Episode 106 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 106 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

صبح کے دھندلکے میں ان کی گاڑی ایک شاندار محل کے مضبوط گیٹ کے سامنے رکی تھی ۔ وہ محل نما عمارت وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی یہ ایک پوش علاقہ تھا۔ جہاں بلند بالا عمارتیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں اور ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر، گیٹ باوردی چوکیدار نے کھولا، گاڑی اندر پورچ میں رکی۔ کار سے باہر نکلتے ہوئے اس نے دیکھا ایک جانب لائن سے سرونٹ کوارٹر ز بنتے ہوئے تھے سارا لان سرسبز تھا۔
پھولوں کی کیاریاں مہک رہی تھیں،کھجور کے درختوں کی بہتات تھی۔ جیسے ہی وہ اور غفران احمر گاڑی سے باہر آئے، کئی خادمائیں وہاں سلام کرتی ہوئی آئی تھیں ان میں سے ایک گندمی رنگت والی خادمہ نے غفران احمر کو سلام کیا اور اس کے ہاتھ کو بوسہ دیا تھا۔ 
”سرکار! اس بار آپ نے بہت ٹائم لگایا، ہم پریشان ہوگئے تھے ۔

(جاری ہے)

سب خیرت تو رہی نا ؟“اس خادمہ نے بڑے لگاوٹ بھرے انداز میں اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔

 
”سب خیریت رہی دلربا! ایک ہیرے کی تلاش میں ہم نکلے تھے ، وہ ہیرا ہمیں مل گیا بس اس کو حاصل کرنے کی تگ و دود میں ٹائم گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوا۔ “غفران احمر نے بے تکلفی سے خاموش کھڑی ماہ رخ کا بازو پکڑ کر دلربا کی طرف کرتے ہوئے پھر حکمیہ انداز میں کہا۔ 
”آج سے اس ہیرے کی حفاظت تم کرو گی دلربا“
”جو آپ کا حکم سرکار! بے فکر رہیے شکایت کا موقع نہیں دوں گی“
”ہم آرام کرنے جارہے ہیں جب تک تم اس کو بھی یہاں رہنے کے طور طریقے سمجھاؤ، شام میں ملاقات ہوگی“
غفران احمر حکم دے کر چلا گیا اس نے مڑ کر ماہ رخ کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا کہ وہ اس کی نگاہ میں کوئی معزز ہستی نہ تھی ۔
 
”ہوں…نام کیا ہے تمہارا؟،،دلربا خاصی دیر تک اس کا ناپسندیدہ نظروں سے جائزہ لینے کے بعد سخت لہجے میں پوچھنے لگی اس نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموش کھڑی رہی ۔ 
”میں تم سے پوچھ رہی ہوں ، تمہارا کیا نام ہے“
”کوئی نام نہیں ہے میرا“وہ سپاٹ لہجے میں گویا ہوئی تو دلربا نے زوردار طمانچہ اس کے چہرے پر مارتے ہوئے غصے سے کہا۔
 
”بدبخت! مجھے دماغ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تیرے یہ ناز و ادائیں اس بڈھے کو ہی دیوانہ بناسکتی ہیں میرے سامنے زیادہ اپنے حسن پر اترانے کی کوشش بھی کی تو وہ حال کروں گی تیرا…وہ بڈھا تجھ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کھرے گا ہونہہ!وہ فربہ مائل عورت تھی، پچاس کے لگ بھگ اس کی عمر تھی بھرے بھرے جسم پر اس نے تربوزی رنگ کی ساڑھی باندھی ہوئی تھی جس سے اس کا آدھا جسم عریاں ہورہا تھا۔
کانوں میں اس نے طلائی آویزے پہنے تھے، گلے میں کئی طرح کی چین جھول رہی تھیں ، بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹ کر رکھا تھا اور چہرے پر تیز میک اپ تھا۔ وہ غفران کی چہیتی ملازمہ تھا جو اس پر اپنا ہی حق سمجھتی تھی اور اس کی حکمرانی تھی ، اب ماہ رخ کی خوب صورتی و کم عمری اس کے لیے خطرہ تھی“
###
وہ کمرے میں آیا، چمکتا دمکتا خوشبوؤں سے مہکتا کمرا اس کے استقبال کے لیے موجود تھا بے شکن بستر دیکھ کر اس کو یاد آنے لگا وہ گزشتہ کئی دنوں سے پوری نیند نہیں لے پارہا تھا۔
صباحت کی کال اور سچوئشن جان کر اس کی نیند از خود ہی اڑگئی تھی اور یہاں آکر بھی اس کا سارا دن پریشانی میں ہی گزرا تھا، کبھی چچا کو سمجھاتے ہوئے تو کبھی صباحت کو تسلیاں دیتے ہوئے اور باقی وقت دادی جان کی سنگت میں گزرا تھا۔ وہ بستر پر لیٹا حسب عادت ایک تکیے پر سر رکھنے کے بعد دوسرا تکیہ اس نے منہ پر رکھ لیا پھر دفعتاً کئی لمبی لمبی سانسیں لیں۔
تکیے میں سے بہت دلفریب مہک آرہی تھی ۔ اس مہک نے اس کے روم روم میں ایک سرشاری دوڑادی ۔ بڑی مانوس ، بے حد سحر انگیز مہک تھی ۔ 
”ایک مزے کی بات تمہیں بتاؤں طغرل!،،دادی کی شوخی بھری آواز اس کی سماعت میں گونجی تو اسے یاد آیا، کل رات یہاں پر ی سوئی تھی اور یہ مہک اس کے بالوں کی ہے ۔ 
”اوہ…میں اس طرح نہیں سو پاؤں گا، یہ مہک مجھے ایموشنل کر رہی ہے“وہ بیڈ سے اٹھ گیا، نیند ہوا بن کر اڑ گئی تھی وہ کئی لمحوں تک سر تھام کر بیٹھا رہا، اپنے جذبات پر حیران ہوتا رہا۔
اس کے اعصاب کس طرح سے کمزور پڑ گئے تھے ۔ 
وہ بھی ایک کمزور سی لڑکی کی خاطر، جس لڑکی کو کل تک اس نے کوئی اہمیت نہ دی تھی ۔ بات بے بات اس کا مضحکہ اڑاتا رہا تھا۔ نامعلوم کس لمحے وہ لڑکی اس کے دل میں براجمان ہوگئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ اس کو بالکل ہی بے دم کردیا وہ کمرے سے نکلا تو ملازمہ کوریڈور سے گزر رہی تھی اس کو دیکھ کر وہ پوچھنے لگی ۔
 
”صاحب! کچھ چاہیے تو مجھے بتائیں“
”نہیں شکریہ، ہاں وہ پری کو کہہ دیں میں دوسرے روم میں سورہا ہوں ، وہ اپنے روم میں سو جائیں“وہ کہہ کر چلا گیا۔ 
###
”توبہ توبہ …کیا وقت آگیا ہے وہ پنکی چہرے سے کتنی معصوم اور بے زبان دکھائی دیتی تھی مجھے تو بالکل یقین نہیں آرہا ہے، پنکی اس طرح کی لڑکی ہوگی اندر سے“وہ بوجھل قدموں سے اندر داخل ہوا تب ہی اسے مما کی آواز سنائی دی، وہ سیل فون پر اپنی بیٹی شازمہ سے بات کر رہی تھیں۔
لاؤنج میں ان کی حیرت آمیز آواز پوری طرح سے گونج رہی تھی ۔ 
”ہاں بھائی ! پرابلمز تو کری ایٹ ہوں گی ، وہ شادی شدہ نہیں ہے اور ماں بننے والی ہے ۔ مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں آرہا ہے وہ بہت خوب صورت اور معصوم ہے لیکن حرکتیں دیکھو ذرا…کس دلیری سے خاندان کا نام رسوا کرتی رہی اور ہوش اب آیا ہے جب پانی سر سے گزر گیا۔ سچ بات ہے آج کل چہرے دھوکہ دیتے ہیں کسی پر اعتبار کا وقت ہی نہیں رہا اور تمہارے میاں اور سسر کا کیا حال ہے، بیٹی کے بارے میں ایسے وقت میں جب وہ گھر بیٹھے ماں بننے جارہی ہے ؟،،وہ فکر مندی سے بیٹی سے اس کی نند کے متعلق معلومات لے رہی تھیں۔
شیری نے ان کے پاس جانے کا ارادہ ملتوی کرکے اپنے روم کی راہ لی، اس کے دل کی دنیا میں طوفان برپا تھا۔ 
عادلہ نے پری کے بارے میں جو انکشافات کیے تھے وہ بڑے اذیت ناک تھے۔ پری ایسی لڑکی تھی جس کو اس نے دل سے چاہا تھا اور عمر بھر کے لیے اس کو اپنا بنانے کی تمنا کی تھی گو کہ پری نے پہلے دن سے ہی اس کی بے عزتی کی تھی اس کی چاہت کو تذلیل کا نشانہ بنایا تھا۔
شہریار کو اس کی یہی ادا، یہی سادگی دیوانہ بناگئی تھی ویسٹرن سوسائٹی میں وہ بہت ٹائم گزار کر آیا تھا اور وہاں رہ کر وہ ان لوگوں کے طور طریقوں پر چلتا رہا تھا اس کے لیے صنف مخالف کی ذات پرکشش نہ رہی تھی اور نہ ہی قابل احترام و عزت اور یہاں آکر پہلی ملاقات میں اسے احساس ہواکہ عورت ایک تقدس و پاکیزگی کا نام ہے۔ عورت کی حیا، کردار کی پختگی و بے لچک مزاج اس کے گرد ایسی پاکیزگی کا حصار قائم کردیتا ہے کہ کسی مرد کی خراب نگاہیں اس کی سمت اٹھنے کی جرات ہی نہیں رکھتی۔
وہ بھی پری کی طرف نگا ہ اٹھا کر دیکھنے میں جھجک محسوس کرتا، ایک بے حد اونچا مقام وہ پری کو دے چکا تھا اور سوچا تھا کہ عادلہ سے دوستی کرکے رفتہ رفتہ اس کی پسند ناپسند معلوم کرکے اس کی پسند کے سانچے میں خود کو ڈھال لے گا پھر اس کے لیے پری کو حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں رہے گی لیکن عادلہ نے جو کچھ بتایا وہ سن کر اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی تھی ۔
 
”پری کے افیئرز کی خبر سننے پر تم کیوں اس قدر مضطرب ہوگئے ہو ؟تمہارے لیے یہ سب نیا تو نہیں ہے پھر تم خود کہاں کے پارسا ہو ؟تم بھی تو اپنی گرلز فرینڈ کے ساتھ وقت ضائع کرتے رہے ہو۔ تمہاری تیس سالہ لائف میں کتنی گرلز آئیں اور گئیں اگر کاؤنٹ کرنے بیٹھو گے تو ان گرلز کی تعداد بھی یاد نہ ہوگی پھر پری کے اس کے کزن کے ساتھ تعلقات کا سن کر اتنے حساس ہوگئے ہو ؟“وہ اپنے آپ سے الجھتا ہی جارہا تھا۔
 
”مردوں کو ایسی اونچ نیچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے مگر عورت اپنی شرم و حیام کو پس پشت ڈال کر نفس گمراہ راہوں پر چلے تو اپنے منصب سے گر جاتی ہے لیکن میں یقین اور بے یقینی کے دوراہے پر موجود …میرا دل کہتا ہے پری ایسی نہیں ہے پر عادلہ کی بات کو بھی رد کرنا ممکن نہیں۔ مما بھی کال پر پنکی کے متعلق بات کر رہی ہیں، پنکی کو دیکھا ہے میں نے بہت معصوم اور کیوٹ لڑکی ہے وہ کم گو اور شرمیلی۔
وہ کہیں انگیج بھی نہیں ہے اور حاملہ ہے۔ ایسی بھولی و معصوم صورت لڑکی۔ مما ٹھیک کہتی ہیں چہرے دھوکہ دیتے ہیں کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے“وہ اٹھ کر ٹہلنے لگا اس کے انداز میں عجیب وحشت و جنون تھا۔ 
”میں نہیں جانتا میں پری سے محبت کرتا ہوں یا نہیں“سگریٹ سلگا کر لمبے لمبے کش لیتا ہوا وہ مسلسل پری کے متعلق سوچے جارہا تھا۔ عادلہ کے جملے سماعتوں میں گونج رہے تھے ، وہ گھائل ہوتا رہا۔
 
”میں اسے پانا چاہتا ہوں یا نہیں؟میں نہیں جانتا مگر میں اس کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرسکتا“اس نے سگریٹ جنونی انداز میں ایش ٹرے میں مسل دی ۔ 
###
فیاض کی سادگی سے شادی کرنے پر صباحت کے ارمان برف ہورہے تھے کوئی اور موقع ہوتا تو وہ کسی صورت یہ ہونے نہیں دیتیں، وہ ایک نمائش پسند عورت تھیں، خود نمائی و خود پسندی اس کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔
فیاض صاحب کے فیصلے پر انہوں ے واویلا بہت کیا جس میں عادلہ نے بھی ان کا ساتھ دیا وہ بھی ماں کی طرح اس کی شادی دھوم دھام سے کرنے کی خواہش مند تھی ۔ فیاض صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے خلاف عادت ان ماں بیٹیوں کی زبردست کلاس لی۔ عائزہ تو مارے شرمندگی کے ان کے سامنے بھی نہیں آئی مگر کمرے کے کھلے دروازے سے باپ کی لعن طعن کرتی آوازیں اس کو صاف سنائی دے رہی تھیں اور وہ کانپتی ہوئی اپنی لغرشوں پر خاموش آنسو بہا رہی تھی ۔
صباحت اور عادلہ بھی اپنی ساری اکڑ اور سرکشی بھول کر فیاض کے غصے اور جلال کو دیکھ کر بھیگی بلی بن گئی تھیں۔ 
فیاض نے شادی کی تیاری پری اور اماں کے ذمہ داری ڈال دی تھی اور ان تینوں ماں بیٹیوں کو ان تیاریوں سے دور رہنے کو کہا تھا، اماں نے بھی ان کے خونخوار موڈ کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرلی تھی کہ وہ دیکھ رہی تھیں اپنی غلطی ہونے کے باوجود بھی صباحت ذرا لچک دکھانے کو تیار نہ تھیں اور عادلہ بھی ماں کا ساتھ دے رہی ہے ۔
فیاض کے منع کرنے پر وہ پیچھے ہی رہی تھیں کسی کام سے سروکار نہ رکھا، اماں نے اس کو سامان کی لسٹ بناکردی اور ساتھ ہی طغرل کو حکم دیا کہ وہ پری کو شاپنگ سینٹر لے جائے، طغرل نے فوراً ہی حامی بھر لی۔ 
”شاپنگ کرنا آتی ہے تمہیں ؟،،اس نے گیٹ سے نکلتے ہی سوال کیا۔ 
”جی ہاں، تب ہی دادی جان نے بھیجا ہے مجھے“
”ہوں! ڈریسنگ تمہاری ہمیشہ بہترین ہوتی ہے، عائزہ کے لیے گارمنٹس سلیکشن لاجواب کروگی،،وہ اس کی وہائٹ اینڈ پنک فراک سوٹ پر ستائشی نظریں ڈال کر گویا ہوا۔
 
”ڈریسز اینڈ جیولری، سینڈلز وغیرہ میں عائزہ کی پسند کے خریدوں گی ابھی تو کراکری، بیڈ شیٹس، بلینکٹس وغیرہ کی خریداری کرنی ہے“اس کے لہجے میں بڑی بہنوں جیسی ذمہ داری و احساس تھا، جو طغرل نے گہرائی سے محسوس کیا اس کو مسرت ہوئی اس کی فراخدلی پر۔ 
”ایک بات پوچھوں تم سے، برا تو نہیں مانو گی ؟،،وہ ایک دم ہی سنجیدہ ہوکر گویا ہوا۔
 
”جی!ضرور پوچھیں،،پری نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پراعتماد انداز میں کہا۔ 
”عائزہ کی اس طرح شادی ہونا تم کو کیسا لگ رہا ہے ؟“
”پاپا جو کر رہے ہیں اس میں عائزہ کی بہتری ہوگی “
”تم کو فیل نہیں ہوتا چچا جان اس کے ساتھ ساتھ خود کو بھی سزا دے رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے وہ سوچتے ہوں گے کہ میں نے ان پر اتنا بھروسہ کیوں کیا ؟ان کی ذمہ داری تھی بچیوں پر نظر رکھنا اور وہ ایسا نہ کرسکے ؟“
”نہیں، آپ کی سوچ بالکل فضول ہے۔
یہ ڈیوٹی ممی کی ہے، پاپا اپنی ذمہ داریوں کو ایک بہترین اور محبت کرنے والے فادر کی طرح انجام دے رہے ہیں۔ ممی نے سب کچھ جانتے بوجھتے ان کو من مانی کی اجازت دی اور اب بھی اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی پاپا سے سب کچھ چھپایا انہوں نے جو انہیں نہیں چھپانا چاہیے تھا“
”ویری نائس! میں تم میں بہت پھرتی دیکھ رہا ہوں، بے حد پراعتماد لگ رہی ہو اور بہت خوش بھی، کیا وجہ ہے خوشی کی؟،، وہ پری کی طرف دیکھتا ہوا مسکرا کر بولا۔
 
”مطلب کیا ہے آپ کا ؟،،اس کا موڈ ایک دم ہی بدلا۔ 
”آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں عائزہ پر جو گزری اس پر میں خوش ہوں۔ پاپا، ممی، دادی کو اداس دیکھ کر میں خوش ہورہی ہوں ؟“
”اوہ! میرا مطلب یہ تو نہیں تھا پری“وہ پریشان ہوگیا۔ 
”یہی مطلب تھا آپ کا، میں اچھی طرح جانتی ہوں“
”میرا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا تم بلاوجہ بات کو بڑھارہی ہو“
”ہونہہ! میں نہیں جارہی آپ کے ساتھ پلیز گاڑی روکیں“طغرل کی بات اس کے جذبات بری طرح مجروح کرچکی تھی وہ غصے سے اس کا بازو جھنجھوڑتی ہوئی گویا ہوئی۔
اس کی اس بے وقوفی سے کار بری طرح لہرا گئی تھی ارد گرد سے گزرنے والے لوگوں کی نگاہیں ان کے اوپر اٹھی تھیں۔ 
”کول ڈاؤن پری! یہ کیا حماقت ہے ؟ابھی گاڑی کسی سے بھی ٹکر اجاتی، کیوں پرابلمز کری ایٹ کرنا چاہتی ہو“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط