دوسرے دن دادی نے اس سے کہا تھا وہ سعود سے مل کر آ جائے کیونکہ دادی کا پروگرام بن گیا تھا عائزہ اور فاخر کے ساتھ اسلام آباد جانے کا صباحت کے انکشاف کے بعد ہی ان کے ساتھ جانے پر تیار ہوئی تھیں۔ وہ طغرل کے ہمراہ تھی وہ آفس جاتے ہوئے اسے ڈراپ کرتا ہوا جاتا ،خلاف معمول وہ خاصا سنجیدہ و خاموش تھا۔
”بے حد خاموش ہیں آپ۔ کوئی ناراضی ہے مجھ سے؟“ کچھ توقف کے بعد پری نے اس کی طرف دیکھتی ہوئی استفسار کیا۔
”ناراضی اور تم سے امپاسبل یار۔“ اس نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم میری زندگی ہو اور زندگی سے بھی کوئی خفا ہوتا ہے؟“
”اوہ مائی گاڈ آپ یہ فلمی اسٹائل میں باتیں کیوں کرتے ہیں؟“ وہ ایک دم بلش ہو کر آہستگی سے گویا ہوئی۔
”یہ فلمی اسٹائل نہیں ہے میری جان ،یہ میرا لائف اسٹائل ہے خدا جانے میرے جذبوں پر تمہیں کب یقین آئے گا۔
(جاری ہے)
اب ہم جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھنے والے ہیں۔“ وہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”شادی کے بعد بھی تم ،اسی طرح مجھ پر بے اعتباری ظاہر کرتی رہو گی؟“
”سوری میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا ہرگز نہیں تھا۔“ اس کے لہجے کی سچائی نے اسے نادم کر ڈالا تھا۔
”اٹس اوکے۔“
”عادلہ کوئی بات شیئر کرتی ہے تم سے؟“ کچھ توقف کے بعد وہ بولا۔
”زیادہ نہیں بہت کم باتیں شیئر کرتی ہے ،آپ کیوں پوچھ رہے ہیں کوئی بات ہوئی ہے عادلہ سے؟“ طغرل نے عادلہ سے ہونے والی تمام گفتگو دہرا دی تھی۔
”ایسی کوئی بات اس نے مجھے نہیں بتائی ہے لیکن آج کل وہ بے حد ڈسٹرب ہے۔“
”عادلہ اور شہریار کے درمیان کوئی مس انڈر اسٹیڈنگ تو پیدا نہیں ہو رہی میرے خیال میں ان کے درمیان کوئی مسئلہ چل رہا ہے۔“ اس نے متفکر انداز میں کہا۔
”میں نہیں جانتا مگر ایسی کوئی بات ہوتی تو نور جہاں آنٹی اور عابدی انکل رشتہ لے کر کیوں گھر آتے وہ روشن خیال لوگ ہیں زبردستی یہ رشتہ نہیں کرتے پھر شہریار کی مرضی کے بغیر ایسا کہاں ہو سکتا ہے؟“
”مجھے اس شخص پر اعتبار نہیں ہے وہ چہرے سے ہی بہت شاطر و کمینہ لگتا ہے۔
اگر اس نے عادلہ کو کسی بھی طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی تو میں اسے شوٹ کر دوں گا۔“ وہ لب بھینچ کر رہ گئی وہ اسے بتانا چاہتی تھی اس دن شیری کس طرح سے بگڑے تیوروں کے ساتھ عادلہ کے روم سے نکل کر گیا تھا اور عادلہ کے اس بری طرح رونے کا سبب کیا تھا؟ اس وقت یہ سب بتانا اسے مناسب نہیں لگا کہ وہ جانتی تھی کہ طغرل شہریار کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا اور یہ بتا کر ان کے درمیان زبردست فساد کو کوئی نہیں روک سکتا۔
###
مسز عابدی نے ڈنر کا اہتمام بہت شاندار پیمانے پر کیا تھا۔ فیاض کی فیملی کے علاوہ دونوں بیٹیوں و دامادوں اور دیگر قریبی رشتے داروں کو مدعو کیا تھا خصوصی طور پر عادلہ کو انہوں نے بلوایا تھا تاکہ اپنی بہو کے طور پر اس کو سب سے متعارف کروا سکیں۔
پارٹی کا اہتمام لان میں کیا گیا تھا تمام مہمان آ چکے تھے ویٹرز مشروبات سرو کر رہے تھے۔
بلیک اینڈ پرپل میکسی میں میچنگ جیولری اور میک اپ میں عادلہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ اس محفل کی ”چیف گیسٹ“ تھی اسے بے حد سراہا جا رہا تھا مسز عابدی اور ان کی دونوں بیٹیاں اسے مہمانوں سے متعارف کروا رہی تھیں۔ عادلہ کے لبوں پر مسکراہٹ تھی وہ ایسی پذیرائی ایسی عزت کی تو متمنی تھی۔ یہاں سب شیری کے نام سے اسے گلے لگا رہے تھے مل رہے تھے ،چھیڑ رہے تھے اس کے حسن کو سراہ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کاش ،اس نے صبر کیا ہوتا یہ سب حاصل کرنے کیلئے شیری کی حوصلہ افزائی نہ کرتی۔
اس کی خواہشوں کو بے لگام نہ ہونے دیتی۔ تو آج دل نہ رو رہا ہوتا اور نہ ہی اس طرح مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجانی پڑتی سب کچھ گنوا کر بھی وہ شیری کو نہ پا سکی تھی۔
اماں جان ،عائزہ ،فاخر ،زینی اور ان کے خاوند سراج ،فیاض اور صباحت و طغرل بیٹھے تھے۔ مسز عابدی اور عابدی صاحب بھی گاہے بگاہے وہاں آکر ان کو کمپنی دے رہے تھے وہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
صباحت کی نگاہیں شیری کو ڈھونڈ رہی تھیں جو پوری محفل میں غائب تھا وہ یہاں آئے تو اس کی ایک جھلک دیکھی تھی پھر نامعلوم وہ کہاں غائب ہو گیا تھا۔ مسز عابدی کی قریبی رشتے دار عورتیں عادلہ کے ساتھ شیری کی تصویریں لینا چاہ رہی تھیں اور وہ پہلے تو یہی کہتی رہی کہ شیری ابھی آ رہا ہے لیکن ڈنر ریڈی دیکھ کر ان کے چہرے پر پھیلتا اضطراب انہوں نے دور سے نوٹ کیا تھا پھر انہوں نے ان کو وہاں سے اندر جاتے دیکھا تھا۔
مسز عابدی تیز تیز قدموں سے چلتی سلک کی سلور بلو ساڑھی کا پلو سنبھالتی شیری کے کمرے تک پہنچی تھیں حسب معلوم اس کے کمرے کا دروازہ بند نہ تھا وہ دستک دے کر اندر گئیں تو وہ جوتوں سمیت بیڈ پر لیٹا ہوا سگریٹ پی رہا تھا۔
”یہ کیا حرکت ہے شیری! گھر میں پارٹی ہے اور آپ یہاں اسموکنگ کر رہے ہیں؟ وہاں سب مجھ سے بار بار آپ کا پوچھ رہے ہیں پھر وہاں فیاض بھائی کی فیملی بھی ہے کیا سوچیں گے وہ آپ کو وہاں نہ پا کر یہ سوچا آپ نے؟“ اس کی آنکھوں میں سخت اشتعال موجود تھا۔
”شیری! میں آپ سے کہہ رہی ہوں یہ سب… ہماری نہیں تو کم از کم اپنے سسرالیوں کا ہی خیال کرو اور میرے ساتھ نیچے چلو۔“
”آپ کی پسند پر ہوا ہے یہ رشتہ عادلہ آپ کی چوائس ہے میری نہیں۔ اس لئے آپ خود ہی اٹینڈ کیجئے ان لوگوں کو ساتھ ڈیڈی کو لے لیجئے۔“
”کیا ہوا ایسا؟ کس بات کی ناراضی ہے تک تک تو آپ بے حد خوش تھے۔“
”میں کل ہی نہیں آج بھی سارا دن یہ سوچ کر خوش تھا کہ آج پارٹی میں وہ بھی آئے گی۔
“ وہ بیٹھتے ہوئے بپھرے لہجے میں گویا ہوا۔
”وہ بھی آئے گی… کس کی بات کر رہے ہو؟“
”پری کی ،میں نے آپ سے کہا بھی تھا اس کے بغیر پارٹی نہیں کیجئے گا ،وہ نہیں آئی اور آپ نے پروا بھی نہیں کی میری بات کی۔“
”شیری! شرم کریں کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟“ اس کا لہجہ اس کے جذبات اس کی دیوانگی کے راز کھول رہا تھا۔
”پری عادلہ کی بہن ہے اور آپ کا صرف اس سے یہی رشتہ ہے جو بات آپ کو ہر لمحہ یاد رکھنی ہو گی؟“ وہ چکرا کر رہ گئی تھیں۔
شیری نے بھی ان کی بدلتی کیفیت نوٹ کر لی تھی وہ جانتا تھا ان کو کچھ ہوا تو ڈیڈی بلا لحاظ و مروت اسے دھکے دے کر یہاں سے نکال دیں گے اور وہ بنا عیش و آرام خالی جیبیں لے کر نہیں گھوم سکتا تھا۔
”اوکے! آپ نے میرے ساتھ بہت برا کیا ہے میں پھر بھی آپ کی محبت میں جیتا ہوں۔“ وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا مگر مسز عابدی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ سکی تھی۔
###
سعود دل کی گہرائی میں پنہاں محبتوں کے ساتھ اس سے ملا تھا وہ کسی طرح بھی پری سے دو ڈھائی سال چھوٹا نہیں بلکہ اس سے کئی سال بڑا لگ رہا تھا۔
”پری! تم تو مجھ سے بہت چھوٹی ہو ،مما کہہ رہی تھیں تم مجھ سے بڑی ہو اور میں تم کو پری آپی پکاروں۔“ وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے کہہ رہا تھا۔
”میں آپ سے بڑی ہوں اس لئے آپ مجھے آپی ہی کہیں ،ممی ٹھیک کہتی ہیں۔
“
”نانو آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا میں بڑا لگ رہا ہوں یا پری۔“ اس کے انداز میں بے تکلفی و محبت تھی وہاں موجود صفدر جمال نے مسرت بھرے انداز میں قریب بیٹھی مثنیٰ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے سرگوشی میں ان سے کہا۔
”آج میری فیملی مکمل لگ رہی ہے مثنیٰ! اس وقت کا میں ایک عرصے سے منتظر تھا ،شکر ہے رب نے میرے دل کی سن لی۔“
”شکر ہے پروردگار کا اس نے ہمیں اس اذیت سے نجات دی۔
“
”پاپا آپ کو ڈیسائیڈ کرنا ہوگا۔ یہ نانو توفاؤل کر رہی ہیں۔ میں بڑا لگ رہا ہوں یا پری؟“ وہ نانو کو دیکھتا ہوا پاپا سے بولا۔
”بھائی چھوٹے ہوں یا بڑے ،بہنوں کیلئے ان کو بڑا بننا پڑتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس طرح سے اپنے ذمہ دار بھائی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔“ شفقت بھرے انداز میں پری کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا سعود نے اسے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے پرعزم لہجے میں کہا۔
”آپ مجھے میری بہن کی ذمہ داری و محبت میں پیچھے نہیں پائیں گے۔ میں آپ سے اور مما سے بھی بے حد شرمندہ ہوں پاپا! میں نے بہت دکھی کیا ہے آپ لوگوں کو اپنے برتاؤ سے ،لیکن میں نے وہ جان کر نہیں کیا تھا پوجا کی محبت میں مجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا اور شاید اسی لئے میں بھی مسلسل تکالیف میں رہا۔“ اس کے چہرے پر یک دم تکلیف دہ سنجیدگی چھا گئی تھی۔
”بیٹا! ہمیں صرف یہ یاد ہے آج آپ ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔“ مثنیٰ نے خوش دلی سے کہا اور ملازمہ کے کہنے پر سب کھانے کیلئے اٹھ گئے۔
###
شیری پارٹی میں آ چکا تھا اور عادلہ کے ساتھ مہمانوں سے مل رہا تھا۔ اس نے عادلہ کا ہاتھ اس سختی سے پکڑ رکھا تھا کہ اس کے مسکراتے چہرے پر ایک دبا دبا سا خوف بھی در آیا تھا وہ دیکھ رہی تھی اس ہنستے مسکراتے چہرے کے پیچھے کس قدر وحشت و کرختگی تھی اس کے عزائم کا پتا اس کے ہاتھ کی سخت گرفت دے رہی تھی۔
لوگ ان کے کپل کو سراہ رہے تھے۔ ان کے ساتھ کو پسند کر رہے تھے اور اس کا دل کر رہا تھا وہ یہاں سے بھاگ جائے۔
ڈنر کیا جا چکا تھا۔ مہمانوں نے رخصت ہونا شروع کر دیا تھا۔ مسز عابدی مہمانوں سے ملتی ہوئیں ان کی طرف چلی آئی تھیں۔
”تمہاری فیملی سے مل کر بہت اچھا محسوس ہوا نور جہاں! سب اچھے اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔“ اماں نے ان کے میکے والوں کی فراخدلی سے تعریف کی تھی جسے سن کر وہ کھل اٹھی تھیں۔
فیاض سراج عابدی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔ اب وہاں طغرل ایک چیئر پر تنہا بیٹھا عادلہ اور شیری کو دیکھ رہا تھا اس کی نگاہوں میں الجھن بڑھنے لگی تھی جب اس نے عادلہ کے چہرے پر عجیب قسم کا خوف محسوس کیا تھا اور شیری کی مسکراہٹ بڑی مصنوعی لگی تھی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو دیکھ رہا تھا۔
”طغرل! عادلہ کو بلا کر لائیں بیٹا! گھر جانے کی دیر ہو رہی ہے۔
“ اس کی سماعتوں میں صباحت کی آواز آئی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے قریب چلا آیا عادلہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اسے آتے دیکھ کر اس نے تیزی سے ٹشو پیپر سے آنسو صاف کئے تھے اور مسکرانے لگی تھی۔
”کیا ہوا کیوں رو رہی ہو تم؟“ وہ اس کے قریب آ کر بولا۔
”کچھ نہیں ،کچھ چلا گیا ہے آنکھ میں۔“
”دونوں آنکھوں میں بیک وقت کچھ گر گیا ہے؟“
”ہوں۔
“ وہ کھوکھلی ہنسی ہنسیں۔
”طغرل صاحب آپ اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا عادلہ کا مرڈر کر دیا ہے۔“ اس کے لبوں پر طنز بھری مسکراہٹ تھی۔ خوشی کے موقع پر ایسی بات عادلہ کے متعلق سن کر وہ کہہ اٹھا۔
”مرڈر ناممکن بات ہے میری بہن کو کوئی انگلی سے چھو کر دیکھے میں اس کو ختم کر دوں گا وہ اپنی حسرت دل میں لے کر ہی مرے گا۔“
”انگلی سے چھو کر۔
“ وہ استہزائیہ انداز میں ہنستا ہوا بولا۔
”یہ اپنی نیک پارسا بہن سے پوچھو میں نے اسے…!“
”طغرل بھائی چلیں یہاں سے… چلیں پلیز۔“ جس کا ڈر تھا وہی ہوا تھا شیری اپنی کمینگی پر اتر آیا تھا اور طغرل کا غصے و ضبط سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر وہ اس کا بازو پکڑ کر کہنے لگی۔
”کس کس سے چھپاؤ گی حقیقت ڈارلنگ! میں نے تم سے کہا تھا میری بات مان جاؤ اور بدنام ہونے سے بچا لو خود کو۔
“
”عادلہ! رک جاؤ سننے دو مجھے یہ کیا بکواس کرنا چاہتا ہے۔“ طغرل کا چہرہ غروب ہوتے سورج کی مانند سرخ تھا شیری کو گھورتے ہوئے عادلہ کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”طغرل بھائی! آپ کو دادی کی قسم ہے چلیں یہاں سے شیری اس وقت اپنے ہوش میں نہیں ہے۔“ مارے خوف کے وہ زرد ہو گئی تھی۔
”ہوش میں تمہارے ٹھکانے لگاؤں گا بہت ہوشیار سمجھتی ہو خود کو۔
“ اس نے آگے بڑھ کر غصے سے عادلہ کو دھکا دیا تھا جس کو طغرل نے پھرتی سے سنبھال کر گرنے سے بچایا تھا وہ لان کے اس حصے میں موجود تھے جہاں سے مہمان جا چکے تھے۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔
”یو ایڈیٹ… گیٹ لاسٹ ہمارے درمیان میں نہیں آؤ۔“
”تم اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو… کیا چاہتے ہو تم؟“
”میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں۔
شکل دیکھنا نہیں چاہتا اس کی ،یہ لڑکی اس قابل نہیں ہے کہ شادی کی جائے اس سے۔“ باقی ماندہ لفظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔ طغرل کے تیزی سے پڑتے مکوں نے اس کا چہرہ لہولہان کر دیا تھا وہ اتنا کمزور ثابت ہوا تھا کہ اپنے دفاع کیلئے کچھ نہ کر سکا تھا۔
”جب تم اس کو پسند نہیں کرتے تو یہ پارٹی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ تم عادلہ کا تماشہ بنانا چاہتے ہو اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔
“ وہ اس وقت غصے سے بے حال ہو رہا تھا شیری کی ناک سے خون نکل رہا تھا وہ گھاس پر بچھے کارپٹ پر گر گیا تھا اور عادلہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے سرخ چہرے کے ساتھ تیز تیز سانس لیتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
”آئندہ کبھی عادلہ کے بارے میں کچھ غلط کہنے سے پہلے سوچ لینا میں تمہارا کیا حال کر سکتا ہوں ابھی صرف تمہیں وارننگ دی ہے۔“ وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا۔
عادلہ مڑ مڑ کر اس کو دیکھ رہی تھی۔ گیٹ تک جاتے ہوئے انہوں نے رویے نارمل کر لئے جہاں گھر والوں کے ساتھ مسز اینڈ مسٹر عابدی بھی کھڑے تھے۔ گھر آنے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ گیا۔ باتھ لینے کے بعد بھی اس کے اندر کی وہ بے چینی دور نہ ہوئی تھی جو شیری کی باتوں نے اس کے اندر پیدا کر دی تھی۔ عادلہ کی پریشانی مکمل کھل کر سامنے آ گئی تھی وہ اس کی وجہ سے پریشان تھی۔
”وہ عادلہ کو پسند نہیں کرتا تو کس کو پسند کرتا ہے؟“
”سوچتے ہوئے اس نے وارڈ روب کھولی تھی کچھ نکالنے کیلئے تب ایک کوٹ ہینگر سے گرا تھا اس نے اٹھایا تو اس کی جیب میں کچھ تھا نامعلوم کیا رکھ کر بھول گیا تھا وہ ایک لفافہ تھا جو اس جیب سے برآمد ہوا تھا۔ وہ حیرت سے اس وائٹ لفافے کو دیکھ رہا تھا جس پر واضح طور پر شہریار کا نام و سیل نمبر لکھا ہوا تھا اسے یاد آیا آسٹریلیا جانے سے قبل ایک شخص اس کی کار سے ٹکرایا تھا اور نامعلوم کس طرح اس سے وہ لفافہ گرا ہو جو اس کے جانے کے بعد اسے ملا تھا اور اس کو کوٹ کی جیب میں ڈال کر بھول گیا تھا۔
اس وقت وہ شہریار کو نہیں جانتا تھا اور آج بہت اچھی طرح واقف ہو چکا تھا۔ لفافہ کھولا اور دوسرے لمحے وہ حیرت زدہ ہو گیا وہ تمام تصاویر پارس کی تھیں۔
حسن کی رعنائیاں بکھیرتا چہرہ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ تمام تصاویر بے خبری میں اتاری گئی ہیں۔ اسے یاد آیا شیری نے پارس کی تصاویر اس کی مرضی و اجازت کے بغیر اتاری تھی۔ تب پری نے اسے ٹھیک ٹھاک سنائی تھیں اور مجبوراً اسے معافی مانگنی پڑی تھی۔ یہ وہی تصویریں تھیں لیکن اس طرح سے جیب میں لے کر وہ کیوں گھوم رہا تھا اس گتھی کو سلجھانے کیلئے وہ عادلہ کی مدد لینا چاہتا تھا۔