Episode 80 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 80 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

رات کا نامعلوم کون سا پہر تھا۔
بے خبر سوئی ہوئی پری کی کچھ عجیب کھٹر پٹر کی آوازوں سے آنکھ کھلی تھی۔ اس نے چہرے سے معمولی سا کمبل ہٹا کر دیکھا کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی میں دادی اسے کارپٹ پر بیٹھی دکھائی دی تھیں۔ ابھی وہ کمبل سے نکلنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دادی نے ایک نظر اس کو اس طرح دیکھا گویا یہ تصدیق کرنا چاہ رہی ہوں کہ وہ بیدار تو نہیں ہو گئی اور اس لمحے جو بے بسی و بے کسی ان کی بوڑھی آنکھوں میں تھی اس کا بھرم رکھنے والے انداز نے پری جیسی بے حد حساس و گداز دل لڑکی کو پتھر کا بنا دیا تھا وہ کوئی جنبش نہ کر سکی کسی مجسمے کی مانند لیٹی رہ گئی۔
دادی چند لمحے محتاط نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے کے بعد مطمئن ہو کر اپنے کام میں لگ گئی تھیں۔ ان کے سامنے ایک چھوٹی سی خوبصورت جڑاؤ صندوقچی رکھی ہوئی تھی وہ چاندی بنی صندوقچی تھی جس پر سرخ، ہرے، جامنی اور زرد رنگوں اور کندن کا دیدہ زیب کام تھا۔

(جاری ہے)

یہ صندوقچی ان کے بہترین حالات کی نشانی تھی جس کو وہ بڑی حفاظت نقاست سے رکھتی تھیں۔

اس میں ان کی تمام قیمتی چیزیں تھیں۔ یہ کسی وقت میں قیمتی زیورات، تحفوں اور رقوم سے بھری رہتی تھی اور جب آزمائشوں کا دور شروع ہوا تو اچھے دنوں کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی ضرورتوں کے تحت ان سے دور ہوتی چلی گئیں اور اب ان کے پاس ماسوائے ایک طلائی نیکلس سیٹ کے اور کچھ دیگر معمولی سی چھوٹی موٹی چیزوں کے باقی نہ بچا تھا جو وہ کسی کو تحائف کی صورت میں نہیں دی سکتی تھیں۔
صندوقچی میں موجود ہر چیز کا انہوں نے کئی بار بغور جائزہ لیا اور پھر مایوس ہو کر انہوں نے اس میں سے نکالا ہوا سامان واپس منتقل کرنا شروع کر دیا تھا اس عمل کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر آنسو لکیروں کی صورت میں بہنے لگے تھے۔
”میرے مالک! یہ دن بھی تیری اس گناہ گار بندی کو دیکھنا تھا۔ کسی زمانے میں یہ ہاتھ صدقات و خیرات اور تحفے تحائف بانٹتے نہ تھکتے تھے اور آج…!“ وہ اس وقت اتنی جذباتی اور شکستہ دل ہو رہی تھیں کہ اپنی بڑبڑاہٹ کے تیز ہونے کا ان کو احساس بھی نہ ہوا تھا۔
جو پری دم سادے سن رہی تھی۔ دادی کی طرح اس کے آنسو بھی بے آواز بہہ رہے تھے وہ دھندلائی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہی تھی۔
”یہ کڑا وقت آن پڑا ہے میں خالی ہاتھ بیٹھی ہوں۔ مذنہ اور طغرل جا رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ اپنے بیٹا، بہو، پوتے، پوتی کو کوئی تحفہ بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ کیا سوچیں گے وہ لوگ ان کی ماں، ان کی دادی ان سے پیار نہیں کرتی ہے۔
تحائف تو محبت کی نشانی ہوتے ہیں مذنہ اور طغرل کیا کچھ نہ لائے تھے ہر چیز قیمتی اور خوبصورت تھی اور میں تو ان کو معمولی سی چیز بھی دینے کے قابل نہیں رہی ہوں کیا کروں؟ کس سے کہوں؟ فیاض نے تو اپنا فرض ادا کر دیا ہے وہ سب کیلئے تحفے لے آیا ہے مگر میں کہاں سے رقم لاؤں؟ فیاض سے کیا کہوں وہ تو پہلے ہی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور اب بھی تحفے لانے کیلئے اس نے قرض ہی لیا ہوگا۔
“ دادی کو بڑھاپے نے کمزوری عطا کی تھی۔
وہ صندوقچی کو ٹھکانے پر رکھ کر آہستگی سے بیڈ پر دراز ہو گئی تھیں۔ ان سے زیادہ رویا تو نہیں گیا ملال و حسرتوں کے تمام رنگ اپنے چہرے پر سجا کر وہ جلد ہی نیند سے ہم آغوش ہو گئی تھیں۔ مگر کمبل میں منہ چھپائے پری کے آنسو بہتے رہے تھے۔
گہری اداسیاں اس کی روح تک میں اترتی چلی گئی تھں۔ دبیز افسردگی کے سمندر میں وہ ڈوبتی جا رہی تھی وہ کسی بھی صورت دادی جان کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
وہ ساری رات اس کی آنکھوں میں کٹی تھی۔ بڑی اذیت بھری رات تھی دادی کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو گویا اس کے دل پر برستے رہے تھے اس رات کی صبح بڑی اداسیوں کے سنگ نمودار ہوئی تھی۔ فجر کی نماز اس نے دادی کے ساتھ ہی ادا کی تھی۔
پریشانیوں اور تنگ دستی کے احساس نے دادی کی ساری توانائی حوصلے چکنا چور کر دیئے تھے خواہشیں اگر پوری نہ ہوں تو انسان کو بے بسی کا احساس دلاتی ہیں۔
زندگی کا حسن چھین لیتی ہیں۔ خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں وہ تو بچپن سے اس درد کا شکار تھی۔ دادی کے اس درد کو اس سے زیادہ کون محسوس کر سکتا تھا؟ انہوں نے بہ مشکل اشراق کی نماز ادا کی تھی اور لیٹ گئی تھیں۔ پری نے انہیں بیڈ ٹی کے ہمراہ ایک خواب آور گولی دی تھی کہ کچھ دیر بعد ہی وہ گہری نیند سو گئی تھیں۔ ان کو گہری نیند میں محو دیکھ کر پری آہستگی سے بیڈ سے اٹھی اور شال اوڑھ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
اس کے قدم سٹور روم کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں ٹرنک میں وہ تمام گفٹس محفوظ تھے جو مثنیٰ اور عشرت جہاں کی طرف سے اس کو وقتا فوقتاً ملتے رہتے تھے۔ وہ کبھی ان کو استعمال نہیں کرتی تھی۔ اس کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ گفٹس اس کو خوش کرنے کیلئے اپنائیت کا اظہار کرنے کیلئے بھیجے جاتے ہیں مگر وہ جانتی تھی وہ مہنگے ترین امپورٹڈ چیزیں کبھی بھی ان خوشیوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکتیں جو ماں باپ نے علیحدہ ہو کر اس سے چھین لی تھیں۔
اس کے احساسات کے برعکس عادلہ اور عائزہ بہت بے تکلفی سے اس کی چیزیں استعمال کرنے لگی تھیں۔ جس پر اس کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر دادی جان نے اس کے گفٹس اپنے ہاتھوں میں ٹرنک میں رکھ کر تالا لگایا اور چابی اپنے پاس رکھنے لگی تھیں۔
وہ چابی ساتھ لے آئی تھی اور دادی کے بیدار ہونے سے قبل وہ اپنی رات بھر کی سوچوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتی تھی۔
###
”یہ بہت اچھی ہے، تم خوامخواہ پریشان رہیں۔“ ان سے تفصیلی بات سن کر عابدی چائے پیتے ہوئے اطمینان سے گویا ہوئے۔
”پریشان، میں تو سخت خوفزدہ ہو گئی تھی۔ فون پر بات کرتے وقت ان کا انداز اتنا جارحانہ تھا مجھے فیل ہو رہا تھا ابھی فون سے نکل کر ہی وہ مجھ پر جوتے برسانا شروع کر دیں گی۔“
ان کے لہجے میں سخت مرعوبیت تھی عابدی مسکرا اٹھے تھے۔
”میں جانتا ہوں ان کے مزاج کو وہ بے حد اصول پسند اور روایت پرست ہیں مگر ان میں خوبی بھی ہے کہ وہ مہمان نواز ہونے کے علاوہ درگزر سے کام لیتی ہیں بے حد شفیق و پر خلوص نیچر ہے ان کی۔“
”جی بالکل ان سے مل کر مجھے احساس ہوا تھا کہ وہ بے حد سوئیٹ ہیں۔“
”شیری کو سمجھاؤ، اگلی دفعہ وہ ایسی اسٹوپڈ حرکت نہ کرے، آفس جا کر میں شیری کی حرکت پر ایکسکیوز کر لوں گا فیاض سے۔
“ وہ اٹھتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوئے تھے۔
”جی بہتر۔“ حسب عادت وہ عابدی کو کار تک چھوڑنے آئی تھیں اور جب وہ اندر آئیں تو ملازم حیران پریشان اپنی جانب آتا ہوا ملا۔
”ارے کیا ہوا خیرو؟ تم اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟“
”بیگم صاحبہ، بابا صاحب بے حد غصہ میں ہیں۔“
”کیوں… کیا ہوا؟“
”وہ کسی کی تصویریں تلاش کر رہے ہیں جو مل نہیں رہی ہیں۔
“ ملازم بری طرح گھبرایا ہوا تھا۔ سرد موسم میں بھی اس کو پسینہ آ رہا تھا۔
”تصویریں… آؤ میرے ساتھ۔“
وہ گرم شال لپیٹتی ہوئی تیز تیز قدموں سے آگے بڑھی تھیں اور شیری کے روم میں داخل ہو کر وہ سکتے کی کیفیت کا شکار ہو گئی تھیں۔
”اوہ، کم ان ماما۔ پلیز پری کی فوٹو گراف ڈھوندنے میں میری مدد کریں وہ کہیں گم ہو گئی ہیں۔“
بہت پریشان لہجے میں وہ ان سے مخاطب ہوا تھا۔
اس کے کمرے میں کوئی بھی شے ٹھکانے پر نہیں تھی۔ ایک ہفتے قبل ہی کتنے چاؤ سے اس کے آنے سے قبل اس کا روم ڈیکوریٹ کروایا تھا جسے اجاڑنے میں اس نے گھنٹہ بھی نہیں لگایا تھا۔ وارڈ روب سے تمام کپڑے، کتابیں، کشنز، ڈیکوریشن پیسز، حتیٰ کہ بیڈ سے تکیے اور میٹرس کو بھی دور پھینک دیا گیا تھا۔ کارپٹ پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی اور اس تمام بکھیڑے کے درمیان وہ کسی مسافر کی طرح لٹا پٹا کھڑا تھا اس کے چہرے پر پریشانی ہی پریشانی رقصاں تھی۔
”شیری، یہ کیا حال کر دیا ہے آپ نے روم کا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے خدا نخواستہ یہاں کوئی بہت بڑی ڈکیتی ہوئی ہے۔“
”ڈکیتی ہی تو ہوئی ہے ماما۔“ وہ مضطربانہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”پری کی فوٹو گرافی کی ڈکیتی ہوئی ہے۔ ان سے بڑھ کر قیمتی شے کیا ہو گی یہاں۔“
اس کا لہجہ عجیب تھا ملازم کی موجودگی میں مزید بات کرنا انہیں اچھا نہیں لگا وہ اسے جانے کا کہہ کر گیٹ بند ہونے کے بعد اس سے مخاطب ہوئیں۔
”پری کی فوٹو گرافس تو میں اس کی گرینڈ مدر کو دے آئی تھی پھر وہ آپ کو یہاں کیسے ملیں گی؟“
”ایک کاپی میں نے آپ کو دی تھی اور ایک اپنے پاس رکھی تھی۔“
”کیا، ایک آپ نے اپنے پاس رکھی تھی مگر کیوں؟ میں تو سمجھی تھی آپ نے دونوں دے دی ہیں۔“
وہ سخت متعجب تھیں انہوں نے خاموشی سے بنا دیکھے وہ تصویروں والا لفافہ دادی جان کے ہاتھ میں دے دیا تھا انہیں چیک نہ کیا تھا۔
”ماما پلیز، اس وقت بہت ٹینشن میں ہوں میں، مجھ سے کوئی سوال جواب مت کریں آپ۔ اس خیرو کے بچے کو بلاؤ وہی یہاں کی ڈسٹنگ کرواتا ہے اس نے ہی مس کئے ہیں۔“
اس کے انداز میں غصہ بڑھنے لگا تھا۔
”بابا پہلے ناشتہ تو کر لیں پھر میں خیرو سے…!“
”مجھے بھوک نہیں ماما، مجھے فوٹو گرافس چاہئے۔“
”یہ غلط ہے بابا، یہ چیٹنگ کی ہے آپ نے میں نہیں جانتی تھی آپ نے ایک سیریل رکھ لی ہے یہ اچھا نہیں ہے آپ کے ڈیڈی کو معلوم ہوا تو وہ بھی ناراض ہوں گے اور پری کی فیملی بھی“
”مجھے پروا نہیں، مجھے صرف وہ فوٹو گرافس چاہئے اور بس۔
“ اس نے بے پروائی سے کہا اور تیز تیز آواز میں ملازم کو پکارنے لگا۔
”جی صاحب!“ سہما سہما خیرو اندر آکر گویا ہوا۔
”خیرو۔ تم نے یہاں کوئی تصویروں کا لفافہ دیکھا ہے کیا؟“ شیری کے بگڑے تیور دیکھ کر وہ خود استفسار کرنے لگی تھیں۔
”تصویروں والا لفافہ بیگم صاحبہ، جو آپ کے ہاتھ میں تھا کل۔“
”ہاں، ہاں وہی۔“ شیری نے کچھ کہنے کیلئے لب وا کرنے چاہے تو ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کا کہہ کر اس سے مخاطب ہوئیں۔
”جی ہاں بیگم صاحبہ! کل آپ کے جانے کے بعد بابا صاحب باہر گئے تھے تو ان کے ہاتھ میں تھا۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”میرے ہاتھ میں تھا تم نے دیکھا تھا میرے ہاتھ میں۔“ وہ اس کے قریب آکر پوچھنے لگا۔
”جی… جی صاحب وہ لفافہ آپ نے کوٹ کی جیب میں ڈالا تھا اور چلے گئے تھے میں اس وقت کار کے قریب ہی تھا۔“
”اچھا ٹھیک ہے جا کر بابا کیلئے ناشتہ لگاؤ۔
”جی اچھا۔“ وہ کہہ کر چلا گیا۔ مسز عابدی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔
”خیرو یہاں کا بہت پرانا اور وفادار ملازم ہے وہ کبھی بھی غلط بیانی نہیں کر سکتا ہے آپ اچھی طرح یاد کریں اور میرے خیال میں ایک بار جا کر گاڑی میں بھی چیک کر لیں شاید…!“
”یہ اچھا آئیڈیا ہے۔“ وہ ایک جوش کے عالم میں آگے بڑھا۔
”پہلے ناشتہ کر لیں بابا ایسا بھی کیا ہے؟“
”سوری ماما۔
میں ابھی آتا ہوں۔
وہ ہواکی تیزی سے آگے بڑھا تھا مسز عابدی اس کی حرکتوں پر دنگ تھیں۔ اس نے کار کا کونا کونا چھان مارا مگر نتیجہ وہی صفر رہا تھا۔ ناکامی پر اس نے غصے سے دروازہ بند کیا تھا اور اسی لمحے دروازے کے باہر پڑے گہرے اسکریچ پر اس کی نگاہ گئی تھی جو آگے بونٹ تک چلا گیا تھا اور وہ چند لمحے کھڑا حیرانی سے سوچتا رہا کسی بھولے خواب کی طرح اس کو یاد آیا۔
ذہن میں دھندلے دھندلے سے کچھ عکس واضح ہوتے چلے گئے۔ اسے یاد آیا کل جب وہ ماما کے جانے کے بعد مدہوشی کی حالت میں باہر نکلا تھا تو تصویریں اس نے جیب میں رکھ لی تھیں پھر وہ خود پر کنٹرول نہ رکھ پایا تھا اور کار ایک دوسری کار سے ٹکرا گئی تھی۔ وہ باہر نکلا تھا اس نے نوجوان سے معذرت کی تھی اس کی صورت یاد نہیں تھی لیکن دل نے کہا۔
”اوہ شٹ، فوٹو گرافس اسی دوان ہی کہیں گر گئے ہیں۔“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط