح راضی کیا جائے؟ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ اب اس کو مذنہ کی ناراضی کی بھی پروا نہ تھی۔ ان کی خود غرضی کی وجہ سے ہی دادی ہسپتال پہنچی تھیں اور دو ہفتے بعد بھی وہ خود کو سنبھال نہ سکی تھیں بستر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔
”میں نے ہمیشہ ممی کی خواہشوں کا احترام کیا ہے اور جواباً مما مجھے کیا دے رہی ہیں بے سکون زندگی،ناپسندیدہ لائف پارٹنر،زندگی ایک بار ملتی ہے اور میں اس اکلوتی زندگی کو خراب کرنا نہیں چاہتا۔
انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔ جو پارس کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ابھی تو اس پاگل لڑکی کو منانا بھی ایک بڑا ہیڈک ہے۔“ اس کے اندر بے حد سوچ و بچار کے بعد طمانیت ابھری،وجیہہ چہرے پر ایک عرصے بعد دلکش شوخ مسکراہٹ ابھری اور وہ سوچنے لگا۔
###
”پری… دادی کو کیا ہو گیا ہے ان کو ہر وقت تمہاری اتنی فکر کیوں رہنے لگی ہے تمہاری شادی جلد ہو جائے اس کیلئے لمبے لمبے وظیفے شروع کر دیئے ہیں انہوں نے حالانکہ اب ان سے زیادہ بیٹھا نہیں جا رہا ہے۔
“ وہ لاؤنج میں بیٹھیں کافی پیتے ہوئے باتیں کر رہی تھیں معاً عائزہ کو یاد آیا تو وہ مسکرا کر شوخ لہجے میں پوچھنے لگی۔
”ان کا کوئی وظیفہ کامیاب ہونے والا نہیں ہے میں شادی نہیں کروں گی۔ دادی جان کو کہہ چکی ہوں مگر…!“
”ارے ایسے تو مت کہ۔“
”میں سچ کہہ رہی ہوں میں شادی کرنے والی نہیں ہوں کسی سے بھی۔“ وہ قطعیت بھرے انداز میں سنجیدگی سے بولی۔
”اچھا تم شادی نہیں کرو گی یہ فیصلہ چچا جان کو سنا دو جا کر وہ تمہاری بات پکی کر چکے ہیں اپنے بھائی کے بیٹے سے۔“ طغرل نے وہاں آتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ طغرل بھائی۔“ عائزہ اچھل کر رہ گئی۔
”جو بھی کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں سچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ اس کی شوخ نظریں پری کے چہرے پر تھیں جہاں حسب توقع ناگواری پھیلی ہوئی تھی وہ اس کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”میں آپ کیلئے کافی لاتی ہوں۔“ عائزہ اٹھتے ہوئے بولی ساتھ اس کے پری بھی اٹھنے لگی تو طغرل نے بڑے استحقاق بھرے انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا جبکہ عائزہ مسکراتی ہوئی چلی گئی۔
”کہاں جا رہی ہو،بیٹھ جاؤ آرام سے یہاں پر۔“
”ہاتھ چھوڑیں میرا۔“ وہ اس کی مضبوط گرفت سے ہاتھ چھڑا نہ پائی تھی۔
”تم نے پوچھا نہیں تمہاری شادی کس سے ہو رہی ہے؟“
”مجھے ایسے مذاق قطعی پسند نہیں ہیں۔
”مذاق کون کر رہا ہے تم سے۔“ وہ اس کا ہاتھ جکڑے بیٹھا تھا۔
”میں نے کہا نا میں کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی۔“ وہ رندھی ہوئی آواز میں آہستگی سے بولی۔
”مذنہ آنٹی درست کہتی ہیں میں نے بچپن سے ادھورے رشتے برتے ہیں۔ ادھوری محبتیں میرے حصے میں آئی ہیں مجھے وہ مکمل ماحول نہیں ملا جو ایک ایسے گھر میں ہوتا ہے جہاں ماں اور باپ ساتھ ساتھ محبت سے رہتے ہیں جو اپنے بچوں کیلئے جیتے اور مرتے ہیں اور مجھے ایسا کوئی رشتہ نہیں ملا میری شخصیت میں دراڑیں ہی در اٹیں ہیں۔
”اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے پارس اور مجھے تمہارے کسی ادھورے پن سے فرق نہیں پڑتا۔ زندگی میں تمہارے ساتھ گزاروں گا۔ میری محبت تمہارا سارا ادھورا پن دور کر دے گی یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔“ وہ اس کے روبرو کھڑا ہو کر بھاری لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”ایسی باتیں مجھے انسپائر نہیں کرتیں طغرل بھائی… جائیں پلیز یہاں سے۔“ وہ ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر آگے بڑھی تھی اور دوسرے لمحے ہلکے سے فائر کی آواز آئی تھی اس نے مڑ کر دیکھا طغرل کے ہاتھ میں پستول تھا اور اس کے جسم سے تیزی سے خون نکل رہا تھا۔
###
برسوں کے انتظار کا انجام لکھ دیا
کاغذ پہ شام کاٹ کر پھر شام لکھ دیا
بکھری پڑی تھیں ٹوٹ کر کلیاں زمین پر
ترتیب دے کر میں نے تیرا نام لکھ دیا
ایک لمحے کیلئے وہ ساکت ہو گئی۔
آنکھیں پھٹ گئیں،طغرل کے بائیں بازو سے تیزی سے خون نکل رہا تھا اور وہ جنوبی انداز میں ابھی دوسرا فائر بھی کرنے والا تھا کہ وہ چیختی ہوئی اس کے دائیں ہاتھ سے لپٹ گئی اور پستول چھیننے کی کوشش کرنے لگی۔
فائر کی آواز سن کر کچن کی سمت جاتی ہوئی عائزہ بھی بھاگ کر آئی تھی اور اندر کی صورت حال دیکھ کر بدحواسی کے انداز سے وہ بھی پری کی مدد کرنے لگی،اب وہ دونوں اس کے بازو کو جکڑنے کی سعی کر رہی تھیں۔
”خدا کے واسطے طغرل بھائی چھوڑیں پستول کو یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ خون دیکھیں کتنی تیزی سے بہہ رہا ہے آپ کا۔“ طغرل کا جنونی انداز ہنوز برقرار تھا وہ ان کی گرفت سے اپنا بازو چھڑانے کی سعی کر رہا تھا اسی کشمکش میں پستول اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا۔
پری نے پھرتی سے پیر مار کر پستول صوفے کے نیچے کر دیا،طغرل کو اٹھانے کی مہلت نہ ملی تھی۔ لمحوں میں یہ سب ہوا تھا۔
”تم کو ہر بات مذاق محسوس ہوتی ہے تو اب مجھے کیوں روکا؟ مذاق کرنے دیتیں،جذباتیت میں نشانہ چوک گیا میرا وگرنہ یہ مذاق تم کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہنے والا مذاق تھا۔“ گرین کلر کی شرٹ کی آستین سرخ ہو رہی تھی مگر اسے اس کی کوئی فکر نہیں تھی وہ پری کو گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا جو سخت پریشان ہو رہی تھی۔
”گھر میں کوئی بھی نہیں ہے عائزہ! تم پاپا کو کال کرو پلیز۔“ طغرل کے بازو سے نکلنے والا خون کارپٹ پر گرنے لگا لائٹ پنک کلر کا کارپٹ سرخ ہوتا جا رہا تھا جبکہ وہ بے پروا انداز میں کھڑا تھا۔
”رہنے دو عائزہ! مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔“
”کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ کیوں سزا دے رہے ہیں خود کو،ذرا دیکھئے تو کس قدر بلیڈنگ ہو رہی ہے۔
“ عائزہ رونے لگی۔
”ہونے دو۔“ وہ اپنے بازو کو دیکھتے ہوئے کٹھور پن سے بولا۔
”اس طرح تو آپ کی جان جا سکتی ہے طغرل بھائی۔“
”جانے دو،اس طرح کسی کو قرار تو آئے گا۔“ اس کا لہجہ ضدی تھا،پری کو معلوم تھا وہ اس کو سنا رہا ہے اور جو کہہ رہا ہے وہ کرکے بھی دکھائے گا وہ وہاں سے نکل کر اپنے روم میں آئی اور معید کو کال کرنے لگی۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط