Episode 53 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 53 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

وہ بالوں میں برش کر رہی تھی معاً سیل فون پر بیل ہونے لگی تھی  پہلے تو اس کے ذہن میں طغرل کا ہی نام گونجا تھا اور اس نے کال اٹینڈ نہیں کی تھی۔
یہی سوچ کر وہ اسے گھر واپس آنے کا حکم دے رہا ہو گا اور پھر کال دوسری مرتبہ بھی ہوئی تھی۔ وہ اسی طرح بالوں میں برش کرتی رہی تھی بے پروا انداز میں۔
مثنیٰ کمرے میں آئیں اور انہوں نے اس کا سیل فون اٹھا کر دیکھا اور اس سے مخاطب ہوئی تھیں۔
”پری! آپ کے پاپا کی کالز آ رہی ہیں اور آپ اٹینڈ کیوں نہیں کر رہی ہیں؟“ انہوں نے اسکرین پر دیکھتے ہوئے اس سے حیرانگی سے پوچھا۔
”پاپا کی کالز ہیں؟“ وہ برش رکھ کر ان سے فون لیتے ہوئے بولی۔
”آپ کس کی سمجھ رہی تھیں؟“ مثنیٰ تعجب سے گویا ہوئیں۔ پری بری طرح جھینپ گئی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کو کیا جواب دے کہ اسی وقت پھر پاپا کی کال آ گئی۔

(جاری ہے)

”السلام علیکم پاپا! کیسے ہیں آپ؟“
”وعلیکم السلام! خیریت تو ہے نا؟ آپ اتنی ایمرجنسی میں کیوں گئی ہیں وہاں پر؟“ وہ فکر مند لہجے میں پوچھ رہے تھے۔
”جی پاپا سب خیریت ہے  میں تو بس ویسے ہی آ گئی تھی  نانو بہت یاد کر رہی تھیں اور ممی بھی آئی ہوئی ہیں یہاں  میں اس لئے آئی ہوں۔“ اسے لگ رہا تھا وہ اپنے باپ کو مطمئن نہیں کر سکی ہے۔
”یہی وجہ ہے؟ اس کے علاوہ تو کچھ نہیں بیٹا!“ ان کے لہجے میں بے یقینی کا عنصر گہرا تھا۔
”جی… پاپا! یہی وجہ ہے۔“
”اوکے… آپ واپس کب آ رہی ہیں؟“
”واپس…؟“ اس کے کانوں میں طغرل سے کہے گئے لفظ گونجے۔
”اتنی حیران کیوں ہو رہی ہیں؟ گھر واپسی کا ارادہ نہیں ہے اس بار آپ کا؟ آپ کو معلوم ہے اماں آپ کے بغیر زیادہ دن نہیں رہ سکتیں اور وہ آپ کو بہت یاد کرتی رہتی ہیں۔
“ وہ شاید اس کی طرف سے بے ساختگی سے کہے گئے جملے پر مسکرائے تھے  تب ہی ان کی آواز میں شگفتگی ابھری تھی۔
”میں بہت جلد آؤں گی پاپا! دادی مجھے بھی بہت یاد آتی ہیں۔“
”اوکے  اپنا خیال رکھنا بیٹا!“ انہوں نے رابطہ منقطع کر دیا تھا۔
”کیا کہہ رہے تھے آپ کے پاپا؟ مثنیٰ اس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھی۔
”میرے اس طرح بغیر بتائے آنے سے پریشان تھے وہ۔
”یہ قدرتی بات ہے پری! لوگ ہماری عادات و رویے سے پہچانتے ہیں ہم کو اور جب بلاوجہ ان میں مییجنگ ہو تو اسی طرح سب ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔“
”مما! ایک بات پوچھوں آپ سے…؟“
”جی ضرور پوچھیں…!“ پری کے چہرے پر ابھرتی سنجیدگی نے انہیں کچھ نروس کر دیا تھا  ان کا دل عجیب انداز میں دھڑنے لگا تھا۔
”آپ اور پاپا محبت کرتے تھے؟‘
”ہاں!“
”آپ کی لومیرج تھی؟“
”ہوں…!“ وہ گویا عدالتی کٹہرے میں کھڑی اپنے گناہوں کا اعتراف کر رہی تھیں۔
یہ کیسا وقت ان کی زندگی میں آیا تھا وہ اپنی اولاد کے آگے ہی مجرم بنی بیٹھی تھیں۔
تعلقات کے بندھن جب عین راستے میں ہی انا کی قینچی سے کاٹ دیئے جاتے ہیں تو ساتھ بتائے لمحوں کا ثمر اسی طرح وقت بے وقت زندگی کے لمحوں کو کڑوا کرتا رہتا ہے۔
”پھر آپ میں اور پاپا میں علیحدگی کیوں ہوئی؟ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں نفرت تو اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔
“ وہ پے در پے گویا اس پر سنگ باری کر رہی تھی۔
”محبت اور نفرت ایک سکے کے دو رخ ہیں پری! جب محبت ہوتی ہے تو بے انتہا ہوتی ہے اور جب نفرت ہوتی ہے تو لامحدود ہوتی ہے۔“
”آپ پاپا سے لامحدود نفرت کرتی ہیں مما؟“
اس سوال پر اس نے پری کی طرف دیکھا تھا جو اپنی خوبصورت مگر رنجیدہ رہنے والی نم آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے بے ساختہ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔
”پری! جب تم میری گود میں تھیں نا  تب میں وہ ہر بات تم سے کرتی تھی  جو اماں فیاض کی غیر موجودگی میں مجھے سنایا کرتی تھیں اور میں دعا کرتی تھی تم جھپ پٹ بڑی ہو جاؤ  اتنی سمجھ دار ہو جاؤ کہ میں اپنے دل میں گزرنے والا ہر دکھ  ہر کرب تم سے شیئر کر سکوں  تمہیں بتا سکوں تمہاری ماں پر کیا گزر رہی ہے؟ کس انداز میں مجھے اپنی پسند کی شادی کرنے پر سزائیں دی جا رہی ہیں؟“
”اور آپ نے انتظار بھی نہیں کیا میرے بڑے ہونے کا  اتنی کم حوصلہ تھیں مما آپ؟ اتنی کمزور کہ آپ سب چھوڑ چھاڑ کر آ گئیں؟ میرے بڑے ہونے کی دعا تو آپ نے کی مگر انتظار نہیں کیا۔
”مجھے انتظار کرنے کی مہلت ہی نہیں دی گئی  اس گھر میں اوّل روز سے میرے لئے جگہ نہ تھی پھر جب مجھے اس گھر سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو پھر ایک لمحہ بھی مجھے وہاں برداشت نہیں کیا گیا۔“ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کب دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
”بات وہی ہے گھر چھوٹے بڑے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا ہے اصل گنجائش گھر سے زیادہ دل میں ہونے سے ہوتی ہے اور وہاں گھر میں تو بے حد گنجائش تھی  فیاض کے دادا کے زمانے کی بنی وہ کوٹھی خاصی وسیع و عریض تھی۔
مگر وہاں رہنے والی تمہاری دادی اور پھوپوؤں کے دل بہت تنگ بہت ہی چھوٹے تھے۔“
”آپ سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی دادی جان اور پھوپوؤں کو؟“ وہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی سالوں سے پوشیدہ ایک کہانی سے پردہ ہٹ رہا تھا  یہ کہانی وہ سچی کہانی تھی جس کا ایک کردار وہ بھی تھی۔
”کلاس ڈیفرنس… یہ فرسودہ خوف کہ بھائی نے امیر ترین خاندان کی اکلوتی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اب وہ لڑکی جو حسین بھی تھی اور ان لوگوں سے بہت زیادہ امیر بھی  وہ ان کے بھائی کو ان سے چھین لے جائے گی  تمہاری دادی کو یہ غم ستائے جا رہا تھا کہ فیاض ان کی سگی بھانجی کو ٹھکرا کر ایک غیر لڑکی کو بہو بنا کر لے آیا ہے ان کی بھانجی کی جگہ میں کس طرح لے سکتی تھی بھلا؟“
”پاپا نے یہ سب اتنی آسانی سے کیسے ہونے دیا مما؟ کیا ان کو معلوم نہیں تھا شادی کے بعد وہ ساری پرابلمز فیس کرنی ہوں گی پھر وہ آپ کو تنہا کس طرح چھوڑ سکتے تھے؟“
”فیاض نے بہت محنت کی تھی  شادی سے قبل ان کو منانے کی اور شادی کے بعد ان سب کو خوش رکھنے کی  مگر ناپسندیدگی صرف وہاں نہیں تھی  یہاں بھی تھی۔
”آپ کا مطلب ہے کہ… نانو بھی اس شادی سے خوش نہیں تھیں؟“ وہ شدید حیرانگی کا شکار ہو گئی تھی۔
”ہاں  اس وقت بابا حیات تھے  وہ بے حد کھلے دل اور روشن خیال تھے انہوں نے ممی سے کہا زندگی مثنیٰ کو گزارتی ہے جب زندگی کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے اس کو کرنے کا اختیار ہم نے دیا ہے تو پھر یہ زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے کی اجازت بھی اسے ملنی چاہئے اور بابا کے فیصلے کے آگے ممی کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں مگر انہوں نے فیاض کو کبھی دل سے داماد والی عزت نہیں دی تھی۔
”نانا جان نے آپ کی طلاق کیوں ہونے دی؟“
”بابا میری شادی کے ایک ماہ بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے  وہاں فیاض کے گھر والوں نے بساط پہلے ہی مجھے مات دینے کیلئے تیار کی ہوئی تھی  یہاں بابا کے جانے کے بعد ممی کے دل میں دبی فیاض کیلئے نفرت تیزی سے باہر آنا شروع ہو گئی تھی  وہ چاہتی تھی صفدر جیسا کروڑ پتی شخص ان کا داماد ہونا چاہئے تھا۔
فیاض جیسا مڈل کلاس بزنس مین ان کا داماد بننے کے بالکل بھی لائق نہ تھا۔“
”ہمارے سہرے کے پھول بہت جلد ہی کانٹوں میں تبدیل ہو گئے تھے  گھریلو سازشیں جب بنی جاتی ہیں تو پھر ان کا توڑ نہیں ہوتا ہے اور اسپیشلی وہ سازشیں جو ہمارے لئے تیار کرتے ہیں  ان سے ہم کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں رہ سکتے۔“
”آپ نے بہت جلدی ہمت ہار دی مما! میں نے ایسے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جن کی لومیرج نہیں ہوتی ہے اور عادت و مزاج  پسند و ناپسند میں وہ ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں مگر… اپنے بچوں کیلئے اپنے گھر کیلئے وہ کمپرومائز کرتے ہیں  ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کو بھی برداشت کرتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ تمام دشمن دوست بن جاتے ہیں اور محبت نہ کرنے والوں کو بھی محبت ہو جاتی ہے۔
###
طغرل سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا فیاض پری سے گفتگو کر رہے تھے ان کے انداز سے بڑی فکر مندی جھلک رہی تھی۔ پری کے اس طرح جانے سے وہ خاصے پریشان تھے اور جاننا چاہ رہے تھے وہ اس طرح کیوں چلی گئی تھی؟
”انکل! اگر آپ کو پتا چل جائے کہ پری میری وجہ سے گھر سے گئی ہے  پھر آپ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوگا؟“ وہ خود سے مخاطب تھا۔
”گھر کس طرح آئے گی؟ وہ اس گھر میں میری موجودگی پسند نہیں کر رہی ہے اس نے یہی تو کہا تھا میں اس گھر سے چلا جاؤں تو وہ گھر آ جائے گی اور آپ کہہ رہے ہیں وہ گھر پر آ جائے۔“
”طغرل…! طغرل بیٹا…! کن سوچوں میں گم ہیں آپ؟“
”اوہ سوری انکل!“ وہ ایک دم چونک کر سیدھا ہوا۔
”کوئی پریشانی ہے؟“ وہ حسب عادت پریشان ہو رہے تھے۔
”میں ٹھیک ہوں اور کوئی پریشانی بھی نہیں ہے۔ آپ اتنی جلدی کیوں پریشان ہو جاتے ہیں انکل!“ وہ دلکشی سے مسکرایا۔
”میرے اردگرد جو رشتے ہیں طغرل! میں ان میں سے کسی کو بھی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا  یہ جو رشتے ہوتے ہیں بیٹا! اپنی زندگی میں  میں ان میں سے کسی کو بھی کھونا نہیں چاہتا ہوں۔“ ان کے لہجے میں جو سچائی تھی اپنوں کی محبت کی تڑپ تھی اسی چاہت اسی اپنائیت نے طغرل کو ان کا گرویدہ بنا رکھا تھا۔
”آپ کی اتنی بھرپور محبت ہی تو ہے یہ جو میں ڈیڈی کو بھی اتنا مس نہیں کرتا ہوں انکل! رئیلی اگر آپ اور دادی جان یہاں نہ ہوتے تو میں کب کا واپس جا چکا ہوتا  آپ لوگوں کی اسی محبت نے مجھے روکا ہوا ہے۔“
”محبت…!“ ان کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
”محبت کرنا اور محبت کے تقاضے نبھانا بہت مشکل کام ہے بیٹا! میں تو خود کو محبت کرنے کا بالکل بھی اہل نہیں گردانتا  محبت کرکے نبھانے والے لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں اور میں تو بہت معمولی اور حقیر بندہ ہوں۔
”یہی تو عظمت کی نشانی ہے انکل! آپ کو اپنی خوبیوں کا احساس ہی نہیں ہے اور آپ خود کو معمولی کہہ رہے ہیں بالکل اس طرح جس طرح عام پتھروں میں موجود ہیرا بھی خود کو پتھر سمجھتا ہے۔“ اس کے لہجے میں عقیدت و احترام تھا وہ شفقت سے مسکرا دیئے تھے۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط