Episode 130 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 130 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

پھولوں کی پنکھڑیاں چنتے چنتے
آئینہ در آئینہ خود کو کھوجتی یہ لڑکی
شہر کی اس سنسان گلی تک آ پہنچی ہے
کہ مڑ کر دیکھتی ہے تو پیچھے دور دور تک
کرچیاں بکھری ہوئی ہیں
ایسا نہیں کہ اس نے
اپنے عکس کو جوڑنے کی سعی نہیں کی
پر اس کھیل میں کبھی تصویر دھندلا گئی
کبھی انگلیاں لہولہان ہو گئیں
”ماہ رخ! میں کچھ کہہ رہی ہوں آپ سے ، کہاں گم ہیں آپ؟“ حاجرہ نے دھیرے سے اس کا شانہ ہلا کر کہا تو اس نے بے تاثر نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور اسی انداز میں بولی۔
”کیا بات ہے… تم ہر وقت پریشان رہنے لگی ہو؟“
”آپ نے خود پر عجیب سی مدہوشی مسلط کر لی ہے آپ کو اپنی خبر ہے نہ اپنے گرد ہونے والی سرگرمیوں کا احساس ہے۔“ وہ سرگوشیانہ انداز میں کہتی ہوں اس کے قریب بیٹھ گئی تھی اور اس کے انداز پر ماہ رخ کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ در آئی تھی۔

(جاری ہے)

”سرگوشیاں کیوں کر رہی ہو اس بند کمرے میں کون بات سنے گا۔
”شکر ہے پروردگار کا ، آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی کرن تو چمکی ورنہ جب سے یہ اعوان صاحب آئے ہیں میں آپ کی پیاری مسکان سے ہی محروم ہو گئی ہوں۔“ حاجرہ اس کو مسکراتے دیکھ کر نہال ہو گئی تھی۔
”وہ گیا نہیں ابھی تک یہاں موجود ہے؟“ وہ چونک کر گویا ہوئی۔
”موجود ہے… کل رات تو اس نے ہماری حیات کے چراغ گل کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اگر میں موقع پر نہ پہنچ جاتی تو…“
”کیا مقصد ہے ، کل رات کیا ہوا تھا؟“
”یہی تو آپ کو بتا رہی ہوں لیکن آپ اپنی سوچوں میں گم تھیں۔
”جب سے رئیس نے شادی کی تیاریاں شروع کرائی ہیں اس وقت سے دلربا کانٹوں پر لوٹ رہی ہے اس کی یہی خواہش ہے رئیس آپ سے شادی نہ کر سکیں اور اس نے کسی طرح سے آپ کے اور اعوان صاحب کے تعلقات کی سدھ بدھ حاصل کر لی ہے اور اس کی یہی کوشش ہے کسی طرح سے وہ ساری باتیں رئیس کو بتا کر ہم سے نجات حاصل کرے۔“
”یہ تو بہت خوف ناک بات ہے اگر غفران احمر کو وہ سب معلوم ہو گیا تو وہ تم کو مار دے گا مگر میرا انجام موت سے بھی زیادہ بھیانک ہوگا۔
“ وہ ایک دم ہی خوفزدہ ہو گئی تھی۔
”تم کو یہ سب کس نے بتایا… ہو سکتا ہے یہ سب جھوٹ ہو؟“
”جھوٹ نہیں ہے ، محلاتی سازشیں یہاں کے ماحول میں رچی بسی ہیں۔ معلوم نہیں ہوتا یہاں کب کون کس کا دشمن بن جائے اور کب دوست ثابت ہو۔“
”تم کو یہ سب دلربا کی کسی دشمن نے بتایا ہے؟“
”جی ، وہ ہر ایک پر ناجائز حکم چلاتی ہے رعب دکھاتی ہے اس لئے کوئی بھی اس کو پسند نہیں کرتا ذاکرہ کا میں پہلے ہی بے حد خیال رکھتی تھی ، اب تو اس کو مٹھی میں کرنے کیلئے میں بہت زیادہ خیال رکھنے لگی ہوں۔
کل ذاکرہ نے ہی بتایا تھا دلربا رئیس کی خواب گاہ میں گئی میں وہاں تک پہنچی بھی نہ تھی کہ سامنے سے تیز تیز قدموں سے اعوان صاحب وہاں سے آ رہے تھے ، صرف لمحوں کی مہلت ملی تھی میں اعوان صاحب کا بازو پکڑ کر ستون کے پیچھے لے گئی تھی اور عین اسی لمحے حواس باختہ سی دلربا رئیس کی خوب گاہ سے برآمد ہوئی تھی وہ یقینا اعوان صاحب کے قدموں کی آواز سے باہر آئی تھی پھر خاصی دیر تک سب جگہ کا جائزہ لے کر چلی گئی تھی۔
“ اس کے چہرے پر رات کا خوف ابھی تک موجود تھا اس کی بات سن کر ماہ رخ بی سراسیمہ ہو گئی تھی۔
اس کو مرنے کا ڈر نہیں تھا موت کی دعائیں مانگتے مانگتے اس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھیں ، اصل خوف اس کو اس درندگی سے تھا جو غفران احمر جیسا درندہ صفت اس کی حقیقت جاننے کے بعد کر دیتا۔“
”حاجرہ! تم کسی طرح بھی اعوان سے ملو اور اس سے کہو وہ یہاں پر بالکل نہ ٹھہرے فوراً چلا جائے۔
“ وہ پریشان لہجے میں بولی۔
”میں ساری باتیں ان کو بتا چکی ہوں ، تمام خطرات سے بھی آگاہ کرتی رہی ہوں مگر ان کی ایک ہی ضد ہے ماہ رخ ، وہ آپ سے معافی مانگے بغیر نہیں جائیں گے۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے ، میری مانیں تو آپ ایک بار ان سے مل لیں۔“
###
بارش رک چکی تھی موسم بدل رہا تھا ہلکی ہلکی خنکی محسوس ہونے لگی تھی، موسم تو بدل گیا تھا مگر اس کے اور طغرل کے درمیان موجود عزت نفس کی جنگ امن میں نہ بدل سکی تھی ہر بار وہ اپنی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی اس سے معافی مانگ لیتا تھا اس کو منانے کی سعی میں مگن رہتا تھا لیکن اس بار وہ پری سے سخت بدظن ہوا پری نے اس کے خلوص و اپنائیت کی قیمت لگا کر اس کو گھائل کر ڈالا تھا اور وہ اس وقت سے تکلیف میں مبتلا تھا ، مسکراتے لبوں پر چپ تھی بہت سنجیدہ رہنے لگا تھا۔
”صاحب جی! اماں جان بلا رہی ہیں آپ کو۔“ خیرون نے آ کر اس کو اطلاع دی وہ اسٹڈی کر رہا تھا ، مصروف انداز میں بولا۔
”یہ کتاب شیلف میں رکھو ، جا رہا ہوں دادی کے پاس۔“ وہ ہاتھ میں پکڑی کتاب ٹیبل پر رکھ کر خیرون سے گویا ہوا۔
”جی صاحب!“ اس نے سعادت مندی سے بکھری کتابیں سمیٹنا شروع کر دی تھیں، طغرل اماں کے روم کی طرف چلا آیا اور دستک دے کر اندر داخل ہوا تھا۔
”جی دادی جان! آپ نے یاد کیا ہے مجھے۔“
”ہاں میں نے یاد کیا ہے تم کو تو اب میری یاد کہاں آتی ہے نامعلوم کن کاموں میں مصروف رہنے لگے ہو جو دادی کا بھی خیال نہیں رہا ہے تمہیں۔“ وہ شکایتی لجے میں گویا ہوئی تھیں۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے دادی جان! آپ کا خیال تو مجھے ہر وقت رہتا ہے بس ذرا آج کل گھر اور کمپنی کی کنسٹرکشن آخری مراحل میں ہے اس میں زیادہ بزی رہتا ہوں اس لئے آپ کو ٹائم کم دے پا رہا ہوں مگر خوش ہو جائیں گھر تیار ہوتے ہی میں آپ کو یہاں سے لے جاؤں گا پھر میرا سارا ٹائم آپ کیلئے ہی ہوگا۔
“ اس نے محبت سے دیکھتے ہوئے ان کو کہا۔
”گھر تم کو بنوانے کی اتنی جلدی کیوں پڑ گئی بیٹا! ابھی صرف تم اپنی کمپنی پر ہی توجہ دو ، گھر کی کیا ضرورت ہے تم کو؟“ انہوں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، جہاں سے پری دو کپ چائے ٹرے میں رکھ کر لا رہی تھی۔
”بہت ضروری ہے گھر دادی جان! غلطی ہو گئی پہلے گھر ہی بنوانا چاہئے تھا مجھے۔“ وہ اس کی موجودگی محسوس کرکے بھی لاتعلق بنا بیٹھا تھا ، اس کے لہجے کی ترشی ان کو چونکا گئی تھی۔
”ارے خیر تو ہے بچے! تمہارے لہجے سے مجھے کسی گڑبڑ کا احساس ہو رہا ہے ، کسی نے کچھ کہا ہے تمہارے یہاں رہنے پر؟ کس نے کہا ہے بتاؤ مجھے دیکھنا میں اس کا کیال حال کرتی ہوں۔“ ان کی ازلی محبت نے ایک دم ہی جوش مارا وہ آگ بگولہ ہو گئیں۔
”چائے لے لیں دادی جان!“ پری نے ان کے غصے سے پڑتے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتے ہوئے کپ ان کی طرف بڑھایا۔
”اصل بات کیا ہے مجھے کو بتاؤ طغرل! میں دیکھ رہی ہوں دو تین دن سے تم نہ گھر میں ڈھنگ سے رہ رہے ہو اور نہ کھا رہے ہو آخر کس نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو تم مسکرانا تک بھول گئے ہو؟“
”ایسی کوئی بات نہیں ہے ، آپ پریشان مت ہوں۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا پری کی طرف اس نے نگاہ نہ اٹھائی تھی۔
”چائے لے لیں۔“ دادی کے خیال سے پری کو پہل کرنی پڑی تھی۔
”دادی جان مجھے ایک کام سے جانا ہے ، آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں ، وہاں سے واپسی پر میں آپ کے پاس آتا ہوں۔“ اس نے جھک کر ان کا گال چوما تھا اور ہاتھ ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ پری اس بے عزتی پر کھڑی رہ گئی تھی۔
”دادی کی جہاندیدہ نگاہوں نے بھی ان کی خاموش چپقلش کو محسوس کیا تھا کہ طغرل نے پوری شدت سے پری کو نظر انداز کرکے گیا تھا۔
”بیٹھ جاؤ ، اس نے تمہاری بات نہیں سنی تھی جلدی میں تھا وہ۔“
”آپ بلاوجہ ان کی حمایت نہ لیں دادی! وہ گھر سے جانا چاہتے ہیں تو ان کو جانے دیں ویسے بھی ہمارے اس بوسیدہ کھنڈر نما گھر میں ان کا دل کہاں لگتا ہو گا ، وہ اپنے اعلیٰ شان گھر میں رہنے کے عادی ہیں۔“ وہ ان کے قریب بیٹھے ہوئے بے اعتنائی بھرے لجے میں بولی۔
”تم دونوں کے درمیان پھر کوئی بات ہوئی ہے میرا ماتھا تو پرسوں اسی وقت ٹھنکا تھا جب ناشتے کی ٹیبل پر تم دونوں ہی منہ بنائے بیٹھے تھے تب سے تم بھی اکھڑی اکھڑی پھر رہی ہو اور طغرل بھی اجنبی بن گیا ہے۔
“ وہ چائے پیتی ہوئی اس کے چہرے کو بغور دیکھ رہی تھیں۔
”جھگڑامیں نہیں طغرل بھائی نے شروع کیا تھا ، وگرنہ میرا ارادہ ان کو خاموشی سے چیک دینے کا تھا اور بس۔“
”چیک کون سا چیک اور تم کیوں دینے لگیں طغرل کو؟“ وہ کپ لبوں سے ہٹا کر حیرانی سے استفسار کرنے لگی تھیں۔
”آپ کیا سمجھتی ہیں دادی جان! میں ان کو اپنے گھر والوں پر احسان کرنے دوں گی ، میں نہیں چاہتی کوئی میرے پاپا پر ترس کھائے ، ہم کو بھیک دے وہ دولت مند ہیں تو ہوا کریں ہم کو ان کی خیرات کے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
“ اس کے انداز میں اتنی نفرت ، بدگمانی اور بے مروتی تھی کہ وہ حق دق اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں۔
”یہ سب میں نے ان سے کہا تو ان کو برا لگ گیا ، شرمندہ ہونے کی جگہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ گھر چھوڑ کر جانے کی تو ایک بار نہیں ہزار بار جائیں یہاں کوئی ان کی پروا کرنے والا نہیں ہے۔ آپ بھی دادی جان اس معاملے میں دخل اندازی مت کیجئے گا۔“ اس نے بھڑاس نکالی اور کمرے سے چلی گئی۔
###
”ارے بھئی! بڑا ہی منافقت بھرا دور چل رہا ہے ، آج کل سگے رشتے تو درکنار اپنے سائے پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔“ صباحت عائزہ کے قریب آ کر گویا ہوئی۔
”کیا ہوا ہے ممی! کس سے شکایت ہو گئی ہے آپ کو؟“ اس نے ان کے خراب موڈ کو دیکھتے ہوئے چونک کر پوچھا۔
”زینب کو دیکھو یہاں پر کس طرح باتیں بنا کر گئی تھی کہ جا کر فاخر کے کان کھینچوں گی ایسی بے نقط سناؤں گی کہ دوسرے دن ہی دوڑا دوڑا آئے گاتم کو لے جانے کیلئے اور آج کتنے دن ہو گئے ہیں اس کو گئے ہوئے جب بھی فون کرتی ہے یہی کہتی ہے آپ فکر نہ کریں ، میں اپنی سی پوری کوشش کر رہی ہو فاخر کا دل صاف کرنے کی۔
“ ان کے لہجے میں سخت کبیدگی و نروٹھا پن تھا۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں آنٹی! یہ میٹر اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے ممی! آپ سوچا نہ کریں نامعلوم یہ معاملہ اب حل بھی ہو گا یا… مجھے اپنی نادانی کی سزا ساری زندگی بھگتنی پڑے گی۔“
”تم دیکھنا ساری زندگی سر پکڑ کر روئے گا وہ“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط