وہ جب گھر میں داخل ہوئی تو اس کا رواں رواں لرز رہا تھا۔ وہ جس امتحان سے گزر کر آئی تھی اس نے اس کی تمام توانائیاں سلب کر لی تھیں۔ قدم قدم پر وہ لڑکھڑارہی تھی، اگر ان جیسی مہربان ہستی کا سہارا نہ ہوتا تو وہ چل نہیں پاتی۔ وقت بھی اپنے اندر کتنے اسرار، کتنے بھید رکھتا ہے، آنے والے ہر لمحے کی خبر اسے ہوتی ہے۔ صبح جب وہ وردہ کے ساتھ گھر سے نکلی تھی تو اس کو کیا معلوم تھا کہ شام کے ڈھلتے سائے میں اسی گھر میں قدم رکھتے ہوئے اس کو اجنبی درد سے گزرنا پڑے گا۔
ندامت و شرمندگی کے بوجھ سے سرجھکارہے گا۔ دروازہ امی نے ہی وا کیا تھا۔
ان کے چہرے پر طمانیت بھری دھیمی مسکان تھی کوئی وحشت و فکر نہ تھی۔ رجاء کے ساتھ اس خاتون کو دیکھ کر لمحے بھر کو وہ تحیر کا شکار ضرور ہوئی تھیں۔
(جاری ہے)
اس عورت کو پورا محلہ ناپسند کرتا تھا کہ بدنام تھیں وہ محلے میں … لیکن ان کی خوش خلقی و نرم مزاجی کا درس تھا کہ انہوں نے پورے خلوص سے ان کے سلام کا جواب دے کر اپنے گھر میں خوش آمدید کہا تھا۔
”یہاں کے لوگ تو مجھے بہت ناموں سے پکارتے ہیں، آپ جانتی ہوں گی۔“ وہ کارپٹ پر احترام سے بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”لوگوں کو چھوڑئیے آپ مجھے اپنا نام بتائیے؟“ رضیہ کے لہجے میں محبتوں بھرا اصرار اور بے غرض خلوص تھا۔
”جی میرا نام ماہ رخ ہے۔“ وہ آہستگی سے گویا ہوئی۔
”ماشاء اللہ! اسم بامسمیٰ ہیں آپ … گھر والوں نے بڑی چاہت سے نام رکھا ہوگا؟“ رضیہ ان کی ہم عمر ہی تھیں مگر ان کی طبیعت میں جو عاجزی، انکسار و بزرگانہ پن رچ بس گیا تھا، اس کے باعث کوئی بھی ان کے سامنے ہو تو ان کا انداز ایسا ہی بزرگانہ و مشفقانہ ہوتا تھا۔
”میں ڈر رہی تھی یہاں آتے ہوئے، کہیں آپ مجھے گھر میں داخل نہ ہونے دیں کہ میرے آنے سے قبل ہی یہاں میری رسوائیوں کے چرچے پہنچ چکے ہیں مگر آپ نے تو بے حد فراخدلی سے میرا استقبال کیا ہے، مجھے عزت دی ہے۔“ ماہ رخ رجاء کے ساتھ آتے ہوئے خوف زدہ تھیں کہ ان جیسی بدنام عورت کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کو آتے دیکھ کر نامعلوم ان کا کیا رویہ ہو؟ وہ اس کو اپنی دہلیز پار کرنہیں دیں گی یا شاید اندر بلا کر بے عزت کرکے نکالیں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
وہ محلے والوں کے خوف سے چادر میں منہ ڈھانپ کر آئی تھیں اور یہ اُن کے نیک ارادے کی برکت تھی کہ گلی میں چند کھیلتے بچوں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
”عزت و ذلت سب رب کے ہاتھ میں ہے، میرے گھر آنے والا ہر مہمان قابل عزت ہوتا ہے پھر آپ کی یہاں آمد سے میرا دل گواہی دیتا ہے میرے رب نے مجھ پر کوئی خصوصی کرم کیا ہے، آپ کی آمدبلا سبب نہیں ہے بہن!“ وہ سادہ لہجے میں بہت کچھ کہہ گئی تھیں۔
ماہ رخ سوچنے لگیں انہیں اس اندوہناک حادثے کا اس انداز میں بتائیں کہ رجاء کی عزت و وقار بھی ان کی نگاہوں میں مجروح نہ ہوا اور ان کا اعتماد و اعتبار بھی سلامت رہے۔ وہ بے حد احتیاط سے لفظوں کی مالا پرونے لگیں۔ رجاء دوسرے کمرے میں چلی آئی تھی اس پر حزن و ملال طاری تھا۔ آج کے دن کتنے تجربوں سے گزری تھی وہ … کتنے دھوکے کھائے تھے۔
وردہ کی دوستی میں دھوکا اور سنی کی محبت کا فریب!
اس کے دل میں شکستگی پھیل گئی تھی، مہیب سناٹا ہر سوچھا گیا تھا۔
ماہ رخ نے مختصر لفظوں میں رضیہ کے گوش گزار حقیقت کردی تھی۔
”یہ رجاء نہیں، میری غلطی تھی۔ میں نے کیوں اعتبار کیا اس لڑکی پر… وہ دونوں کمرے میں گھنٹوں کیا باتیں کررہی تھیں، یہ مجھے سن گن لینا چاہیے تھی۔“ رضیہ نے خود کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔
”اس دور میں تو خصوصاً لڑکی کی دوستوں پر نگاہ رکھنی چاہیے ورنہ بعض اوقات اتنے بڑے نقصان سے گزرنا پڑتا ہے کہ جس کا ازالہ کبھی بھی نہیں ہوپاتا، کسی صورت بھی نہیں۔
“ اُن کی آنکھوں میں نمی درد بن کر ابھرنے لگی تھی۔
دل کی دنیا تو رضیہ کی بھی زیروزبر تھی پر ان کو جذبات پر دسترس حاصل تھی۔ وہ صبر و استقلال کا پیکر فوراً اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
”مجھے اپنے اللہ پر پورا یقین ہے ، اس کو میں نے کبھی اپنے گمان سے مخالف نہیں پایا ہے۔ رجاء کو جاتے وقت میں نے اس ہی رب کائنات کے سپرد کیا تھا اور جس طرح اس نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے محفوظ رکھا، ایسی عنایت اس نے مجھ گناہ گار پر کی کہ کشتی کو بیچ بھنور سے صحیح و سالم نکال لایا ہے۔
سب سے پہلے میں اپنے رب کا شکر ادا کروں گی جس نے اتنی بڑی آزمائش سے مجھ خطاکار کو نکال لیا، جس کا میں آخری دم تک شکر ادا کرتی رہوں گی۔ “ وہ ایک جذب کے عالم میں وضو کرنے کے لیے اٹھی تھیں۔
”میں اب اجازت چاہوں گی۔“ ماہ رخ بھی کھڑی ہوگئی تھیں۔
”آج میرے شوہر شب جمعہ میں گئے ہوئے ہیں، صبح ہی آئیں گے میں آپ کو کھانا کھائے بناجانے نہیں دوں گی۔
“ وہ پر خلوص انداز میں گویا ہوئیں تھیں۔
###
رات قطرہ قطرہ بھیگتی جاری تھی، نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ایک ہفتہ گزر گیا تھا اس کے اور طغرل کے درمیان لڑائی ہوئے۔ اس دن سے اس نے اس راہ پر گزرنا چھوڑ دیا تھا، جہاں سے اس کا گزرہو، وہ بھی اس کو پوری طرح سے نظرانداز کیے ہوئے تھا۔ ان دونوں کے درمیان جاری سرد جنگ سے صرف دادی ہی واقف تھیں اور اس بار انہوں نے ان کی صلح کرانے کی سعئی بھی نہ کی تھی۔
وہ زیادہ تر چپ رہنے لگی تھیں اور اس دوران طغرل نے بھی گھر سے باہر زیادہ وقت گزارنا شروع کردیا تھا۔ اب اللہ ہی جانے وہ سچ مچ مصروف تھا یا مصروفیت کا بہانہ تھا، وہ جانتی تھی دادی اس میں بھی اس کا قصور ہی ٹھہرائیں گی کہ خوش ہوجا، تمہاری وجہ سے بچہ گھر سے باہر رہنے لگا ہے۔ تم چاہتی بھی یہی تھیں نا…! لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ دادی چپ تھیں۔
ڈانٹ ڈپٹ تھی نہ صلواتیں… اور اسے ان کی یہ خاموشی کسی سزاسے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ان کی سنجیدہ خاموشی میں اس قدر رعب و دبدبہ ہوتا تھا کہ وہ ہزار ہاکوششوں کے باوجود بھی کچھ کہہ نہ پاتی تھی۔ خاموشی کی مار، وہ جو کسی اپنے کسی ”خاص“ بندے کی طرف سے پڑے تو کتنا درد دیتی ہے، وہ ہی جان سکتا ہے جس نے یہ مار سہی ہو، وہ نڈھال ہوگئی تھی، اب برداشت کی تاب ہی نہ تھی کہ روح تک میں تھکن اترگئی تھی۔
اس نے دیکھا دادی سورہی تھیں۔ وہ آہستگی سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور ان کے چہرے کو غور سے دیکھنے گی۔ اس کی آنکھیں بھرنے لگیں۔
دادی وہی تھیں، چہرہ بھی وہی تھا۔ لیکن … ان کا مزاج بدل گیا تھا۔ ان کی محبت بدل گئی تھی اور وہ خود بدل گئی تھیں، اس شخص کے لیے جس کو سب کچھ حاصل تھا۔ ماں باپ کی محبت، بہن بھائی کا پیار، دوستوں، کزنز کی چاہتیں، وہ ہر محبت سے سیراب تھا اور اس کے پاس کیا تھا…؟ ماں وباپ کے ہوتے ہوئے بھی وہ ان سے محبت حاصل نہ کرسکتی تھی۔
بہن بھائی بھی سوتیلے رشتوں میں جکڑے ہوئے تھے ہر رشتہ اس کے لیے مفاد و غرض کی دھند میں لپٹا ہوا اور اس سے دور تھا۔ فقط ایک دادی تھیں جو اس کے لیے ہر رشتے کا بدل تھیں اور جب سے وہ بے خبری میں اپنی ڈار سے جدا ہوگئی ہو اور رات کی تاریکی میں بھٹکتی پھر رہی ہو، اپنے آشیانے کی تلاش میں اور تلاش تھی کہ ختم ہونے میں نہ آرہی تھی۔
”دادی! دادی جان! مجھے معاف کردیں۔
“ وہ تہجد کے لیے بیدار ہوئیں تو اس کو روتے ہوئے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھیں پھر قبل اس کے کہ وہ بولتیں، پری ان سے لپٹ کرر بولی۔
”ارے کیا پاگل ہوگئی ہے پری!“ وہ آنکھ کھلتے ہی اس افتاد پر بوکھلاگئیں۔” رات کے اس پہر کس خطا کی معافی مانگی جارہی ہے بھلا۔“
”مجھے معاف کردیں ، آپ خفا ہیں نا مجھ سے اس دن سے ہی…؟“ وہ کسی جونک کی مانند ان سے لپٹ گئی تھی۔
”ارے تو مجھے چھوڑ تو سہی…“
”نہیں … میں آپ سے اس وقت تک لپٹی رہوں گی، جب تک آپ مجھے معاف نہیں کریں گی۔“ وہ روئے جارہی تھی۔
”یہ تم مجھ سے معافی مانگ رہی ہو یا مجھے جکڑ کر سزا دے رہی ہو۔“
”دادی! خدارا آپ مجھے ماریں، ڈانٹیں ، سزا دیں۔ مجھے سب منظور ہے مگر مجھ سے خفامت ہوں، آپ کے بغیر کہاں جی پاوٴں گی میں۔“ وہ ان سے لپٹے روتے ہوئے کہہ رہی تھی، اس کے انداز میں جو تڑپ جو اضطراب و بے چینی تھی، سب سے دادی واقف تھیں۔
”بہت جلدی احساس ہوگیا تمہیں میری خفگی کا …؟“ وہ سنجیدگی سے بولیں۔
”سوری دادی ! بہت پہلے مجھے احساس ہوگیا تھا۔ اسی دن کہ میں آپ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کربیٹھی ہوں، اسی وقت میں معافی مانگنا بھی چاہتی تھی بلکہ کوشش بھی کی پر آپ نے موقع ہی نہیں دیا۔“
”میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔“ ان کے لہجے میں سنجیدگی تھی، پری بھی ان کے قریب بیٹھی بغور ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”ہاں ، فکر مند ضرور ہوں، اس دن معمولی بات پر کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا۔ بات ساری سوچ کے فرق کی تھی شایہ دل کے اندر بھری اس نفرت کی جو اچھائی کو بھی برائی میں بدل دیتی ہے، یہی نفرت بہت بڑا شرپھیلا سکتی تھی اگر اس دن بہو اور بچیاں گھر میں موجود ہوتیں تو…! تم تو جانتی ہو نا تمہاری سوتیلی ماں اور بہن کس طرح تمہارے خلاف رہتی ہیں؟“ وہ سر جھکائے ان کی گفتگو سن رہی تھی۔
”خود سوچو! اس دن صباحت، عادلہ، عائزہ گھر میں ہوتیں تو کیا عزت رہ جاتی طغرل کی … اور تم بھی کس طرح صفائی پیش کرسکتی تھیں؟ ساری زندگی کے لیے منہ کالا ہوکر رہ جانا، صباحت تو پورے خاندان میں ڈھنڈورا پیٹ دیتی، کس طرح بیٹے پر الزام تراشی کرتی اور بھائی بھائی سے روٹھ جاتا، خاندان ہی بکھر کر رہ جاتا اور بکھری ہوئی ذاتیں آسانی سے نہیں سمیٹی جاتی ہیں پری!“ ان کی دور اندیشی نے لمحہ بھر میں ساری صورت حال کا تجزیہ کردیا تھا جو ذرا بھی غلط نہ تھا۔
”سوری دادی جان! مجھے اتنی گہرائی میں سوچنا نہیں آتا ہے اور نہ ہی جان بوجھ کر میں نے وہ حرکت کی تھی۔ آپ نے بچپن سے ہمیں سمجھایا کہ اپنی حفاظت کرو، کوئی بلائے تو مت جانا، کوئی چاکلیٹ، بسکٹ، کھلونا وغیرہ دے تو مت لینا اور کوئی ہاتھ پکڑے تو منہ توڑدینا، یہی سب سمجھاتی آئی ہیں نا آپ ہمیں؟“ دادی نے اس کی بات پر سر پکڑ لیا تھا۔ ”شکر کیجیے، میں ان کے ہاتھ پکڑنے پر چیخی تھی منہ نہیں توڑا تھا۔
“
”ہیں … ہیں… ہیں…! زبان کو لگام دے لڑکی! جو منہ میں آرہا ہے وہ بکے جارہی ہے۔ آئی بڑی ٹارزن کی اولاد، منہ توڑنے والی! وہ سب میں نے باہر کے مردوں کے لیے کہا تھا، یا یہ کہا تھا کہ گھر کے مردوں پر ہی بے اعتباری جتانے لگو؟“ وہ اس کو ڈانٹتے ہوئے تیز لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔”بہت عقل مند بنتی ہے پر عل ٹکے کی نہیں ہے تجھ میں …آئندہ کوئی ایسا واویلا مچانے کی ضرورت نہیں ہے، اپنی اور دوسروں کی عزت کا خیال کرنا سیکھو۔
طغرل کو میں سمجھا چکی ہوں کہ وہ یہاں بیٹیوں کے درمیان ہے ، ان ناہنجاز میموں کے درمیان میں نہیں ہے جو مادر پدر آزاد ہیں، تم بھی خود پر قابو پاوٴ ، یہ جو آنکھیں بند کرکے منہ کھول دیتی ہو، اچھا نہیں ہے۔“ وہ اپنے اصل میں آگئی تھیں پری کو ان کی ڈانٹ میں بھی اپنائیت محسوس ہورہی تھی۔