Episode 149 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 149 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

کانچ کو خالص ہیرا سمجھے‘ ساری بھول ہماری تھی
اک صحرا کو دریا سمجھے‘ ساری بھول ہماری تھی
کتنی خوش فہمی تھی ہم کو‘ ان کی نہ کو ہاں گردانا
وہ کیا بولے ہم کیا سمجھے‘ ساری بھول ہماری تھی
اردگرد سناٹا تھا ،اسٹریٹ لائٹس بھی اکا دکا روشن تھیں۔ نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں میں کہیں کہیں روشنیاں چمک رہی تھیں جو اس اندھیرے کو ختم کرنے کیلئے ناکافی تھیں۔
وہ بے اوسان بغیر دیکھے بھاگ رہی تھی ،اونچے نیچے راستوں پر کئی ٹھوکریں لگی تھیں۔ نوکیلے پتھروں سے زخم آئے تھے مگر اسے کسی کی پروا نہ تھی ،وہ بس وہاں سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔ طغرل آوازیں دیتا اس کے پیچھے تیز تیز قدموں سے آ رہا تھا۔
”پری… پری رک جاؤ… میری بات سنو… آگے راستہ بہت خراب ہے… گر جاؤ گی تم…“ پری پر اس کی بات کا منفی اثر ہوا تھا ،وہ رکنے کے بجائے مزید تیز دوڑنے لگی تھی اور اس کو ڈھلوان کی طرف جاتے دیکھ کر طغرل بدحواس ہو کر دوڑا اور پری کو پکڑنا چاہتا ہی تھا کہ وہ پاؤں سلپ ہونے کی وجہ سے قلا بازیاں کھاتی ہوئی گرتی چلی گئی تھی۔

(جاری ہے)

###
اس کے چہرے پر آگ کی سرخی تھی۔ آنکھوں میں گویا شعلے دہک رہے تھے، عابدی صاحب کے سمجھانے اور عاق کر دینے کی دھمکی شیری کو اپ سیٹ کر گئی تھی۔ اس نے فوراً آفس سے آکر اپنے سامان کی پیکنگ کی تھی اور مسز عابدی کے کمرے میں آ گیا جہاں رجب چائے کے برتن سمیٹ کر جا رہا تھا۔
”رجب! میرا سامان روم سے لاکر کار کی ڈگی میں رکھو۔“ وہ بارعب انداز میں ملازم سے مخاطب ہوا تھا۔
”جی بہتر چھوٹے صاحب!“ وہ کہہ کر چلا گیا۔
”خیریت تو ہے بیٹا ،کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ مسز عابدی حیرانی سے گویا ہوئی تھیں۔
”گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں میں۔“ وہ اکھڑ لہجے میں بولا۔
”گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں ،کیوں؟ کیا ہوا ہے شیری؟“ وہ حیرانی کا شکار ہوئی تھیں۔ اس کے بگڑے تیور ،اکھڑ لہجہ بھرپور بیگانگی بھرا انداز ،وہ ایک دم اجنبی بن گیا تھا۔
”یہ آپ ڈیڈی سے پوچھئے کتنی بے عزتی کی ہے انہوں نے میری۔ وہ باپ میرے ہیں اور فکر ان کو دوسروں کی ہے۔“
”پہلے آپ بتائیں ایسی کیا بات ہوئی ہے جس نے آپ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے… کیا کہہ دیا ہے عابدی نے آپ کو؟“ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر اس کو قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔
”ڈیڈی مجھے فورس کر رہے ہیں کہ میں عادلہ سے شادی کروں وگرنہ وہ مجھے جائیداد سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ تعلق بھی ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔
“ وہ خفگی بھرے انداز میں کہہ رہا تھا۔
”اچھا اس بات پر آپ نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟“
”یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہے ممی؟ ڈیڈ نے پری کے کزن کو مجھ پر فوقیت دی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ طغرل ایک آئیڈیل پرسن ہے میرے سے زیادہ ایبل اینڈ جینئس ہے وہ۔“
”تکلیف ہو رہی ہے نا آپ کو… اپنے ڈیڈی کے منہ سے کسی اور کیلئے تعریف و توصیف سن کر؟“
”آف کورس ممی! جیلسی فیل نہیں ہو گی مجھے؟“
”اور ہمیں گلٹی فیل ہوتی ہے شیری! آپ کا ہی ہم عمر طغرل بھی اس نے بھی فارن کنٹری میں زندگی گزاری ہے اور آج دیکھیں اس کو اس نے نہ صرف اپنا فیوچر پلان کیا ہے بلکہ فیاض بھائی کا بھی سہارا بنا ہے وہ اور آپ کیا کر رہے ہیں… کیا ہے آپ کی فیوچر پلاننگ؟ اس عمر میں آپ کو اپنا نام بزنس کی دنیا میں روشن کرنا چاہئے تھا۔
”ممی آپ بھی ڈیڈی کا ساتھ دے رہی ہیں؟“ وہ کچھ حیرانی و دکھ بھرے لہجے میں گویا ہوا۔
”ساتھ نہیں دے رہی ،سچ کہہ رہی ہوں عابدی عموماً اس بچے کا ذکر کرتے رہتے ہیں مجھ سے ،وہ بے حد انسپائر ہیں اس کی محنت سے فراز بھائی بھی کامیاب نامور تاجروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس نے اپنے ڈیڈ کے نام کا سہارا نہیں لیا۔ اپنا نام خود بنانے کی محنت کر رہا ہے اور آپ کے پاس عابدی کے نام کے علاوہ کیا ہے؟ خدا نخواستہ کل کسی بھی حادثے سے بزنس ٹھپ ہو جاتا ہے تو آپ کے پاس کیا ہوگا شیری؟“
###
نہ دھڑکنیں تھی نہ دل بند ہوا سانسوں کا رابطہ اسی طرح چلتا رہا تھا ،وہ یک ٹک اعوان کے چہرے کو تکتی رہی۔
اس کی آنکھوں میں دھندلاہٹ ابھرنے لگی اور اس دھندلاہٹ میں اس کا چہرہ گم ہوتا گیا ،وہ دھندلاہٹ آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے بہہ نکلی۔ لاحاصل خواہشوں نے ایک ایک کرکے اس کی ہر خوشی چھین لی تھی۔ زندگی سزا بن کر رہ گئی تھی اور کچھ نہیں۔
”میں نے تمہیں اسی لئے نہیں بتایا تھا کہ تم برداشت نہیں کر پاؤ گی ،تمہارے امی ابو اس رات کے بعد صبح بیدار نہ ہو سکے تھے۔
بہت غیرت مند اور بے حد عزت دار تھے ،کس طرح اٹھ کر لوگوں کا سامنا کرتے اور کس منہ سے بتاتے ،ان کی بیٹی رسوائی کی کالک ان کے چہروں پر مل کر جا چکی ہے۔ تمہارے چچا چچی بھی زیادہ عرصے زندہ نہیں رہے تھے۔“
”جس رسوائی نے امی ابو کو ہوش میں آنے سے قبل ہی دنیا چھوڑنے پر مجبور کر دیا وہ رسوائی چچا چچی کو بھلا کب تک زندہ رہنے دیتی۔“
”ماہ رخ کچھ تو بولو کھل کر روؤ اس طرح خاموش آنسو بہانے سے تمہارا دل…“ اس کی سوچوں سے بے خبر اعوان اس کے قریب آکر بولا۔
وہ بھر ائے لہجے میں گویا ہوئی۔
”کچھ نہیں ہوگا میرے دل کو بہت ڈھیٹ ہے یہ ،جب ان کو چھوڑ کر جاتے ہوئے یہ دھڑکنا بند نہیں ہوا تو اب بھی بند نہیں ہوگا اعوان! مجھے تنہا چھوڑ دو۔ میں تنہائی میں رونا چاہتی ہوں ،میرے آنسو میرے گناہ کا کفارہ نہیں بن سکتے لیکن شاید میرے تڑپتے درد دل کا مداوا بن جائیں۔“
”میں جا رہا ہوں ،مگر اب یہ آنسو بے مصرف ہی ہوں گے ماہ رخ! اب ان لوگوں کو تمہارے آنسوؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہے۔
“ اعوان نے اس کو رسانیت سے سمجھا جانا چاہا تھا۔
”دعائیں… مجھ جیسی عورت کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں مستجاب ہوں گی جو گناہوں کی خاک میں لپٹی ہوئی ہے؟“ اس کی آواز غم سے بوجھل تھی۔
”تم سچے دل سے توبہ کرو گی تو معافی مل جائے گی ،توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ماہ رخ!“
###
سناٹے میں اس کی آواز دور دور تک گونج رہی تھی ،وہ چیختی ہوئی ڈھلوان کی طرف لڑھک رہی تھی اور وہ ڈھلوان ایک گہری کھائی میں جا کر ختم ہوتی تھی اور اس کھائی میں بارش کا پانی جمع تھا جس نے چھوٹے سے تالاب کی صورت اختیار کر لی تھی۔
طغرل نے اسے لڑھکتے دیکھ کر کوٹ اتار کر پھینکا اور جست لگا دی اور بڑی جدوجہد کے بعد گرتی ہوئی پری کو سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
”کیا حرکت تھی یہ؟“ وہ دونوں بے جان سے ناہموار پتھریلی زمین پر پڑے تھے اس نے چھلانگ لگائی تھی اور دور تک اس کے ساتھ اسے پکڑنے کی سعی میں گھسیٹتا چلا گیا تھا اس دوران اسے بھی خاصے گہرے زخم آئے تھے۔
جو بھی ہوا تھا آناً فاناً ہوا تھا وہ خطرناک اور تکلیف دہ تھا۔
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں کیا چاہتی ہو تم آخر؟ کیوں اتنے تماشے کرتی ہو؟“ اس کی سانس بری طرح سے پھولی ہوئی تھی اس سے بھی زیادہ وہ غصے و اضطراب کا شکار تھا۔
”تم کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے ،مجھے کوئی لفنگا ،بدمعاش سمجھتی ہو ،تو کیوں آتی ہو میرے ساتھ… کیوں مجھے اذیت میں مبتلا کرتی ہو؟“ پری اس کے قریب ہی بے دم سی پڑی تھی۔
طغرل کی یاسیت بھری آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی اس کی بھاری دلکش آواز اس وقت آہ و سوز سے لرز رہی تھی۔ محسوس ہو رہا تھا وہ اب رو پڑے گا ،شدت دکھ سے اس کی آواز نم ہو رہی تھی۔
”کتنا خوش تھا میں یہ یقین ہو گیا تھا مجھے کہ تم مجھ سے محبت کرنے لگی ہو ،میری چاہت ،میری محبت تمہارے پتھر دل کو موم بنا گئی ہے لیکن… لیکن وہ سب سہانے سپنے تھے ،سراب اور دھوکہ…“ پری کو محسوس ہوا وہ اپنے بال نوچ رہا ہے ،خود کو مار رہا ہے وہ خود کو اپنے جذبوں کو گالیاں دے رہا تھا۔
کوشش کے باوجود بھی وہ کچھ کہہ نہ سکی تھی۔ کچھ پتھریلے نوک دار پتھر ابھی بھی اس کی پشت کے نیچے تھے ،اس کی نس نس درد سے بھر گئی تھی ،زبان سوکھی لکڑی کی مانند خشک تھی جسم کا کوئی بھی حصہ حرکت کرنے کے قابل نہ تھا۔
”آئم اسٹوپڈ… رئیلی اسپوٹڈ!“ وہ ابھی تک خود سے انتقام لینے میں لگا تھا ،پری کو دیکھ نہیں رہا تھا۔
”آہ…“ پری نے اٹھنے کی سعی کی تو بے اختیار اس کے منہ سے درد بھری راہ نکلی تھی۔
وہ اٹھنے میں ناکام رہی تھی۔
”طغ… رل…“ درد بھرے لہجے میں بے ربط آواز ابھری تھی۔ اس آواز میں کچھ ایسا ہی احساس تھا کہ طغرل نے مڑ کر دیکھا تھا ،آسمان پر چاند پورا تھا۔ چاندنی اس ویرانے میں پھیلی ہوئی تھی اور اس مدھم روشنی میں اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔ وہ کچھ فاصلے پر پڑی تھی ٹیڑھے میڑھے انداز میں بے حد بے بسی و بے کسی بھرا انداز تھا۔
”طغرل…“ درد میں ڈوبی آواز پھر ابھری تھی۔
”پارس…“ اس نے تیزی سے اٹھنا چاہا پھر ٹانگ میں اٹھنے والے شدید تر درد نے لمحے بھر کو اسے سانس لینا بھلا دیا تھا۔
نامعلوم فریکچر تھا یا زخم… چند لمحے اسے اس شدید ترین تکلیف کو برداشت کرنے میں لگے پھر وہ تکلیف برداشت کرکے کھڑا ہوا اور پری تک پہنچا تو وہ درد سے کراہ رہی تھی۔
اس کو تکلیف میں دیکھ کر وہ اپنی تکلیف بھول کر اس پر جھک گیا اور بہت آہستگی سے پری کو سیدھا کیا تھا۔
”مائی گاڈ! تمہارے تو سر سے خون نکل رہا ہے۔“ پری کے چہرے پر خون پھیلا ہوا تھا وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی اس کے منہ سے نکلنے والی کراہیں اس کو ہوش میں ظاہر کر رہی تھیں۔
طغرل نے سراسیمہ ہو کر ادھر ادھر دیکھا مگر وہاں دور دور تک اس کو کوئی مددگار دکھائی نہیں دیا تھا پھر اس نے ایک نگاہ دوڑ کھڑی گاڑی کو دیکھا پھر دوسری نگاہ بے سدھ پڑی پری کو دیکھا اور اس نے پھرتی سے اس کو زمین سے اٹھایا اور پھر اس کی گاڑی تیزی سے ہسپتال کی جانب رواں دواں تھی۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط